الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
The Book of Medicine
50. بَابُ السِّحْرِ:
50. باب: جادو کے بیان میں۔
(50) Chapter. Witchcraft.
حدیث نمبر: 5766
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" سحر النبي صلى الله عليه وسلم حتى إنه ليخيل إليه انه يفعل الشيء وما فعله، حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي، دعا الله ودعاه، ثم قال: اشعرت يا عائشة ان الله قد افتاني فيما استفتيته فيه، قلت: وما ذاك يا رسول الله؟، قال: جاءني رجلان فجلس احدهما عند راسي والآخر عند رجلي، ثم قال: احدهما لصاحبه، ما وجع الرجل؟، قال: مطبوب، قال: ومن طبه؟، قال: لبيد بن الاعصم اليهودي من بني زريق، قال: فيما ذا؟ قال: في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر، قال: فاين هو؟ قال: في بئر ذي اروان، قال: فذهب النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه إلى البئر، فنظر إليها وعليها نخل ثم رجع إلى عائشة، فقال: والله لكان ماءها نقاعة الحناء، ولكان نخلها رءوس الشياطين، قلت: يا رسول الله افاخرجته؟ قال: لا، اما انا فقد عافاني الله، وشفاني، وخشيت ان اثور على الناس منه شرا"، وامر بها فدفنت.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ عِنْدِي، دَعَا اللَّهَ وَدَعَاهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشَعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: جَاءَنِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ، مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟، قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟، قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ الْيَهُودِيُّ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَ: فِيمَا ذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ، قَالَ: فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَى الْبِئْرِ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَأَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِيَ اللَّهُ، وَشَفَانِي، وَخَشِيتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا"، وَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا اثر یہ تھا کہ آپ کو خیال ہوتا کہ آپ کوئی چیز کر چکے ہیں حالانکہ وہ چیز نہ کی ہوتی ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعائیں کر رہے تھے، پھر فرمایا: عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے مجھے دے دیا ہے۔ میں نے عرض کی وہ کیا بات ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس دو فرشتے (جبرائیل و میکائیل علیہما السلام) آئے اور ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا پاؤں کی طرف پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ان صاحب کی تکلیف کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ فرمایا بنی زریق کے لبید بن اعصم یہودی نے، پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھا ہوا ہے۔ پوچھا اور وہ جادو رکھا کہاں ہے؟ جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت بھی تھے پھر آپ واپس عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور فرمایا صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم! اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا (سرخ) ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کنگھی بال وغیرہ غلاف سے نکلوائے یا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، سن لو اللہ نے تو مجھ کو شفاء دے دی، تندرست کر دیا اب میں ڈرا کہیں لوگوں میں ایک شور نہ پھیلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سامان کے گاڑ دینے کا حکم دیا وہ گاڑ دیا گیا۔

Narrated `Aisha: Magic was worked on Allah's Apostle so that he began to imagine that he had done something although he had not. One day while he was with me, he invoked Allah and invoked for a long period and then said, "O `Aisha! Do you know that Allah has instructed me regarding the matter I asked Him about?" I asked, "What is that, O Allah's Apostle?" He said, "Two men came to me; one of them sat near my head and the other sat near my feet. One of them asked his companion, 'What is the disease of this man?' The other replied, 'He is under the effect of magic.' The first one asked, 'Who has worked magic on him?" The other replied, 'Labid bin A'sam, a Jew from the tribe of Bani Zuraiq.' The (first one asked), 'With what has it been done?' The other replied, 'With a a comb and the hair stuck to it and a skin of the pollen of a male datepalm tree.' The first one asked, 'Where is it?' The other replied, 'In the well of Dharwan.' Then the Prophet went along with some of his companions to that well and looked at that and there were date palms near to it. Then he returned to me and said, 'By Allah the water of that well was (red) like the infusion of Henna leaves and its date-palms were like the heads of devils" I said, O Allah's Apostle! Did you take those materials out of the pollen skin?" He said, 'No! As for me Allah has healed me and cured me and I was afraid that (by Showing that to the people) I would spread evil among them when he ordered that the well be filled up with earth, and it was filled up with earth "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 661

