الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
23. بَابُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ} إِلَى قَوْلِهِ: {عَذَابٌ أَلِيمٌ} :
23. باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے بارے میں بدلہ لینا فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام“ آخر آیت «عذاب أليم» تک۔
(23) Chapter. “O you who believe! Al-Qisas (the Law of Equality in punishment) is prescribed for you...” (V.2:178)
حدیث نمبر: 4500
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني عبد الله بن منير , سمع عبد الله بن بكر السهمي , حدثنا حميد , عن انس: ان الربيع عمته، كسرت ثنية جارية، فطلبوا إليها العفو، فابوا فعرضوا الارش، فابوا فاتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابوا إلا القصاص، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقصاص، فقال انس بن النضر: يا رسول الله , اتكسر ثنية الربيع لا، والذي بعثك بالحق لا تكسر ثنيتها , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا انس ,كتاب الله القصاص"، فرضي القوم فعفوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ , سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ السَّهْمِيَّ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ الرُّبَيِّعَ عَمَّتَهُ، كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهَا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا فَعَرَضُوا الْأَرْشَ، فَأَبَوْا فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَوْا إِلَّا الْقِصَاصَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَنَسُ ,كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ"، فَرَضِيَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن بکر سہمی سے سنا، ان سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔ پھر لڑکی والے راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔

Narrated Anas: That his aunt, Ar-Rubai' broke an incisor tooth of a girl. My aunt's family requested the girl's relatives for forgiveness but they refused; then they proposed a compensation, but they refused. Then they went to Allah's Messenger and refused everything except Al-Qisas (i.e. equality in punishment). So Allah's Apostle passed the judgment of Al-Qisas (i.e. equality of punishment). Anas bin Al-Nadr said, "O Allah's Messenger ! Will the incisor tooth of Ar-Rubai be broken? No, by Him Who sent you with the Truth, her incisor tooth will not be broken." Allah's Messenger said, "O Anas! The prescribed law of Allah is equality in punishment (i.e. Al-Qisas.)" Thereupon those people became satisfied and forgave her. Then Allah's Messenger said, "Among Allah's Worshippers there are some who, if they took Allah's Oath (for something), Allah fulfill their oaths."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 27

   صحيح البخاري4611أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   صحيح البخاري4500أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   صحيح البخاري2703أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   جامع الترمذي3854أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره منهم البراء بن مالك
   سنن أبي داود4595أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرى4759أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرى4761أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرى4760أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبره
   سنن ابن ماجه2649أنس بن مالكلو أقسم على الله لأبرة
   بلوغ المرام1003أنس بن مالكإن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2649  
´دانت میں قصاص کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کے سامنے کا دانت توڑ ڈالا، تو ربیع کے لوگوں نے معافی مانگی، لیکن لڑکی کی جانب کے لوگ معافی پر راضی نہیں ہوئے، پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی، تو انہوں نے دیت لینے سے بھی انکار کر دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا، تو انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! اللہ کی کتاب قصاص کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2649]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دانٹ توڑنے پر بھی فصاص کا قانون نافذ ہوتا ہے، یعنی مجرم کا دانٹ توڑ دیا جائے یا دیت لے لی جائے یا معاف کردیا جائے۔

(2)
ایک دانت توڑنے کی دیت پانچ اونٹ ہے۔

(3)
حضرت انس بن نضر ؓ نے فرمایا کہ ربیع رضی اللہ عنہا کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔
یہ رسول اللہﷺ کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد کا اظہار تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے دل پھیر دے گا اور وہ دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے یا معاف کردیں گے۔

