الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور ان باغوں سے کم درجہ میں دو اور باغ بھی ہیں“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And besides these two, there are two other gardens (i.e., in Paradise).” (V.55:62)
حدیث نمبر: Q4878
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مجاهد: بحسبان كحسبان الرحى، وقال غيره: واقيموا الوزن: يريد لسان الميزان والعصف بقل الزرع إذا قطع منه شيء قبل ان يدرك، فذلك العصف، والريحان: رزقه، والحب: الذي يؤكل منه والريحان في كلام العرب الرزق، وقال بعضهم: والعصف يريد الماكول من الحب والريحان النضيج الذي لم يؤكل، وقال غيره: العصف ورق الحنطة، وقال الضحاك: العصف التبن، وقال ابو مالك: العصف اول ما ينبت تسميه النبط هبورا، وقال مجاهد: العصف ورق الحنطة، والريحان الرزق، والمارج اللهب الاصفر والاخضر الذي يعلو النار إذا اوقدت، وقال بعضهم: عن مجاهد، رب المشرقين: للشمس في الشتاء مشرق ومشرق في الصيف، ورب المغربين: مغربها في الشتاء والصيف، لا يبغيان: لا يختلطان، المنشآت: ما رفع قلعه من السفن فاما ما لم يرفع قلعه فليس بمنشاة، وقال مجاهد: كالفخار: كما يصنع الفخار الشواظ لهب من نار، ونحاس: النحاس الصفر يصب على رءوسهم فيعذبون به، خاف مقام ربه: يهم بالمعصية فيذكر الله عز وجل فيتركها، مدهامتان: سوداوان من الري، صلصال: طين خلط برمل فصلصل كما يصلصل الفخار، ويقال: منتن يريدون به صل، يقال: صلصال كما، يقال: صر الباب عند الإغلاق وصرصر مثل كبكبته يعني كببته، فاكهة ونخل ورمان، وقال بعضهم: ليس الرمان والنخل بالفاكهة، واما العرب فإنها تعدها فاكهة كقوله عز وجل: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى، فامرهم بالمحافظة على كل الصلوات، ثم اعاد العصر تشديدا لها كما اعيد النخل والرمان ومثلها، الم تر ان الله يسجد له من في السموات ومن في الارض، ثم قال: وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب، وقد ذكرهم الله عز وجل في اول قوله: من في السموات ومن في الارض، وقال غيره: افنان: اغصان، وجنى الجنتين دان: ما يجتنى قريب، وقال الحسن: فباي آلاء: نعمه، وقال قتادة: ربكما تكذبان يعني الجن والإنس، وقال ابو الدرداء: كل يوم هو في شان: يغفر ذنبا ويكشف كربا ويرفع قوما ويضع آخرين، وقال ابن عباس: برزخ: حاجز الانام الخلق، نضاختان: فياضتان، ذو الجلال: ذو العظمة، وقال غيره: مارج خالص من النار، يقال: مرج الامير رعيته إذا خلاهم يعدو بعضهم على بعض، ويقال: مرج امر الناس، مريج: ملتبس، مرج البحرين: اختلط البحران من مرجت دابتك تركتها، سنفرغ لكم: سنحاسبكم لا يشغله شيء عن شيء وهو معروف في كلام العرب، يقال: لاتفرغن لك وما به شغل، يقول: لآخذنك على غرتك.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: بِحُسْبَانٍ كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ: يُرِيدُ لِسَانَ الْمِيزَانِ وَالْعَصْفُ بَقْلُ الزَّرْعِ إِذَا قُطِعَ مِنْهُ شَيْءٌ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ، فَذَلِكَ الْعَصْفُ، وَالرَّيْحَانُ: رِزْقُهُ، وَالْحَبُّ: الَّذِي يُؤْكَلُ مِنْهُ وَالرَّيْحَانُ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ الرِّزْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَالْعَصْفُ يُرِيدُ الْمَأْكُولَ مِنَ الْحَبِّ وَالرَّيْحَانُ النَّضِيجُ الَّذِي لَمْ يُؤْكَلْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَقَالَ الضَّحَّاكُ: الْعَصْفُ التِّبْنُ، وَقَالَ أَبُو مَالِكٍ: الْعَصْفُ أَوَّلُ مَا يَنْبُتُ تُسَمِّيهِ النَّبَطُ هَبُورًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْعَصْفُ وَرَقُ الْحِنْطَةِ، وَالرَّيْحَانُ الرِّزْقُ، وَالْمَارِجُ اللَّهَبُ الْأَصْفَرُ وَالْأَخْضَرُ الَّذِي يَعْلُو النَّارَ إِذَا أُوقِدَتْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ مُجَاهِدٍ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ: لِلشَّمْسِ فِي الشِّتَاءِ مَشْرِقٌ وَمَشْرِقٌ فِي الصَّيْفِ، وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ: مَغْرِبُهَا فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ، لَا يَبْغِيَانِ: لَا يَخْتَلِطَانِ، الْمُنْشَآتُ: مَا رُفِعَ قِلْعُهُ مِنَ السُّفُنِ فَأَمَّا مَا لَمْ يُرْفَعْ قَلْعُهُ فَلَيْسَ بِمُنْشَأَةٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كَالْفَخَّارِ: كَمَا يُصْنَعُ الْفَخَّارُ الشُّوَاظُ لَهَبٌ مِنْ نَارٍ، وَنُحَاسٌ: النُّحَاسُ الصُّفْرُ يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَيُعَذَّبُونَ بِهِ، خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ: يَهُمُّ بِالْمَعْصِيَةِ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَتْرُكُهَا، مُدْهَامَّتَانِ: سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ، صَلْصَالٍ: طِينٌ خُلِطَ بِرَمْلٍ فَصَلْصَلَ كَمَا يُصَلْصِلُ الْفَخَّارُ، وَيُقَالُ: مُنْتِنٌ يُرِيدُونَ بِهِ صَلَّ، يُقَالُ: صَلْصَالٌ كَمَا، يُقَالُ: صَرَّ الْبَابُ عِنْدَ الْإِغْلَاقِ وَصَرْصَرَ مِثْلُ كَبْكَبْتُهُ يَعْنِي كَبَبْتُهُ، فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ الرُّمَّانُ وَالنَّخْلُ بِالْفَاكِهَةِ، وَأَمَّا الْعَرَبُ فَإِنَّهَا تَعُدُّهَا فَاكِهَةً كَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، فَأَمَرَهُمْ بِالْمُحَافَظَةِ عَلَى كُلِّ الصَّلَوَاتِ، ثُمَّ أَعَادَ الْعَصْرَ تَشْدِيدًا لَهَا كَمَا أُعِيدَ النَّخْلُ وَالرُّمَّانُ وَمِثْلُهَا، أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ، وَقَدْ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَوَّلِ قَوْلِهِ: مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَفْنَانٍ: أَغْصَانٍ، وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ: مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ، وَقَالَ الْحَسَنُ: فَبِأَيِّ آلَاءِ: نِعَمِهِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ يَعْنِي الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ: يَغْفِرُ ذَنْبًا وَيَكْشِفُ كَرْبًا وَيَرْفَعُ قَوْمًا وَيَضَعُ آخَرِينَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَرْزَخٌ: حَاجِزٌ الْأَنَامُ الْخَلْقُ، نَضَّاخَتَانِ: فَيَّاضَتَانِ، ذُو الْجَلَالِ: ذُو الْعَظَمَةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَارِجٌ خَالِصٌ مِنَ النَّارِ، يُقَالُ: مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَيُقَالُ: مَرَجَ أَمْرُ النَّاسِ، مَرِيجٍ: مُلْتَبِسٌ، مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ: اخْتَلَطَ الْبَحْرَانِ مِنْ مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا، سَنَفْرُغُ لَكُمْ: سَنُحَاسِبُكُمْ لَا يَشْغَلُهُ شَيْءٌ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ مَعْرُوفٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ، يُقَالُ: لَأَتَفَرَّغَنَّ لَكَ وَمَا بِهِ شُغْلٌ، يَقُولُ: لَآخُذَنَّكَ عَلَى غِرَّتِكَ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «بحسبان» یعنی چکی کی طرح گھوم رہے ہیں۔ اوروں نے کہا «وأقيموا الوزن‏» کا معنی یہ ہے کہ ترازو کی زبان سیدھی رکھو (یعنی برابر تولو)۔ «عصف‏.‏» کہتے ہیں کھیتی کی اس پیداوار (سبزے) کو جس کو پکنے سے پہلے کاٹ لیں یہ تو «عصف‏.‏» کے معنی ہوئے اور یہاں «ريحان‏» سے کھیتی کے پتے اور دانے جن کو کھاتے ہیں مراد ہیں۔ اور «ريحان‏» عربوں کی زبان میں روزی کو کہتے ہیں بعضوں نے کہا خوشبودار سبزے کو بعضوں نے کہا «عصف‏.‏» وہ دانہ جن کو کھاتے ہیں اور «ريحان‏» وہ پکا غلہ جس کو کچا نہیں کھاتے۔ اوروں نے کہا «عصف‏.‏» گیہوں کے پتے ہیں۔ ضحاک نے کہا «عصف‏.‏» بھوسا جو جانور کھاتے ہیں۔ ابو مالک غفاری (تابعی) نے کہا «عصف‏.