   صحيح البخاري6391عائشة بنت عبد اللهالله قد أفتاني فيما استفتيته فيه فقالت عائشة فما ذاك يا رسول الله قال جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي فقال أحدهما لصاحبه ما وجع الرجل قال مطبوب قال من طبه قال لبيد بن الأعصم قال في ماذا قال في مشط ومشاطة وجف طلعة
   صحيح البخاري5763عائشة بنت عبد اللهقد عافاني الله فكرهت أن أثور على الناس فيه شرا فأمر بها فدفنت
   صحيح البخاري3268عائشة بنت عبد اللهالله أفتاني فيما فيه شفائي أتاني رجلان فقعد أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي فقال أحدهما للآخر ما وجع الرجل قال مطبوب قال ومن طبه قال لبيد بن الأعصم قال فيما ذا قال في مشط ومشاقة وجف طلعة ذكر قال فأين هو قال في بئر ذروان
   صحيح البخاري6063عائشة بنت عبد اللهيا عائشة إن الله أفتاني في أمر استفتيته فيه أتاني رجلان فجلس أحدهما عند رجلي والآخر عند رأسي فقال الذي عند رجلي للذي عند رأسي ما بال الرجل قال مطبوب يعني مسحورا قال ومن طبه قال لبيد بن أعصم قال وفيم قال في جف طلعة ذكر في مشط ومشاقة تحت رعوفة
   صحيح البخاري5766عائشة بنت عبد اللهقد عافاني الله وشفاني وخشيت أن أثور على الناس منه شرا
   صحيح البخاري3175عائشة بنت عبد اللهسحر حتى كان يخيل إليه أنه صنع شيئا ولم يصنعه
   صحيح مسلم5703عائشة بنت عبد اللهالله أفتاني فيما استفتيته فيه جاءني رجلان فقعد أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي فقال الذي عند رأسي للذي عند رجلي أو الذي عند رجلي للذي عند رأسي ما وجع الرجل قال مطبوب قال من طبه قال لبيد بن الأعصم قال في أي شيء قال في مشط ومشاطة
   سنن ابن ماجه3545عائشة بنت عبد اللهالله قد أفتاني فيما استفتيته فيه جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي فقال الذي عند رأسي للذي عند رجلي أو الذي عند رجلي للذي عند رأسي ما وجع الرجل قال مطبوب قال من طبه قال لبيد بن الأعصم قال في أي شيء قال في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر
   مسندالحميدي261عائشة بنت عبد اللههذه البئر التي أريتها كأن رءوس نخلها رءوس الشياطين، وكأن ماءها نقاعة الحناء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3175  
´جادو کا عارضی اثر خیال پر ہونا`
«. . . سُحِرَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ . . .»
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ سمجھتے کہ میں نے فلاں کام کر لیا ہے۔ حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3175]

تخریج الحدیث:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیاوی امور میں، مرض کی طرح عارضی طور پر جادو کے اثر والی روایت صحیح بخاری میں سات مقامات پر ہے: [3175، 3268، 5763، 5765، 5766، 6063، 6391]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ اسے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:
مسلم بن الحجاج النيسابوري [صحيح مسلم: 2189 وترقيم دارالسلام: 5703، 5704]
ابن ماجه [السنن: 3545]
النسائي [الكبريٰ: 7615 دوسرا نسخه: 7569]
ابن حبان [فى صحيحه: الاحسان ح6549، 6550 دوسرا نسخه: 6583، 6584]
ابوعوانه [فى الطب/ اتحاف المهرة 17؍319 ح22316]
الطحاوي [مشكل الآثار/ تحفة الاخيار 6؍609 ح4788]
الطبراني [الاوسط: 5922]
البيهقي [السنن الكبريٰ 8؍135، دلائل النبوة 6؍247]
ابن سعد [الطبقات 2؍196]
ابن جرير الطبري [فى تفسيره 1؍366، 367]
البغوي [شرح السنة 12؍185، 186 ح3260 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے اسے درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 6؍50، 57، 63، 96]
الحميدي [260 بتحقيقي ابن ابي شيبه المصنف 7؍388، 389 ح23509]
اسحاق بن راهويه [المسند قلمي ص86أ، ح737]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت مشہور ثقہ امام و تابعی عروہ بن زبیر نے بیان کی ہے۔ عروہ سے ان کے صاحب زادے ہشام بن عروہ (ثقہ امام) نے یہ روایت بیان کی ہے۔
فائدہ ①: ہشام بن عروہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [صحيح بخاري: 3175]
فائدہ ②: ہشام سے یہ روایت انس بن عیاض المدنی [صحيح بخاري: 2691] اور عبدالرحمٰن بن ابی الزناد المدنی [صحيح بخاري: 5763، تفسير طبري 1؍366، 367 وسنده حسن] وغیرہما نے بھی بیان کی ہے۔ «والحمدلله»
اس روايت كي تائيد كے لئے ديكهئے:
مصنف عبدالرزاق [19764]
وصحيح بخاري [قبل ح3175]
وطبقات ابن سعد [2؍199 عن الزهري وسنده صحيح]
والسنن الصغريٰ للنسائي [7؍112 ح4085]
ومسند أحمد [4؍367]
ومسند عبد بن حميد [271]
ومصنف ابن ابي شيبه [7؍388 ح23508]
وكتاب المعرفة والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي [3؍289، 290]
والمستدرك [4؍360، 361]
ومجمع الزوائد [6؍289، 290]
↰ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث کا اس حدیث پر حملہ دراصل تمام محدثین پر حملہ ہے۔

