الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ: {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”سو حمل والیوں کی عدت ان کے بچے کا پیدا ہو جانا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا“۔
(2) Chapter. "...And for those who are pregnant (whether they are divorced or their husbands are dead), their Idda (prescribed period) is until they lay down their burdens, and whoever keeps his duty to Allah and fears Him, He will make his matter easy for him.” (V.63:4)
حدیث نمبر: Q4909
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
واولات الاحمال واحدها ذات حمل.وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ وَاحِدُهَا ذَاتُ حَمْلٍ.
‏‏‏‏ اور «أولات الأحمال» سے مراد «ذات حمل» ہے جس کے معنی حمل والی عورت ہے۔

حدیث نمبر: 4909
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا سعد بن حفص، حدثنا شيبان، عن يحيى، قال: اخبرني ابو سلمة، قال: جاء رجل إلى ابن عباس، وابو هريرة جالس عنده، فقال: افتني في امراة ولدت بعد زوجها باربعين ليلة، فقال ابن عباس: آخر الاجلين، قلت: انا واولات الاحمال اجلهن ان يضعن حملهن سورة الطلاق آية 4، قال ابو هريرة: انا مع ابن اخي يعني ابا سلمة، فارسل ابن عباس غلامه كريبا إلى ام سلمة يسالها، فقالت: قتل زوج سبيعة الاسلمية وهي حبلى، فوضعت بعد موته باربعين ليلة، فخطبت، فانكحها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان ابو السنابل فيمن خطبها،حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: أَفْتِنِي فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ بَعْدَ زَوْجِهَا بِأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، قُلْتُ: أَنَا وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ غُلَامَهُ كُرَيْبًا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ: قُتِلَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ وَهِيَ حُبْلَى، فَوَضَعَتْ بَعْدَ مَوْتِهِ بِأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَخُطِبَتْ، فَأَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فِيمَنْ خَطَبَهَا،
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق مسئلہ بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چار مہینے بعد بچہ جنا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کا خاوند فوت ہو وہ عدت کی دو مدتوں میں جو مدت لمبی ہو اس کی رعایت کرے۔ (ابوسلمہ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا کہ (قرآن مجید میں تو ان کی عدت کا یہ حکم ہے) حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس مسئلہ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں۔ ان کی مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے تھی آخر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے۔ ام المؤمنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہما) شہید کر دیئے گئے تھے وہ اس وقت حاملہ تھیں شوہر کی موت کے چالیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام پہنچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کر دیا۔ ابوالسنابل بھی ان کے پاس پیغام نکاح بھیجنے والوں میں سے تھے۔

Narrated Abu Salama: A man came to Ibn `Abbas while Abu Huraira was sitting with him and said, "Give me your verdict regarding a lady who delivered a baby forty days after the death of her husband." Ibn `Abbas said, "This indicates the end of one of the two prescribed periods." I said "For those who are pregnant, their prescribed period is until they deliver their burdens." Abu Huraira said, I agree with my cousin (Abu Salama)." Then Ibn `Abbas sent his slave, Kuraib to Um Salama to ask her (regarding this matter). She replied. "The husband of Subai'a al Aslamiya was killed while she was pregnant, and she delivered a baby forty days after his death. Then her hand was asked in marriage and Allah's Messenger married her (to somebody). Abu As-Sanabil was one of those who asked for her hand in marriage".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 432

   صحيح البخاري4909قتل زوج سبيعة الأسلمية وهي حبلى فوضعت بعد موته بأربعين ليلة فخطبت فأنكحها رسول الله وكان أبو السنابل فيمن خطبها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4909  
4909. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا جبکہ اس وقت حضرت ابوہریرہ ؓ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے مسئلہ پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس راتیں بعد بچہ جنم دیا ہو؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کی عدت دونوں عدتوں میں دور تر، یعنی طویل تر عدت ہے۔ میں نے کہا: حمل والی عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے، (ابو سلمہ) کے ساتھ ہوں۔ آخر حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین حضرت ام سلمہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا، ام المومنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ک‬ے شوہر شہید کر دیے گئے تھے جبکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ شوہر کی وفات کے چالیس راتوں بعد اس نے بچہ جنم دیا، پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4909]
حدیث حاشیہ:
اس بارے میں صحیح مسئلہ وہی ہے جو آیت میں مذکور ہے یعنی حمل والی عورتیں مطلقہ ہوں تو ان کی عدت وضع حمل ہے۔
بچہ پیدا ہونے پر وہ چاہیں تو نکاح ثانی کر سکتی ہیں خواہ بچہ کم سے کم مدت میں پیدا ہو جائے یا دیر بہر حال فتویٰ صحیح یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4909   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4909  
4909. حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا جبکہ اس وقت حضرت ابوہریرہ ؓ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے مسئلہ پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس راتیں بعد بچہ جنم دیا ہو؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کی عدت دونوں عدتوں میں دور تر، یعنی طویل تر عدت ہے۔ میں نے کہا: حمل والی عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے، (ابو سلمہ) کے ساتھ ہوں۔ آخر حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین حضرت ام سلمہ‬ ؓ ک‬ی خدمت میں یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا، ام المومنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ک‬ے شوہر شہید کر دیے گئے تھے جبکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ شوہر کی وفات کے چالیس راتوں بعد اس نے بچہ جنم دیا، پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4909]
حدیث حاشیہ:

عورت مطلقہ ہو یا بیوہ اگر وہ حمل سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
ہمارے ہاں جہالت کی وجہ سے یہ مسئلہ مشہور ہے کہ حاملہ کی طلاق نافذ نہیں ہوتی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حاملہ عورت کی عدت بیان کی ہے۔
اگر اسے طلاق دینا نا جائز ہے۔
یا اس کی طلاق نافذ نہیں ہوتی تو عدت بیان کرنے کا کیا مطلب، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب طلاق دینے کا طریقہ بتایا تو اس میں صراحت ہے کہ بیوی کو طلاق حالت طہر میں دو یا حالت حمل میں اسے فارغ کرو۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659(1471)

بہرحال دوران حمل میں دی گئی طلاق بھی نافذ العمل ہے اور اس کی عدت وضع حمل ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4909   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.