الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
10. بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ الْعَوْرَةِ:
10. باب: ستر کا بیان جس کو ڈھانکنا چاہیے۔
(10) Chapter. What may be used to cover the private parts of the body.
حدیث نمبر: 369
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن اخي ابن شهاب، عن عمه، قال: اخبرني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، ان ابا هريرة، قال:" بعثني ابو بكر في تلك الحجة في مؤذنين، يوم النحر نؤذن بمنى ان لا يحج بعد العام مشرك ولا يطوف بالبيت عريان، قال حميد بن عبد الرحمن: ثم اردف رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فامره ان يؤذن ببراءة، قال ابو هريرة: فاذن معنا علي في اهل منى يوم النحر، لا يحج بعد العام مشرك ولا يطوف بالبيت عريان".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي مُؤَذِّنِينَ، يَوْمَ النَّحْرِ نُؤَذِّنُ بِمِنًى أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: ثُمَّ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةٌ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْل مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ، لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے میرے بھائی ابن شہاب نے اپنے چچا کے واسطہ سے، انہوں نے کہا مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حج کے موقع پر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم نحر (ذی الحجہ کی دسویں تاریخ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ سورۃ برات پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔

Narrated Abu Huraira: On the Day of Nahr (10th of Dhul-Hijja, in the year prior to the last Hajj of the Prophet when Abu Bakr was the leader of the pilgrims in that Hajj) Abu Bakr sent me along with other announcers to Mina to make a public announcement: "No pagan is allowed to perform Hajj after this year and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka`ba. Then Allah's Apostle sent 'All to read out the Surat Bara'a (at-Tauba) to the people; so he made the announcement along with us on the day of Nahr in Mina: "No pagan is allowed to perform Hajj after this year and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka`ba."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 365

   صحيح البخاري4363عبد الرحمن بن صخرلا يحج بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان
   صحيح البخاري369عبد الرحمن بن صخرأردف رسول الله عليا فأمره أن يؤذن ببراءة أذن معنا علي في أهل منى يوم النحر لا يحج بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان
   صحيح البخاري3177عبد الرحمن بن صخرلم يحج عام حجة الوداع الذي حج فيه النبي مشرك
   صحيح البخاري4657عبد الرحمن بن صخرلا يحجن بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان
   صحيح البخاري4656عبد الرحمن بن صخرلا يحج بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان
   صحيح البخاري4655عبد الرحمن بن صخرلا يحج بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان
   صحيح البخاري1622عبد الرحمن بن صخرلا يحج بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان
   صحيح مسلم3287عبد الرحمن بن صخرلا يحج بعد العام مشرك لا يطوف بالبيت عريان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:369  
369. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حج میں قربانی کے دن منادی کرنے والوں کے ہمراہ روانہ کیا تاکہ ہم منیٰ میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص برہنہ ہو کر طواف نہ کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا: پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ مشرکین سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:369]
حدیث حاشیہ:

بیت اللہ کا برہنہ طواف کرنے کی ممانعت ہی ستر پوشی کے وجوب کی دلیل ہے۔
عنوان کے ساتھ حدیث کے اسی جز کی مطابقت ہے۔
(عمدة القاري: 291/3)
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں عورت بیت اللہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کرتی اور کہتی کہ مجھے کوئی طواف کے لیے اتنا کپڑا عاریتاً دے دے جس سے میں اپنی شرم گاہ ڈھانپ سکوں اور وہ شعر پڑھتی۔
آج جسم کا کچھ حصہ یا تمام جسم ننگا ہے اور جو حصہ عریاں ہے اسے کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں کرتی ہوں اللہ تعالیٰ نے اسی عریانی کے سد باب کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾ اے اولاد آدم!ہر مسجد میں نماز کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔
(صحیح مسلم، التفسیر، حدیث: 7551 (3028)

جب حج فرض ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ فرمایا:
انھوں نے مکہ پہنچ کر حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اعلان پر مامور کیا جس کا ذکر حدیث میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جس اعلان براءت کے لیے حضرت علی ؓ کو روانہ فرمایا تھا وہ سورہ براءت کی ابتدائی آیات تھیں۔
جامع ترمذی میں اس کی تفصیل ہے:
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ان امور کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔
پھر حضرت علیؓ کو حکم فرمایا:
پھر جب دونوں حضرات نے حج کر لیا تو حضرت علی ؓ نے چار باتوں کا اعلان کیا:
اللہ اور اس کا رسول اللہ ﷺ ہر مشرک سے بری الذمہ ہے، انھیں صرف چار ماہ کی رعایت ہے۔
اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کے حج کے لیے نہیں آسکے گا۔
کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا۔
اللہ کی جنت میں صرف اہل ایمان کو داخلہ ملے گا۔
حضرت علی ؓ اعلان کرتے تھے جب وہ تھک جاتے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کھڑے ہو کر انھی باتوں کا اعلان کرتے۔
(جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3091)
3 حضرت علی ؓ کو الگ سے آیات براءت پڑھنے کے حکم میں یہ حکمت تھی کہ ان آیات میں نقض عہد کی بات تھی اور عرب کے دستور کے مطابق نقض عہد وہی کر سکتا تھا جس نے عہد باندھا ہو یا پھر کوئی ایسا شخص یہ کام کرتا جو اس کے اہل بیت سے ہوتا۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ نقض عہد کی بات دو ٹوک ہو جائے اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
بعض نے کہا ہے کہ سورہ براءت میں چونکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ذکر خیر تھا اس لیے منا سب ہوا کہ آیات براءت کوکوئی دوسرا شخص پڑھ کر سنائے۔
(عمدة القاري: 3/292)

حج کی فرضیت نویں سال ہوئی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس سال حج نہیں فرمایا جبکہ فریضہ حج جلد ادا کرنا مطلوب ہے۔
آپ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو حج کے لیے روانہ فرمایا۔
شارحین نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ عرب کے ہاں ایک بری رسم تھی کہ وہ اپنی مطلب برآری کے لیے مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے جسے قرآن کریم نے نسئی سے تعبیر کیا ہے، اس فعل شنیع کی وجہ سے ایام حج اپنی مقرر ہ جگہ سے آگے پیچھے جاتے۔
جس سال حج فرض ہوا اس وقت بھی ایسی ہی صورت تھی کہ حج اپنے خاص مہینے میں ادا نہیں ہوا تھا۔
دسویں حج ٹھیک اپنے مہینوں میں آگیا جس کی وضاحت آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مختلف خطبات میں فرمائی، اس لیے آپ نے نویں سال حج کرنے کی بجائے دسویں سال یہ فریضہ ادا فرمایا تاکہ یہ اپنے ایام میں ادا ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ جن فرد گزاشتوں کی اصلاح ناممکن یا دشوار ہو ان میں مسامحت سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، کیونکہ جن لوگوں نے ہجرت کے نویں سال حج کیا ان کا حج یقیناً معتبر ہوا ہے، کسی کو بھی اس کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 369   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.