الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
13. بَابُ مَنَاقِبُ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ:
13. باب: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
(13) Chapter. The merits of Az-Zubair bin Al-Awwam.
حدیث نمبر: 3719
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز هو ابن ابي سلمة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن لكل نبي حواريا، وإن حواري الزبير بن العوام".حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا، وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا جو ابوسلمہ کے صاحبزادے تھے، ان سے محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام (رضی اللہ عنہ) ہیں۔

Narrated Jabir: The Prophet said, "Every prophet used to have a Hawari (i.e. disciple), and my Hawari is Az-Zubair bin Al-`Awwam."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 65

   صحيح البخاري2846جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير
   صحيح البخاري7261جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير
   صحيح البخاري4113جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير
   صحيح البخاري2847جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير بن العوام
   صحيح البخاري2997جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير
   صحيح البخاري3719جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير بن العوام
   صحيح مسلم6243جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير
   جامع الترمذي3745جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير بن العوام
   سنن ابن ماجه122جابر بن عبد اللهلكل نبي حواري حواريي الزبير
   مسندالحميدي1266جابر بن عبد اللهإن لكل نبي حواريا، وحواري الزبير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2997  
´اکیلے سفر کرنا`
«. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: نَدَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ نَدَبَهُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ نَدَبَهُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ"، قَالَ سُفْيَانُ: الْحَوَارِيُّ: النَّاصِرُ . . .»
. . . محمد بن منکدر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک کام کے لیے) غزوہ خندق کے موقع پر صحابہ کو پکارا، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو پکارا، اور اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے کو پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پکارا اور پھر زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر فرمایا کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔ سفیان نے کہا کہ حواری کے معنی معاون، مددگار کے ہیں (یا وفادار محرم راز کو حواری کہا گیا ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2997]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2997 کا باب: «بَابُ السَّيْرِ وَحْدَهُ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ثابت فرمائی ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کافروں کی خبر لانے کے لئے اکیلے تشریف لے گئے، یہ واقعہ غزوہ خندق کا ہے جسے جنگ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔ اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہوگی کہ لازما جب سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش فرمایا کہ میں حاضر ہوں، یعنی کافروں کی خبر لانے کے لئے تو انہوں نے اس کام کے لئے سفر بھی کیا ہوگا اور وہ اکیلے تھے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
اس باب کے ذکر پر امام اسماعیلی نے تعقب فرمایا ہے اور کہتے ہیں:
«لا أعلم هذا الحديث كيف يدخل فى هذا الباب؟»
کہ میں نہیں جانتا کہ یہ حدیث (سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ والی) کس طرح سے باب کے مطلب میں داخل ہے۔
اور اسی بات کی ابن المنیر رحمہ اللہ نے بھی تائید فرمائی ہے کہ ممکن ہے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں ہو۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہوئے فرما تے ہیں:
«قلت: لكن قد ورد من وجه آخر ما يدل على ذالك و فيه قلت يا أبت رأيتك تختلف، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ياتيني بخبر قريظة فانطلقت.» [فتح الباري، ج 6، ص: 170]
یہاں تو اس کا ذکر نہیں ہے (کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اکیلے تھے یا اور کوئی بھی ان کے ساتھ تھا) لیکن یہی واقعہ «مناقب زبير» میں آ رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ سفر تن تنہا فرمایا تھا اور آپ نے خود فرمایا: میں نے ابا جان کو کئی بار بنوقریظہ کی طرف آتے جاتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: آپ بار بار بنو قریظہ کی طرف آرہے ہیں، آخر کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا تھا کہ بنو قریظہ کی خبر کون لائے گا؟ تو میں چل پڑا۔ اس روایت سے واضح طور پر ان کا اکیلے سفر کرنا ثابت ہوا۔ مزید اس سے زیادہ واضح الفاظ سنن النسائی میں موجود ہیں جس کے بعد تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔
وہب بن کیسان رحمہ اللہ اس واقعہ کو ذکر فرماتے ہیں:
«أشهد سمعت جابر بن عبد الله . . . . . فلم يذهب أحد، فذهب الزبير.» [سنن النسائي، ج 5، ص: 262]
میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، پس ان کے ساتھ کوئی نہ گیا، پھر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ خود (اکیلے) گئے۔
فائدہ:
امام مہلب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رات کو تنہا سفر کرنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ رات کا وقت شیاطین کے باہر پھیل جانے، اور ایذائیں پہنچانے، اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کا وقت ہوتا ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بچوں کو باہر نکالنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ لیکن یہ حرام نہیں ہے، اگر کوئی عذر نہ ہو تو مکروہ ہے۔ کوئی رفیق سفر ہمراہ ہو تو افضل اور بہتر ہے۔ [شرح ابن بطل، ج 5، ص: 155]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 426   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث122  
´زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ قریظہ پر حملے کے دن فرمایا: کون ہے جو میرے پاس قوم (یعنی یہود بنی قریظہ) کی خبر لائے؟، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو میرے پاس قوم کی خبر لائے؟، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، یہ سوال و جواب تین بار ہوا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے حواری (خاص مددگار) ہوتے ہیں، اور میرے حواری (خاص مددگار) زبیر ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 122]
اردو حاشہ:
(1)
بنو قریظہ کے خلاف مہم، جنگ خندق کے فوراً بعد شروع ہوئی، اس طرح سے دونوں غزوات گویا ایک ہی ہیں۔
یہاں یوم بنو قریظہ سے مراد جنگ احزاب کے ایک دن کا واقعہ ہے۔