‏» کھیتی کا وہ سبزہ جو پہلے پہل اگتا ہے کسان لوگ اس کو «هبور» کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «عصف‏.‏» گیہوں کا پتا اور «ريحان‏» روزی کا۔ «المارج» آگ کی لپٹ (کو) زرد یا سبز جو آگ روشن کرنے پر اوپر چڑھتی ہے بعضوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ «رب المشرقين‏ ورب المغربين‏» میں «مشرقين‏» سے جاڑے اور گرمی کی مشرق اور «مغربين‏» سے جاڑے گرمی کی مغرب مراد ہے۔ «لا يبغيان‏» مل نہیں جاتے۔ «المنشآت‏» وہ کشتیاں جن کا بادبان اوپر اٹھایا گیا ہو (وہی دور سے پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی ہیں) اور جن کشتیوں کا بادبان نہ چڑھایا جائے ان کو «المنشآت‏» نہیں کہیں گے۔ مجاہد نے کہا «كالفخار» یعنی جیسا ٹھیکرا بنایا جاتا ہے۔ «الشواز» آگ کا شعلہ جس میں دھواں ہو۔ «فنحاس‏» پیتل جو گلا کر دوزخیوں کے سر پر ڈالا جائے گا ان کو اسی سے عذاب دیا جائے گا۔ «خاف مقام ربه‏» کا یہ مطلب ہے کہ کوئی آدمی گناہ کرنے کا قصد کرے پھر اپنے پروردگار کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔ «مدهامتان‏» بہت شادابی کی وجہ سے کالے یا سبز ہو رہے ہوں گے۔ «صلصال‏» وہ گارا کیچڑ جس میں ریت ملائی جائے وہ ٹھیکری کی طرح کھنکھنانے لگے۔ بعضوں نے کہا کہ «صلصال‏» بدبودار کیچڑ، جیسے کہتے ہیں «صل اللحم» یعنی گوشت بدبودار ہو گیا، سڑ گیا جیسے «صر الباب» دروازے بند کرتے وقت آواز دی اور «صرصر الباب» اور «كببته‏» کو «كبكبته» کہتے ہیں۔ «فاكهة ونخل ورمان‏» یعنی وہاں میوہ ہو گا اور کھجور اور انار اس آیت سے بعضوں نے (امام حنیفہ نے) یہ نکالا ہے کہ کھجور اور انار میوہ نہیں ہیں۔ عرب لوگ تو ان دونوں کو میوؤں میں شمار کرتے ہیں اب رہا «نخل» اور «ورمان‏» کا «عطف فاكهة» پر تو ایسا ہے جیسے دوسری آیت میں فرمایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى‏» تو پہلے سب نمازوں کی محافظت کا حکم دیا «صلاة الوسطى‏» بھی ان میں آ گئی پھر «صلاة الوسطى‏» کو عطف کر کے دوبارہ بیان کر دینا اس سے غرض یہ ہے کہ اس کا اور زیادہ خیال رکھ، ایسے ہی یہاں بھی «نخل ورمان‏»، «فاكهة» میں آ گئے تھے مگر ان کی عمدگی کی وجہ سے دوبارہ ان کا ذکر کیا جیسے اس آیت میں فرمایا «ألم تر أن الله يسجد له من في السموات ومن في الأرض‏» پھر اس کے بعد فرمایا «وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب‏» حالانکہ یہ دونوں «من في السموات ومن في الأرض‏» میں آ گئے اوروں نے (مجاہد یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا) کہا «أفنان‏» کا معنی شاخیں ڈالیاں ہیں۔ «وجنى الجنتين دان» یعنی دونوں باغوں کا میوہ قریب ہو گا اور حسن بصری نے کہا «فبأى آلاء‏» یعنی اس کی کون کون سی نعمتوں کو اور قتادہ نے کہا «ربكما‏» میں جِن اور انسان کی طرف خطاب ہے اور ابودرداء نے کہا «كل يوم هو في شأن‏» کا یہ مطلب ہے کسی کا گناہ بخشتا ہے، کسی کی تکلیف دور کرتا ہے، کسی قوم کو بڑھاتا ہے کسی قوم کو گھٹاتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «برزخ‏» سے آڑ مراد ہے۔ «لأنام الخلق نضاختان‏» خیر اور برکت سے یہاں رہتے ہیں۔ «ذو الجلال‏» بزرگی والا اوروں نے کہا۔ «مارج» ‏‏‏‏ خالص انگارا (جس میں دھواں نہ ہو) عرب لوگ کہتے ہیں «مرج الأمير رعيته» یعنی حاکم نے اپنی رعیت کا خیال چھوڑ دیا یا ایک کو دوسرے ستا رہا ہے۔ لفظ «مريج‏» جو سورۃ ق میں ہے۔ اس کا معنی گڈ مڈ ملا ہوا۔ «مرج‏ البحراين» یعنی دونوں دریا مل گئے ہیں یہ «مرجت دابتك» سے نکلا ہے یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا اس طرح رہ کر ہم عنقریب تمہارا خاتمہ کریں گے یہاں فراغت کا معنی نہیں کیونکہ اللہ پاک کو کوئی چیز دوسری چیز کی طرف خیال کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے جو سب لوگوں میں مشہور ہے کوئی شخص بیکار ہوتا ہے اس کو فرصت ہوتی ہے لیکن ڈرانے کے لیے دوسرے سے کہتا ہے، اچھا میں تیرے لیے فراغت کروں گا یعنی وہ خوف جب ٹل جائے گا تو تجھ کو سزا دوں گا۔

