الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
79. بَابُ غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ:
79. باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
(79) Chapter. The Ghazwa of Tabuk, which is also called Ghazwa AI-Usrah (i.e., the battle of hardship).
حدیث نمبر: 4417
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبيد الله بن سعيد، حدثنا محمد بن بكر، اخبرنا ابن جريج، قال: سمعت عطاء يخبر، قال: اخبرني صفوان بن يعلى بن امية،عن ابيه، قال: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم العسرة، قال: كان يعلى يقول تلك الغزوة اوثق اعمالي عندي، قال عطاء: فقال صفوان: قال يعلى: فكان لي اجير، فقاتل إنسانا فعض احدهما يد الآخر، قال عطاء: فلقد اخبرني صفوان ايهما عض الآخر فنسيته، قال: فانتزع المعضوض يده من في العاض، فانتزع إحدى ثنيتيه، فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فاهدر ثنيته، قال عطاء: وحسبت، انه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" افيدع يده في فيك تقضمها كانها في في فحل يقضمها".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يُخْبِرُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ،عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُسْرَةَ، قَالَ: كَانَ يَعْلَى يَقُولُ تِلْكَ الْغَزْوَةُ أَوْثَقُ أَعْمَالِي عِنْدِي، قَالَ عَطَاءٌ: فَقَالَ صَفْوَانُ: قَالَ يَعْلَى: فَكَانَ لِي أَجِيرٌ، فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا يَدَ الْآخَرِ، قَالَ عَطَاءٌ: فَلَقَدْ أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ أَيُّهُمَا عَضَّ الْآخَرَ فَنَسِيتُهُ، قَالَ: فَانْتَزَعَ الْمَعْضُوضُ يَدَهُ مِنْ فِي الْعَاضِّ، فَانْتَزَعَ إِحْدَى ثَنِيَّتَيْهِ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، قَالَ عَطَاءٌ: وَحَسِبْتُ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَأَنَّهَا فِي فِي فَحْلٍ يَقْضَمُهَا".
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے صفوان بن یعلٰی بن امیہ نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ عسرت میں شریک تھا۔ بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنے تمام عملوں میں اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے۔ عطاء نے بیان کیا، ان سے صفوان نے بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نے ایک مزدور بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ وہ ایک شخص سے لڑ پڑا اور ایک نے دوسرے کا ہاتھ دانت سے کاٹا۔ عطاء نے بیان کیا کہ مجھے صفوان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ان دونوں میں سے کس نے اپنے مقابل کا ہاتھ کاٹا تھا، یہ مجھے یاد نہیں ہے۔ بہرحال جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے جو کھینچا تو کاٹنے والے کے آگے کا ایک دانت بھی ساتھ چلا آیا۔ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت کے ٹوٹنے پر کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ عطاء نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا وہ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ رہنے دیتا تاکہ تو اسے اونٹ کی طرح چبا جاتا۔

Narrated Safwan bin Ya`la bin Umaiya: that his father said, "I participated in Al-Usra (i.e. Tabuk) along with the Prophet." Ya`la added, "(My participation in) that Ghazwa was the best of my deeds to me." Ya`la said, "I had a laborer who quarrelled with somebody, and one of the two bit the hand of the other (`Ata', the sub-narrator, said, "Safwan told me who bit whom but I forgot it"), and the one who was bitten, pulled his hand out of the mouth of the biter, so one of the incisors of the biter was broken. So we came to the Prophet and he considered the biter's claim as invalid (i.e. the biter did not get a recompense for his broken incisor). The Prophet said, "Should he leave his hand in your mouth so that you might snap it as if it were in the mouth of a male camel to snap it?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 701

   صحيح البخاري2973يعلى بن أميةأيدفع يده إليك فتقضمها كما يقضم الفحل
   صحيح البخاري6893يعلى بن أميةعض رجل فانتزع ثنيته فأبطلها النبي