(2)
حواری سے مراد جاں نثار ساتھی ہے۔
جس طرح حضرت عیسی علیہ اسللام کے ساتھیوں (حواریوں)
نے کہا تھا:
﴿نَحْنُ اَنْصَارُ الله﴾ (الصف: 14)
ہم اللہ کے (دین کے)
مددگار ہیں۔

(3)
اس سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان ظاہر ہوتی ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں مقرب ترین ساتھیوں میں شمار فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 122   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3745  
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں ۱؎، اور ابونعیم نے اس میں «یوم الأحزاب» (غزوہ احزاب) کا اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا: کون میرے پاس کافروں کی خبر لائے گا؟ تو زبیر رضی الله عنہ بولے: میں، آپ نے تین بار اسے پوچھا اور زبیر رضی الله عنہ نے ہر بار کہا: میں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3745]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے جب کفار کی سرگرمیوں کا پتہ لگانے کے لیے یہ اعلان کیا کہ کون ہے جو مجھے کافروں کے حال سے با خبر کرے اور ایسا آپﷺ نے تین بار کہا،
تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے بھی جواب نہیں دیا،
اسی موقع پر آپﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرمایا تھا: (اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حِوَارِیاً وَ اِنَّ حِوَارِیْ اَلزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَامُ) یہ بھی یاد رکھئے کہ زبیربن عوام نبی اکرمﷺ کی سگی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے،
اور اُن کی شادی اُم المومنین عائشہ ؓ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3745   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3719  
3719. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3719]
حدیث حاشیہ:
حواری قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کے فدائیوں کو کہاگیا ہے، یوں تو جملہ صحابہ کرام ؓ ہی آنحضرت ﷺ کے فدائی تھے، مگر بعض خصوصیات کی بناپر آپ نے یہ لقب حضرت زبیر ؓ کو عطا فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3719   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3719  
3719. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3719]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ان تعریفی کلمات کا سبب بیان ہوا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے پاس مشرکین کی جاسوسی کون کرے گا اور ان کے حالات سے مجھے کون آگاہ کرے گا؟ حضرت زبیر ؓ نے کہا:
اللہ کے رسول ﷺ ! اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔
آپ نے تین مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت زبیر نے یہی جواب دیا کہ میں مشرکین کے ناپاک عزائم معلوم کروں گا اور آپ تک پہنچاؤں گا۔
اس وقت آپ نے یہ تعریفی کلمات ارشاد فرمائے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2847)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے وقت میں مدد کرنا دوسرے اوقات کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کسی کے حالات معلوم کرنے کے لیے ان میں گھس جانا،اپنی جا ن خطرے میں ڈالنا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3719   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.