الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
17. بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ:
17. باب: غزوہ احد کا بیان۔
(17) Chapter. The Ghazwa of Uhud.
حدیث نمبر: 4048
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
اخبرنا حسان بن حسان , حدثنا محمد بن طلحة , حدثنا حميد , عن انس رضي الله عنه , ان عمه غاب عن بدر , فقال: غبت عن اول قتال النبي صلى الله عليه وسلم , لئن اشهدني الله مع النبي صلى الله عليه وسلم ليرين الله ما اجد , فلقي يوم احد فهزم الناس , فقال: اللهم إني اعتذر إليك مما صنع هؤلاء يعني المسلمين , وابرا إليك مما جاء به المشركون , فتقدم بسيفه فلقي سعد بن معاذ , فقال: اين يا سعد إني اجد ريح الجنة دون احد؟ فمضى فقتل فما عرف حتى عرفته اخته بشامة , او ببنانه وبه بضع وثمانون من طعنة وضربة ورمية بسهم.أَخْبَرَنَا حَسَّانُ بْنُ حَسَّانَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ , فَقَالَ: غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَئِنْ أَشْهَدَنِي اللَّهُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أُجِدُّ , فَلَقِيَ يَوْمَ أُحُدٍ فَهُزِمَ النَّاسُ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ يَعْنِي الْمُسْلِمِينَ , وَأَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ الْمُشْرِكُونَ , فَتَقَدَّمَ بِسَيْفِهِ فَلَقِيَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ , فَقَالَ: أَيْنَ يَا سَعْدُ إِنِّي أَجِدُ رِيحَ الْجَنَّةِ دُونَ أُحُدٍ؟ فَمَضَى فَقُتِلَ فَمَا عُرِفَ حَتَّى عَرَفَتْهُ أُخْتُهُ بِشَامَةٍ , أَوْ بِبَنَانِهِ وَبِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ.
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے، پھر انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہو گئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا، سعد! کہاں جا رہے ہو؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے اور شہید کر دیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا ان کی انگلیوں کے پور سے ان کی لاش کو پہچانا۔ انکو اسّی (80) سے زیادہ زخم بھالے اور تلوار اور تیروں کے لگے تھے۔

Narrated Anas: His uncle (Anas bin An-Nadr) was absent from the battle of Badr and he said, "I was absent from the first battle of the Prophet (i.e. Badr battle), and if Allah should let me participate in (a battle) with the Prophet, Allah will see how strongly I will fight." So he encountered the day of Uhud battle. The Muslims fled and he said, "O Allah ! I appeal to You to excuse me for what these people (i.e. the Muslims) have done, and I am clear from what the pagans have done." Then he went forward with his sword and met Sad bin Mu'adh (fleeing), and asked him, "Where are you going, O Sad? I detect a smell of Paradise before Uhud." Then he proceeded on and was martyred. No-body was able to recognize him till his sister recognized him by a mole on his body or by the tips of his fingers. He had over 80 wounds caused by stabbing, striking or shooting with arrows.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 378

