الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
45. بَابُ غَزْوَةُ مُوتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ:
45. باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
(45) Chapter. The Ghazwa of Mu’tah in the land of Sham.
حدیث نمبر: 4262
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا احمد بن واقد، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن حميد بن هلال، عن انس رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم نعى زيدا، وجعفرا، وابن رواحة للناس قبل ان ياتيهم خبرهم , فقال:" اخذ الراية زيد فاصيب، ثم اخذ جعفر فاصيب، ثم اخذ ابن رواحة فاصيب"، وعيناه تذرفان حتى اخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى زَيْدًا، وَجَعْفَرًا، وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ , فَقَالَ:" أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ"، وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ.
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔

Narrated Anas: The Prophet had informed the people of the martyrdom of Zaid, Ja`far and Ibn Rawaha before the news of their death reached. The Prophet said, "Zaid took the flag (as the commander of the army) and was martyred, then Ja`far took it and was martyred, and then Ibn Rawaha took it and was martyred." At that time the Prophet's eyes were shedding tears. He added, "Then the flag was taken by a Sword amongst the Swords of Allah (i.e. Khalid) and Allah made them (i.e. the Muslims) victorious."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 561

   صحيح البخاري4262أنس بن مالكنعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن يأتيهم خبرهم فقال أخذ الراية زيد فأصيب ثم أخذ جعفر فأصيب ثم أخذ ابن رواحة فأصيب وعيناه تذرفان أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم
   صحيح البخاري3630أنس بن مالكنعى جعفرا وزيدا قبل أن يجيء خبرهم وعيناه تذرفان
   سنن النسائى الصغرى1879أنس بن مالكنعى زيدا وجعفرا قبل أن يجيء خبرهم فنعاهم وعيناه تذرفان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4262  
4262. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کی شہادت کی خبر اس وقت اپنے صحابہ کرام کو دی جب ان کے متعلق دیگر ذرائع سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: زید نے اسلامی جھنڈا اٹھایا۔ وہ شہید کر دیے گئے تو پھر جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی جام شہادت نوش کر چکے تو پھر ابن رواحہ ؓ نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی شہید کر دیے گئے۔ اس دوران میں آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حتی کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(خالد بن ولید ؓ) نے جھنڈا پکڑ لیا۔ پھر اللہ نے اس کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4262]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ اس غزوہ میں شریک نہ تھے۔
آپ یہ سب خبریں مدینہ میں بیٹھ کر صحابہ ؓ کو دے رہے تھے اور آپ کو بذیعہ وحی یہ سارے حالات معلوم ہو گئے تھے۔
آپ غیب داں نہیں تھے۔
واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت جعفر ؓ اس جنگ میں دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے ہوئے تھے۔
دشمنوں نے وہ ہاتھ کاٹ ڈالا تو انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا۔
دشمنوں نے اس کو بھی کاٹ ڈالا وہ شہید ہو گئے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان کو جنت میں دو بازو پرندے کی طرح کے بخش دیئے ہیں وہ ان سے جنت میں جہاں چاہیں اڑتے پھرتے ہیں۔
لفظ طیار کے معنی اڑنے والے کے ہیں۔
اسی سے آپ کو جعفر طیار ؓ کے نام سے پکارا گیا رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
حضرت جعفر ؓ کے دو بیٹے عبد اللہ اور محمد نامی تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ان پر بڑی شفقت فرمائی۔
موسی بن عقبہ نے مغازی میں ذکر کیا ہے کہ یعلی بن امیہ اہل موتہ کی خبر لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔
آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو موتہ والوں کا حال مجھ کو سناؤ ورنہ میں خود ہی تم کو ان کا پورا حال سنا دیتا ہوں۔
(جو اللہ نے تمہارے آنے سے پہلے مجھ کو وحی کے ذریعہ بتلادیا ہے)
چنانچہ خود آپ نے ان کا پورا حال بیان فرمادیا جسے سن کر یعلی بن امیہ کہنے لگے کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے کہ آپ نے اہل موتہ کے حالات سنانے میں ایک حرف کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے۔
آپ کا بیان حرف بہ حرف صحیح ہے۔
(قسطلانی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4262   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4262  
4262. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کی شہادت کی خبر اس وقت اپنے صحابہ کرام کو دی جب ان کے متعلق دیگر ذرائع سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: زید نے اسلامی جھنڈا اٹھایا۔ وہ شہید کر دیے گئے تو پھر جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی جام شہادت نوش کر چکے تو پھر ابن رواحہ ؓ نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ بھی شہید کر دیے گئے۔ اس دوران میں آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حتی کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(خالد بن ولید ؓ) نے جھنڈا پکڑ لیا۔ پھر اللہ نے اس کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4262]
حدیث حاشیہ:

حضرت خالد بن ولید ؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور جب انھوں نے حضر ت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا پکڑا تو اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا، وہ پیچھے ہٹ کر پھر آگے بڑھے۔
رومیوں نے سمجھا کہ انھیں تازہ کمک(مدد)
پہنچ گئی ہے، اس لیے وہ آگے بڑھے ہیں۔
اس موقع پر گھمسان کی جنگ ہوئی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق یوں دعا فرمائی:
اے اللہ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما۔
(السنن الکبری للنسائی: 69/5۔
)

اس وقت سے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ(اللہ کی تلوار)
کہا جاتا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کو مشروط سپہ سالار یا امیر بنانا جائزہے اور یہ بھی واضح ہواکہ بوقت ضرورت حاکم اعلیٰ کی اجازت کے بغیر امیر بنانا بھی جائز ہے۔
اس حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی واضح فضیلت ہے۔
(فتح الباري: 642/7۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4262   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.