   صحيح البخاري4417يعلى بن أميةأفيدع يده في فيك تقضمها كأنها في في فحل يقضمها
   صحيح مسلم4371يعلى بن أميةأردت أن تقضمه كما يقضم الفحل
   صحيح مسلم4372يعلى بن أميةانتزع المعضوض يده من في العاض فانتزع إحدى ثنيتيه فأتيا النبي فأهدر ثنيته
   سنن أبي داود4584يعلى بن أميةأتريد أن يضع يده في فيك تقضمها كالفحل
   سنن النسائى الصغرى4771يعلى بن أميةأيدعها يقضمها كقضم الفحل
   سنن النسائى الصغرى4767يعلى بن أميةيعض أحدكم أخاه كما يعض البكر فأبطلها
   سنن النسائى الصغرى4768يعلى بن أميةيعض أحدكم أخاه كما يعض البكر فأطلها أي أبطلها
   سنن النسائى الصغرى4770يعلى بن أميةرجلا عض يد رجل فانتزعت ثنيته فأتى النبي فأهدرها
   سنن النسائى الصغرى4772يعلى بن أميةعض الآخر فسقطت ثنيته فأتى النبي فذكر ذلك له فأهدره النبي
   سنن النسائى الصغرى4773يعلى بن أميةأفيدع يده في فيك تقضمها
   مسندالحميدي806يعلى بن أميةأيدعها في فيك تقضمها قضم الفحل، وأهدرها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4584  
´ایک شخص دوسرے سے لڑے اور دوسرا اپنا دفاع کرے تو اس پر سزا نہ ہو گی۔`
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو کر دیا، اور فرمایا: کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے لغو قرار دیا اور کہا: (اللہ کرے) اس کا دانت نہ رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4584]
فوائد ومسائل:
حملہ آور کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا حق واجب ہے اور اس صورت میں حملہ آور کو اگر کو ئی چوٹ لگ جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو اس کا کوئی معاوضہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4584   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4417  
4417. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں حاضر ہوا۔ حضرت یعلیٰ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک یہ غزوہ میرا انتہائی قابل وثوق عمل ہے۔ میرا ایک مزدور تھا، وہ ایک دوسرے شخص سے جھگڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا ڈالا۔ (راوی حدیث) حضرت عطاء نے کہا: مجھے صفوان بن یعلیٰ نے بتایا تھا کہ کس نے دوسرے کا ہاتھ چبایا مگر یہ میں بھول گیا ہوں۔ انہوں نے کہا: جس کا ہاتھ چبایا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ، چبانے والے کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک دانت نکل گیا۔ وہ دونوں نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے اس کے دانت کو ضائع قرار دیا۔ حضرت عطاء نے کہا: میرا خیال ہے کہ حضرت صفوان بن یعلیٰ نے کہا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑے رکھتا جسے تو چباتا رہتا گویا وہ اونٹ کے منہ میں ہے جسے وہ چباتا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4417]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ بھی جنگ تبوک میں پیش آیا تھا۔
اسی لیے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4417   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4417  
4417. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں حاضر ہوا۔ حضرت یعلیٰ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے نزدیک یہ غزوہ میرا انتہائی قابل وثوق عمل ہے۔ میرا ایک مزدور تھا، وہ ایک دوسرے شخص سے جھگڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا ڈالا۔ (راوی حدیث) حضرت عطاء نے کہا: مجھے صفوان بن یعلیٰ نے بتایا تھا کہ کس نے دوسرے کا ہاتھ چبایا مگر یہ میں بھول گیا ہوں۔ انہوں نے کہا: جس کا ہاتھ چبایا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ، چبانے والے کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے والے دو دانتوں میں سے ایک دانت نکل گیا۔ وہ دونوں نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے اس کے دانت کو ضائع قرار دیا۔ حضرت عطاء نے کہا: میرا خیال ہے کہ حضرت صفوان بن یعلیٰ نے کہا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑے رکھتا جسے تو چباتا رہتا گویا وہ اونٹ کے منہ میں ہے جسے وہ چباتا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4417]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق ہماری گزارشات کتاب الدیات میں ذکر ہوں گی۔
چونکہ اس حدیث میں غزوہ عسرہ، یعنی تبوک کا ذکر ہے اس بنا پر امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4417   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.