تنبیہ ①: قرآن مجید سے ثابت ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ان رسیوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے جنہیں جادوگروں نے پھینکا تھا۔ جادوگروں نے ایسا جادو چلایا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھے کہ یہ (سانپ بن کر) دوڑ رہی ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
«يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ»
ان کے جادو (کے زور) سے موسیٰ کو یوں خیال ہوتا تھا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ [آسان لفظي ترجمه ص503، طٰهٰ: 66]
↰ معلوم ہوا کہ جادو کا عارضی اثر خیال پر ہو سکتا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خیال کرنا کہ میں نے یہ (دنیا کا) کام کر لیا ہے، قطعاً قرآن کے خلاف نہیں ہے۔
منکرین حدیث کو چاہئے کہ وہ ایسی قرآنی آیت پیش کریں جس سے صاف ثابت ہوتا ہو کہ دنیاوی امور میں نبی کے خیال پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا۔ جب ایسی کوئی آیت ان کے پاس نہیں اور سورت طٰہٰ کی آیت مذکورہ ان لوگوں کی تردید کر رہی ہے تو ان لوگوں کو چاہئیے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور امت مسلمہ کی متفقہ صحیح احادیث پر حملہ کرنے سے باز رہیں۔

تنبیہ ②: روایت مذکورہ میں جادو کی مدت کے دوران میں دینی امور اور وحی الٰہی کے سلسلے میں جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ قرآن کا کچھ حصہ لکھوانے سے رہ گیا ہے۔ بلکہ اس جادو کا اثر صرف دنیا کے معاملات پر ہوا مثلًا آپ اپنی فلاں زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے یا نہیں؟ لہٰذا دین اسلام قرآن وحدیث کی صورت میں من و عن محفوظ ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6063  
´اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ تمہیں انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے`
«. . . قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} . . .»
. . . اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ تمہیں انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور تمہیں فحش، منکر اور بغاوت سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6063]

«. . . وَقَوْلِهِ: {إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ}، {ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللَّهُ} وَتَرْكِ إِثَارَةِ الشَّرِّ عَلَى مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ. . . .»
. . . اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ یونس میں فرمان «إنما بغيكم على أنفسكم‏» بلاشبہ تمہاری سرکشی اور ظلم تمہارے ہی جانوں پر آئے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ الحج میں فرمان «ثم بغي عليه لينصرنه الله‏» پھر اس پر ظلم کیا گیا تو اللہ اس کی یقیناً مدد کرے گا۔ اور اس باب میں فساد بھڑکانے کی برائی کا بھی بیان ہے مسلمان پر ہو یا کافر پر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6063]

