الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ} :
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لیے استغفار فرما دیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ تکبر کرتے ہوئے وہ کس قدر بےرخی برت رہے ہیں“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “And when it is said to them: ’Come, so that the Messenger of Allah may ask forgiveness from Allah for you,’ they turn aside their heads, and you would see them turning away their faces in pride.” (V.63:5)
حدیث نمبر: Q4904
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حركوا استهزءوا بالنبي صلى الله عليه وسلم ويقرا بالتخفيف من لويت.حَرَّكُوا اسْتَهْزَءُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُقْرَأُ بِالتَّخْفِيفِ مِنْ لَوَيْتُ.
‏‏‏‏ «لودا» کا معنی یہ ہے کہ اپنے سر ہنسی، ٹھٹھے کی راہ سے ہلانے لگے۔ بعضوں نے «لودا» پر تخفیف واؤ «لويت» سے پڑھا ہے یعنی سر پھیر لیا۔

حدیث نمبر: 4904
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن زيد بن ارقم، قال:" كنت مع عمي، فسمعت عبد الله بن ابي ابن سلول، يقول: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا، ولئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، فذكرت ذلك لعمي، فذكر عمي للنبي صلى الله عليه وسلم، فدعاني، فحدثته، فارسل إلى عبد الله بن ابي واصحابه، فحلفوا ما قالوا، وكذبني النبي صلى الله عليه وسلم وصدقهم، فاصابني غم لم يصبني مثله قط، فجلست في بيتي، وقال عمي: ما اردت إلى ان كذبك النبي صلى الله عليه وسلم ومقتك، فانزل الله تعالى إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1، قالوا: نشهد إنك لرسول الله، وارسل إلي النبي صلى الله عليه وسلم فقراها، وقال:" إن الله قد صدقك".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ عَمِّي، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، يَقُولُ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا، وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَ عَمِّي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، وَكَذَّبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُمْ، فَأَصَابَنِي غُمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ، فَجَلَسْتُ فِي بَيْتِي، وَقَالَ عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالُوا: نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ، وَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهَا، وَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے اپنے چچا کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں اور اگر اب ہم مدینہ واپس لوٹیں گے تو ہم میں سے جو عزت والے ہیں ان ذلیلوں کو نکال باہر کر دیں گے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی تصدیق کر دی تو مجھے اس کا اتنا افسوس ہوا کہ پہلے کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا کہ تمہارا کیا ایسا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھٹلایا اور تم پر خفا ہوئے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إذا جاءك المنافقون قالوا نشهد إنك لرسول الله‏» جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق نازل کر دی ہے۔

Narrated Zaid bin Arqam: While I was with my uncle, I heard `Abdullah bin Ubai bin Salul saying, "Do not spend on those who are with Allah's Messenger , that they may disperse and go away (from him). And if we return to Medina, surely, the more honorable will expel therefrom the meaner. "I mentioned that to my uncle who, in turn, mentioned it to the Prophet. The Prophet called me and I told him about that. Then he sent for `Abdullah bin Ubai and his companions, and they swore that they did not say so. The Prophet disbelieved my statement and believed theirs. I was distressed as I have never been before, and I remained in my house. My uncle said to me, "You just wanted the Prophet to consider you a liar and hate you." Then Allah revealed:-- 'When the hypocrites come to you, they say: 'We bear witness that you are indeed the Apostle of Allah." (63.1) So the Prophet sent for me and recited it and said, "Allah has confirmed your statement."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 427

   صحيح البخاري4904زيد بن أرقمالله قد صدقك
   صحيح البخاري4901زيد بن أرقمالله قد صدقك
   صحيح البخاري4900زيد بن أرقمالله قد صدقك يا زيد
   صحيح البخاري4902زيد بن أرقمالله قد صدقك ونزل هم الذين يقولون لا تنفقوا
   صحيح مسلم7024زيد بن أرقمأنزل الله تصديقي إذا جاءك المنافقون
   جامع الترمذي3312زيد بن أرقملئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل
   جامع الترمذي3313زيد بن أرقملئن رجعتم إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل
   جامع الترمذي3314زيد بن أرقملئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3314  
´سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔`
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،
جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: 7)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3314   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4904  
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے، دلوں کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھا کھا کر اپنی برات ظاہر کی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا بعد وحی الٰہی نے عبداللہ بن ابی کا جھوٹ ظاہر فرمایا اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے بیان کی تصدیق فرمائی جس سے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کا دل مطمئن ہو گیا اور منافقین کا سورۃ منافقین میں سارا پول کھول دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4904   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4904  
4904. حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے چچا کے ہمراہ تھا، اچانک میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سنا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہین حتی کہ وہ آپ سے منتشر ہو جائیں اور یقینا اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو جو عزت والا ہو گا وہ ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا۔ میں نے اپنے چچا سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے نبی ﷺ سے یہ باتیں کہہ دیں۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے حلفا کہا: ہم نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں، نبی ﷺ نے مجھے جھوٹا خیال اور انہیں سچا کہا۔ اس سے مجھے سخت غم لاحق ہوا، اس جیسا غم مجھے پہلے کبھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ میں اپنے گھر بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے مجھ سے کہا: تو نے کیا کردار انجام دیا ہے کہ نبی ﷺ نے تجھے جھٹلا دیا ہے اور تجھ سے ناراض ہو گئے ہیں؟ پھر اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4904]
حدیث حاشیہ:

عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی اعتقادی نفاق کا شکار تھے جس کی درج ذیل چھ قسمیں ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھیں انتہائی بغض تھا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بھی وہ خوش نہیں تھے۔
۔
وہ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔
۔
ان تعلیمات کی بھی تکذیب کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرآئے تھے۔
۔
دین اسلام کی مدد کو انتہائی ناپسند خیال کرتے تھے۔
۔
دین اسلام کو نیچا دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے:
اورجب تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی واپس چلے گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپارہے ہیں اسے اللہ خوب جانتاہے۔
(المائدة: 61/5)
ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا مقصد حصول ہدایت نہیں بلکہ دھوکا دہی ہوتا تھا ایسی حاضری سے انھیں فائدہ بھی کیا ہو سکتا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4904   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.