حدیث نمبر: 4878
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن ابي الاسود، حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد العمي، حدثنا ابو عمران الجوني، عن ابي بكر بن عبد الله بن قيس،عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" جنتان من فضة آنيتهما وما فيهما، وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما، وما بين القوم وبين ان ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبر على وجهه في جنة عدن".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ،عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبدالصمد العمی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران الجونی نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جنت میں) دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کے ہوں گے اور جنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدار میں کوئی چیز سوائے کبریائی کی چادر کے جو اس کے منہ پر ہو گی، حائل نہ ہو گی۔

Narrated `Abdullah bin Qais: Allah's Messenger said, "Two gardens, the utensils and the contents of which are of silver, and two other gardens, the utensils and contents of which are of gold. And nothing will prevent the people who will be in the Garden of Eden from seeing their Lord except the curtain of Majesty over His Face."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 401

   صحيح البخاري7444عبد الله بن قيسجنتان من فضة آنيتهما وما فيهما وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما ما بين القوم وبين أن ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبر على وجهه في جنة عدن
   صحيح البخاري4878عبد الله بن قيسجنتان من فضة آنيتهما وما فيهما وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما ما بين القوم وبين أن ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبر على وجهه في جنة عدن
   صحيح مسلم448عبد الله بن قيسجنتان من فضة آنيتهما وما فيهما وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما ما بين القوم وبين أن ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن
   جامع الترمذي2527عبد الله بن قيسفي الجنة جنتين آنيتهما وما فيهما من فضة وجنتين آنيتهما وما فيهما من ذهب ما بين القوم وبين أن ينظروا إلى ربهم إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن
   سنن ابن ماجه186عبد الله بن قيسجنتان من فضة آنيتهما وما فيهما وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما ما بين القوم وبين أن ينظروا إلى ربهم تبارك و إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4878  
´جنت کے باغ`
«. . . قَالَ:" جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جنت میں) دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کے ہوں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/بَابُ قَوْلِهِ: {وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ: 4878]