   صحيح البخاري2805أنس بن مالكإني أجد ريحها من دون أحد قال سعد فما استطعت يا رسول الله ما صنع قال أنس فوجدنا به بضعا وثمانين ضربة بالسيف أو طعنة برمح أو رمية بسهم ووجدناه قد قتل وقد مثل به المشركون فما عرفه أحد إلا أخته ببنانه قال أنس كنا نرى أو نظن أن هذه الآية نزلت فيه وفي أشباهه من
   صحيح البخاري4048أنس بن مالكإني أجد ريح الجنة دون أحد فمضى فقتل فما عرف حتى عرفته أخته بشامة أو ببنانه وبه بضع وثمانون من طعنة وضربة ورمية بسهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4048  
4048. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کے چچا غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا، اگر اللہ تعالٰی نے کسی اور لڑائی میں مجھے نبی ﷺ کے ساتھ شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالٰی دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر جب غزوہ اُحد کا موقع آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں افراتفری پھیل گئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا ہے میں تیرے حضور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور جو مشرکین نے کردار ادا کیا ہے میں اس سے اظہار بے زاری کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کہا: اے سعد! تم کہاں جا رہے ہو؟ میں اُحد کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ پھر وہ جنگ میں کود پڑے اور شہید ہو گئے۔ ان کی لاش شناخت نہیں ہو رہی تھی۔ آخر ان کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4048]
حدیث حاشیہ:
ابن شکوال نے کہا اس شخص کا نام عمیر بن حمام ؓ تھا۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ عمیر بن حمام ؓ نے جنگ احد کے دن کچھ کھجوریں نکالیں ان کو کھانے لگے پھر کہنے لگے ان کھجورں کے تمام کرنے تک اگر میں جیتا رہا تو یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی چنانچہ جاکر لڑنے لگے اور مارے گئے۔
اسد الغابہ میں ہے کہ عمیر بدر کے دن مارے گئے اور یہ سب انصار میں پہلے شخص تھے جو اللہ کی راہ میں جنگ میں مارے گئے۔
ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ عمیر بن حمام ؓ جب کافروں سے جنگ بدر میں بھڑ گئے تو یہ کہنے لگے کہ اللہ کے پاس جاتا ہوں۔
توشہ ووشہ کچھ نہیں البتہ خدا کا ڈر اور آخرت میں کام آنے والا عمل اور جہاد پر صبر ہے۔
بے شک خدا کا ڈر نہایت مضبوط کرنے والا امر ہے۔
انس بن نضر انصاری ؓ کو عمر بن خطاب ؓ ملے جو گھبرائے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا بڑا غضب ہو گیا۔
آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے۔
انس ؓ نے کہا کہ پھر اب ہم تم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔
آنحضرت ﷺ کا خدا تو زندہ ہے۔
اس دین پر لڑ کر مرو جس پر پیغمبر لڑ ے یہ کہہ کر انس بن نضر ؓ کافروں کی صف میں گھس گئے اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
کہتے ہیں احد کی جنگ میں کافروں کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ نے سنبھالا اس کو حضرت علی ؓنے مارا۔
پھر عثمان بن ابی طلحہ نے اس کو امیر حمزہ نے مارا۔
پھر ابو سعید بن ابی طلحہ نے اس کو سعد بن ابی وقاص ؓ نے مارا۔
پھر نافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو عاصم بن ثابت انصاری ؓ نے مارا۔
پھر حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو بھی عاصم نے مارا۔
پھر کلاب بن ابی طلحہ نے اس کو زبیر ؓ نے مارا۔
پھر جلاس بن طلحہ نے پھر ارطاۃ بن شرحبیل نے اس کو حضرت علی ؓ نے مارا۔
پھر شریح بن قارض نے وہ بھی مارا گیا۔
پھر صواب ایک غلام نے اس کو سعد بن ابی وقاص ؓ یا حضرت علی ؓ یا قزمان ؓ نے مارا۔
اس کے بعد کافر بھاگ نکلے (وحیدی)
اس حدیث کے ذیل میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایک اور تقریر درج کی جاتی ہے جو توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے۔
فرماتے ہیں۔
مسلمانو! ہمارے باپ دادا نے ایسی ایسی بہادریاں کرکے خون بہا کر اسلام کو دنیا میں پھیلایا تھا اور اتنا بڑا وسیع ملک حاصل کیا تھا جس کی حد مغرب میں تونس اور اندلس یعنی ہسپانیہ تک اور مشرق میں چین برہما تک اور شمال میں روس تک اور جنوب میں ولایات روم وایران و توران و ہندوستان وعرب وشام ومصر وافریقہ ان کے زیر نگیں تھیں۔
ہماری عیاشی اور بے دینی نے اب یہ نوبت پہنچائی ہے کہ خاص عرب کے سوا حل اور بلاد بھی کافروں کے قبضے میں آرہے ہیں اور ملک تو اب جا چکے ہیں اب جتنا رہ گیا ہے اس کو بنا لو خواب غفلت سے بیدار ہو تو قرآ ن وحدیث کو مضبوط تھا مو۔
وما علینا إلا البلاغ (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4048   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4048  
4048. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کے چچا غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا، اگر اللہ تعالٰی نے کسی اور لڑائی میں مجھے نبی ﷺ کے ساتھ شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالٰی دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر جب غزوہ اُحد کا موقع آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں افراتفری پھیل گئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا ہے میں تیرے حضور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور جو مشرکین نے کردار ادا کیا ہے میں اس سے اظہار بے زاری کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ؓ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کہا: اے سعد! تم کہاں جا رہے ہو؟ میں اُحد کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ پھر وہ جنگ میں کود پڑے اور شہید ہو گئے۔ ان کی لاش شناخت نہیں ہو رہی تھی۔ آخر ان کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4048]
حدیث حاشیہ:

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ غزوہ بدر کے وقت مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔
شاید اپنے کسی کام کے لیے کہیں باہر گئے ہوں۔
اگرچہ غزوہ بدر سے پہلے بھی کفار کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں لیکن غزوہ بدر پہلی جنگ عظیم تھی جو کفر و اسلام کے درمیان برپا ہوئی۔

حضرت انس بن نضر ؓنے احد کے دامن میں جنت کی خوشبو کو سونگھار یہ خوشبو حقیقی تھی یا اسے مجازی معنی پر محمول کیا جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں معنی بیان کیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اسے مجازی معنی پر محمول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسے ظاہری اور حقیقی معنی پر محمول کرنے میں عافیت ہے روایات میں ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ جنت کو دیکھتا اور اس کی مہک سے محفوظ ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اگر مرنے والا مقرب لوگوں میں سے ہے تو اس کے لیے خوشبو ئیں جنت کی نعمتیں اور آرام و سکون ہو گا۔
(الواقعة: 88۔
89)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4048   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.