الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
The Book of The Virtues of The Quran
35. بَابُ الْبُكَاءِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ:
35. باب: قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت (خوف الٰہی سے) رونا۔
(35) Chapter. To weep while reciting the Quran.
حدیث نمبر: 5056
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قيس بن حفص، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن عبيدة السلماني، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" اقرا علي، قلت: اقرا عليك وعليك انزل، قال: إني احب ان اسمعه من غيري".حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ عَلَيَّ، قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ، قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي".
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا: کیا میں سناؤں؟آپ پر تو قرآن مجید نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کسی سے سننا محبوب رکھتا ہوں۔

Narrated `Abdullah bin Masud: The Prophet said to me, "Recite Qur'an to me." I said to him. "Shall I recite (it) to you while it has been revealed to you?" He said, "I like to hear it from another person."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 576

   صحيح البخاري5049عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري
   صحيح البخاري5050عبد الله بن مسعوداقرأ علي قلت يا رسول الله أأقرأ عليك وعليك أنزل قال نعم فقرأت
   صحيح البخاري4582عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري فقرأت عليه
   صحيح البخاري5055عبد الله بن مسعودأشتهي أن أسمعه من غيري قال فقرأت النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا
   صحيح البخاري5056عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري
   صحيح مسلم1867عبد الله بن مسعودأشتهي أن أسمعه من غيري فقرأت النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا
   صحيح مسلم1869عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري قال فقرأ عليه من أول
   جامع الترمذي3025عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري فقرأت
   جامع الترمذي3024عبد الله بن مسعودأمرني رسول الله أن أقرأ عليه وهو على المنبر فقرأت عليه من سورة النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا غمزني رسول الله يده فنظرت إليه وعيناه تدمعان
   سنن أبي داود3668عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري قال فقرأت عليه حتى إذا انتهيت إلى قوله فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد
   سنن ابن ماجه4194عبد الله بن مسعوداقرأ علي فقرأت عليه بسورة النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا
   المعجم الصغير للطبراني1100عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري فافتتحت فقرأت
   مسندالحميدي101عبد الله بن مسعوداقرأ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4194  
´غمگین ہونے اور رونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو، تو میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور پھر ہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (سورة النساء: 41) پر پہنچا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4194]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
جس طرح قرآن کی تلاوت بڑی نیکی ہے اس طرح قرآن سننا بھی ضروری ہے۔

(2)
قرآن کی تلاوت کا دل پر ایک خاص روحانی اثر ہوتا ہے۔

(3)
قرآن کا ترجمہ سیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ تلاوت کا دل پر صحیح اثر ہوسکے۔

(4)
قرآن مجید کی تلاوت یا سننے کا اصل مقصد اس کے مطابق اپنی زندگی بنانے کی کوشش ہے۔

(5)
حدیث میں مذکور آیت میں قیامت کا ایک منظر پیش کی گیا ہے۔
اور قیامت خود ایک عبرت انگیز موضوع ہے۔
ضروری ہے کہ وعظ و نصیحت میں اس موضوع کو اہمیت دی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3024  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» ۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3024]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
پس کیا حال ہوگا اس وقت کہ جب ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (النساء: 41)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3024   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3668  
´وعظ و نصیحت اور قصہ گوئی کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ پر سورۃ نساء پڑھو میں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو پڑھ کے سناؤں؟ جب کہ وہ آپ پر اتاری گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میں اوروں سے سنوں پھر میں نے آپ کو «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد» اس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے (سورة النساء: ۴۱) تک پڑھ کر سنایا، اور اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3668]
فوائد ومسائل:

قرآن مجید سننا سنانا سب سے عمدہ وعظ ہے۔
بشرط یہ کہ انسان اس کے فہم سے آشنا ہو۔


رسول اللہ ﷺ رونا غالبا اس بنا پر تھا۔
کہ آپﷺ امت پر گواہ ہوں گے۔
جب کہ لوگ نا معلوم کیسے عمل کر کے آئیں گے۔
آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے۔
پھر ان کا کیا حال ہوگا۔
جس وقت ہم ہر امت میں سے گواہ لایئں گے۔
اور آپ کو اس امت پر گواہ بنایئں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3668   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5056  
5056. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کی: کیا میں آپ کےسامنے قرآن پڑھوں، حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل کیا گیاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میں کسی دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5056]
حدیث حاشیہ:

تلاوت قرآن کے وقت گریہ طاری ہونا عارفین کی صفت، کاملین کا طریقہ اور صالحین کا شعار ہےارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک وہ لوگ جنھیں اس سے پہلے علم دیا گیا تھا جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں (اور ان پر گریہ طاری ہو جاتا ہے)
۔
(بني إسرائیل: 17۔
109)


امام غزالی نے کہا ہےکہ تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب عمل ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت دل میں غم اور خوف کی کیفیت پیدا کی جائے اور قرآن میں جو وعید اور سختی کا ذکرہے، اسے دماغ میں حاضر کر کے غور و فکر کیا جائے کہ مجھ میں کہا کہاں کمی واقع ہوئی ہے اگر یہ کیفیت طاری نہ ہو تو اپنے پر رونا چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔
(فتح الباري: 123/9)
ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ حضرت محمد بن فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنو ظفر میں تشریف لے گئے جبکہ آپ کے ہمراہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے۔
آپ نے ایک قاری کو حکم دیا تو اس نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کی۔
جب وہ مذکورہ آیت پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گریہ طاری ہوا حتی کہ آپ نے داڑھی کے دونوں کناروں اور رخساروں پر ہاتھ رکھ لیے اور کہا:
اے اللہ! میں ان لوگوں کے متعلق گواہی دوں گا۔
جن میں موجود ہوں۔
پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جنھیں میں نے نہیں دیکھا ہے۔
(تفسیر ابن أبي حاتم، حدیث: 3584۔
و فتح الباري: 124/9)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5056   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.