تخريج الحديث:
[113۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 1 باب قوله ومن دونهما جنتان 4878 مسلم 180]

لغوی توضیح:
«جَنَّتَان» کی واحد «جَنَّة» ہے، معنی ہے باغ۔
«آنِيَتُهُمَا» ان کے برتن۔
«رِدَاء» چادر۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 113   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث186  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوموسیٰ اشعری (عبداللہ بن قیس) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں، اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی جو دیدار سے مانع ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 186]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں دیدار الہی کا اثبات ہے۔

(2)
اہل جنت جب جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ کی زیارت ہو سکے گی۔
صرف اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی چادر دیدار سے مانع ہو گی۔
جب اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و فضل کا اظہار کرے گا تو وہ مانع دور اور دیدار کا شرف حاصل ہو جائے گا۔

(3)
اللہ تعالیٰ کے چہرہ اقدس پر کبریائی کی چادر ہو گی۔
اس امر کو یوں ہی تسلیم کرنا ہو گا، تاویل کی ضرورت نہیں، ورنہ انکار لازم آئے گا۔

(4)
جنت کی نعمتیں بے شمار اور بے مثال ہیں۔
قرآن و حدیث میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ صرف اس حد تک ہے جس قدر انسان سمجھ سکیں۔
جنت کی چاندی اور سونا بھی دنیا کی چاندی اور سونے کی طرح نہیں، بلکہ اس قدر عمدہ اور اعلیٰ ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

(5)
ان جنتوں کی چیزیں سونے چاندی کی ہوں گی، مثلا:
برتن، پلنگ، تخت، اور درخت وغیرہ۔
واللہ أعلم.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 186   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4878  
4878. حضرت عبداللہ بن قیس (ابو موسٰی اشعری) ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو باغ چاندی کے ہیں۔ ان دونوں کے برتن اور ان کا دیگر ساز و سامان چاندی کا ہو گا۔ اور دوسرے دو باغ سونے کے ہیں۔ ان کے برتن اور دیگر ساز و سامان بھی سونے کا ہو گا۔ اور جنت عدن میں اہل جنت اور ان کے رب کے دیدار میں کوئی چیز حائل نہیں ہو گی، ہاں! رب کبریاء کے چہرے پر کبریائی کی چادر ضرور ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4878]
حدیث حاشیہ:
یا اللہ! قیامت کے دن ہم سب کو اپنے دیدار پر انوار سے مشرف فرمائیو۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4878   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4878  
4878. حضرت عبداللہ بن قیس (ابو موسٰی اشعری) ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو باغ چاندی کے ہیں۔ ان دونوں کے برتن اور ان کا دیگر ساز و سامان چاندی کا ہو گا۔ اور دوسرے دو باغ سونے کے ہیں۔ ان کے برتن اور دیگر ساز و سامان بھی سونے کا ہو گا۔ اور جنت عدن میں اہل جنت اور ان کے رب کے دیدار میں کوئی چیز حائل نہیں ہو گی، ہاں! رب کبریاء کے چہرے پر کبریائی کی چادر ضرور ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4878]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں باغات کی اقسام بیان کی گئی ہیں کہ دو باغ تو اعلیٰ قسم کے ہوں گے اور دو باغ ان سے کچھ کم درجے کے ہوں گے۔
یہ اقسام اہل جنت کے درجات کےفرق کی بنیاد پر ہیں۔
مقربین اور سابقین کے لیے سونے کے دو باغ اور عام اہل ایمان کے لیے چاندی دو باغ ہوں گے۔

روئیت باری، یعنی اللہ تعالیٰ کے دیدار کے متعلق بحث کتاب التوحید میں آئے گی، إن شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن جنت میں اپنا دیدار نصیب فرمائے۔
آمین یارب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4878   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.