(4)
کسی معزز شخصیت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔

(5)
اس واقعے میں حضرت انس بن نضر ؓ اوران کی ہمشیرہ کی عظمت اور رفعت مقام کا اظہار ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2649   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1003  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی۔ اسے بھی انہوں نے رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آئے اور قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر سیدنا انس بن نضر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس! اللہ کا نوشتہ تو قصاص ہی ہے۔ اتنے میں وہ لوگ اس پر رضامند ہو گئے اور پھر معافی دے دی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1003»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.»
تشریح:
اس حدیث سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ انھوں نے جو قسم کھائی‘ اللہ نے اسے پورا فرما دیا۔
انھوں نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کی بنا پر قسم کھائی تھی جسے اللہ نے پورا کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تردید اور اعراض مقصود نہ تھا۔
ایسا ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی کے نافرمان شمار ہوتے جو کہ ایک صحابی کی شان کے ہر گز لائق نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعریف فرمانا ان کی فضیلت و منقبت کا کھلا ثبوت ہے۔
راویٔ حدیث:
«‏‏‏‏حضرت رُبَیِّع بنت نضر رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ را پر ضمہ‘ با پر فتحہ اور یا کے نیچے کسرہ اور تشدید ہے۔
یہ نضر بن ضمضم بن زید بن حرام کی بیٹی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حارثہ بن سراقہ‘ جو غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش فرما کر خلد بریں کے مکین بن گئے ‘ کی والدہ تھیں۔
«حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ حضرت رُبَیِّع کے بھائی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔
یہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔
اس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔
جنگ احد کے روز مسلمانوں کے رویے پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے مشرکین کی صف کی جانب بڑھے کہ میں تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
اس کے بعد خوب لڑے اور شہید ہو گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1003   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3854  
´براء بن مالک رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنے پراگندہ بال غبار آلود اور پرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کر دے ۱؎، انہیں میں سے براء بن مالک ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3854]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے،
اور یہ محبوبیت یونہی حاصل ہو جاتی،
بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی اوراحکامات کی صدق دل اور فدائیت کے ساتھ بجا آوری کرتے ہیں،
اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے،
اور ان میں براء بن مالک بھی تھے،
رضی اللہ عنہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3854   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4595  
´دانت کے قصاص کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا، تو انس بن نضر نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انس! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا: اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4595]
فوائد ومسائل:
1: حضرت انس نضر رضی اللہ عنہ کا انکار رسول ؐ پر رد یا شریعت کا انکار نہ تھا۔
بلکہ یہ اس طبعی عار اور اذیت کا اظہار تھا جو دانت توڑے جانے کی صورت میں ایک خاتون اور اس کے قبیلے کو لاحق ہونے والی تھی اور ان کا مقصود یہ تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اوجل نکالا جائے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے ایک انسان روزہ رکھنے کا شائق ہے، مگر اس کے نتیجے میں بھوک پیاس سے اذیت محسوس کرتا ہے تو اس طبعی اذیت کا اظہار کوئی معیوب نہیں۔

2: حضرت انس بن نضر اللہ کے محبوب بندے تھے کہ اللہ نے ان کی قسم پوری کردی۔

3: امام حنبل ؒ کا فتوی کہ دانت رگڑ دیا جائے، اسی وقت صحیح ہو گا جب دانت اوپر ٹوٹا ہو۔
(بذل المجهود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4595   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4500  
4500. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی حضرت ربیع‬ ؓ ن‬ے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ پھر کچھ لوگوں نے لڑکی سے معافی کی درخواست کی لیکن اس کے ورثاء معافی کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی تو لڑکی کے ورثاء نے دیت لینے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بایں حالت پیش ہوئے کہ قصاص کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہ تھے، چنانچہ آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ربیع ؓا کے دانت توڑ دیے جائیں گے؟ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو انس! کتاب اللہ میں تو قصاص ہی ہے۔ پھر وہ لوگ راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4500]
حدیث حاشیہ:
جیسے انس بن نضر ؓ نے قسم کھا لی تھی کہ ربیع کا دانت کبھی نہیں توڑا جائے گا۔
بظا ہر اس کی امید نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے لڑکی کے وارثوں کا دل اس نے ایک دم پھیر دیا۔
انہوں نے قصاص معاف کردیا۔
اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں، ان کا عزم صمیم اور توکل علی اللہ وہ کام کرجاتاہے کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4500   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4500  
4500. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی حضرت ربیع‬ ؓ ن‬ے ایک لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ پھر کچھ لوگوں نے لڑکی سے معافی کی درخواست کی لیکن اس کے ورثاء معافی کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی تو لڑکی کے ورثاء نے دیت لینے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بایں حالت پیش ہوئے کہ قصاص کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہ تھے، چنانچہ آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ربیع ؓا کے دانت توڑ دیے جائیں گے؟ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو انس! کتاب اللہ میں تو قصاص ہی ہے۔ پھر وہ لوگ راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4500]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس بن نضر ؓ نے جو کہا کہ ربیع ؓ کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، یہ انکار کے طور پر نہیں تھا کیونکہ ایسا کرنا تو صریح کفر ہے بلکہ انھوں نے خبر دی تھی کہ اللہ کے فضل وکرم سے ربیع کے دانت کبھی نہیں توڑے جائیں گے بلکہ وہ معافی یا تاوان پر راضی ہوجائیں گے۔
اگرچہ بظاہر اس کی اُمید نہ تھی لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ لڑکی کے ورثاء کے دل یکدم موم ہوگئے اور وہ قصاص سے دستبردار ہوگئے اور انھوں نے ربیع کو معاف کردیا۔

واقعی اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کا اللہ پر توکل اور عزم صمیم وہ کام کرجاتا ہے کہ اہل دنیا دیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص معاف کردینے اوردیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتا ہے تو وہ پہلے قاتل سے بڑا مجرم ہے۔
ایسے انسان کا قتل کرنا واجب ہے۔
اس کا معاملہ ورثاء کے حوالے نہیں کیا جائے گا، البتہ مندرجہ ذیل صورتیں قانون قصاص سے مستثنیٰ ہیں:
الف۔
مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گاب۔
مسلمان کو کسی ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
ج۔
والدین کو اولاد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4500   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.