«. . . عن عائشة رضي الله عنها، قالت: مكث النبي صلى الله عليه وسلم كذا وكذا يخيل إليه انه ياتي اهله ولا ياتي، قالت عائشة: فقال لي ذات يوم:" يا عائشة إن الله افتاني في امر استفتيته فيه، اتاني رجلان فجلس احدهما عند رجلي والآخر عند راسي، فقال الذي عند رجلي للذي عند راسي، ما بال الرجل قال: مطبوب، يعني مسحورا قال: ومن طبه؟ قال: لبيد بن اعصم قال: وفيم؟ قال: في جف طلعة ذكر في مشط ومشاقة تحت رعوفة في بئر ذروان"، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هذه البئر التي اريتها كان رءوس نخلها رءوس الشياطين وكان ماءها نقاعة الحناء"، فامر به النبي صلى الله عليه وسلم فاخرج، قالت عائشة: فقلت: يا رسول الله، فهلا تعني تنشرت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اما الله فقد شفاني، واما انا فاكره ان اثير على الناس شرا" قالت: ولبيد بن اعصم رجل من بني زريق حليف ليهود . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے اتنے دنوں تک اس حال میں رہے کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جا رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک دن فرمایا، عائشہ! میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک معاملہ میں سوال کیا تھا اور اس نے وہ بات مجھے بتلا دی، دو فرشتے میرے پاس آئے، ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا سر کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اس سے کہا کہ جو میرے سر کے پاس تھا ان صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا، کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے، پوچھا، کس چیز میں کیا ہے، جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں، اس کے اندر کنگھی ہے اور کتان کے تار ہیں۔ اور یہ ذروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے دبا دیا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا تھا۔ اس کے باغ کے درختوں کے پتے سانپوں کے پھن جیسے ڈراؤنے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا پانی مہندی کے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح سرخ تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ جادو نکالا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہیں، ان کی مراد یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو شہرت کیوں نہ دی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفاء دے دی ہے اور میں ان لوگوں میں خواہ مخواہ برائی کے پھیلانے کو پسند نہیں کرتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لبید بن اعصم یہود کے حلیف بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6063]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6063 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آیات پیش فرمائی ہیں، جن سے آپ کا مقصد واضح ہے کہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے بغی، ظلم سے منع فرمایا ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ سرکشی اور ظلم کا نقصان خود سرکش اور ظالم ہی کی طرف لوٹے گا اور مظلوم کی اللہ تعالی کی طرف سے مدد کی جائے گی۔
چنانچہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے امام قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و مطابقة الآيات المذكورة، و ترجمة الباب مع الحديث كما هو ملخص من قول الخطابي إن الله تعالي لما نهي عن البغي، و أعلم أن ضرر البغي إنما هو راجح على الباغي، و ضمن النصر لمن بغي عليه كان حق من بغي عليه أن يشكر إليه على إحسانه إليه، بأن يعفو عمن بغي عليه، وقد امتثل النبى صلى الله عليه وسلم ذالك فلم يعاقب الذى كاده بالسحر مع قدرته على ذالك.» (1)
ترجمۃ الباب میں جو آیات ہیں، ان کی مناسبت حدیث سے یوں ہے کہ امام خطابی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یقینا اللہ تعالی نے بغی سے ممانعت فرمائی ہے اور بغی کا ضرر اس پر راجح ہے، اور مدد اسی کے لیے ہے جس پر بغی (یعنی زیادتی) کیا گیا ہے، اور جس پر بغی کیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے کہ اس پر اس کا احسان کیا، اور یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بدلہ نہیں لیا جس نے جادو کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر باوجود اس کے کہ اس
پرقدرت تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بدلہ لیتے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون مطابقة الترجمة للآيات و الحديث أنه صلى الله عليه وسلم ترك استخراج السحر خشية أن يثور على الناس منه شر فسلك مسك العدل فى أن لا يحصل لمن لم يتعاط السحر شئيي من أثر الضرر الناشي عن السحر شر و سلك مسك الإحسان فى ترك عقوية الجاني.» (1)
اس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کریمہ میں عدل و احسان کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جادو کے واقعے میں عدل و احسان دونوں پر عمل فرمایا، عدل اس طرح کہ جادو کا یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشہور نہیں کیا، تاکہ جو لوگ اس میں شریک نہیں ہیں، ان میں فساد برپا نہ ہو، کیوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحر کرنے والے کا نام بتا دیتے تو مسلمان ان کے خلاف کاروائی کرتے اور یوں معاملہ جنگ و جدال تک پہنچتا . . . اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کو دبا کر راہ عدل و انصاف اختیار فرمایا، دوسری طرف جادو کرنے والے مجرم کو معاف فرما کر احسان پر عمل کیا، لہذا آیت کریمہ میں جو عدل و احسان کا ذکر ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کر کے دکھلایا۔
فائدہ:
جیسا کہ ہم قارئین کو فائدے یا اشکالات کے جوابات میں اکثر منکر ین، ملحدین کے اعتراضات سے آگاہی فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ علمی نقد بھی، چنانچہ مذکورہ بالا حدیث سحر پر بھی اشکالات کے ساتھ تابڑ توڑ حملے کیے گئے ہیں اور منکرین حدیث نے اس کو بھی راویوں کی سازش اور قرآنی آیات کے خلاف بیان کر کے اسے رد کرنے کی کوشش کی، بلکہ بےسراپا اور تار عنکبوت سے بھی کمزور دلائل سے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے، ہم ان شاء اللہ ان کے اعتراضات کو بھی نقل کریں گے اور بتدریج ان اعتراضات کے جوابات بھی قارئین کے سامنے پیش کریں گے تاکہ ان گلابی منکرین حدیث کے مقاصد اپنی موت آپ مر جائیں۔
سحر والی حدیث پر پہلا اعتراض:
بعض منکرین حدیث کا اعتراض یہ بھی ہے کہ جادو کا نبی پر ہونا قرآن کریم کے نصوص کے خلاف ہے، کیوں کہ موسی علیہ السلام پر جادو کا اثر نہ ہوا تھا جبکہ مذکورہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا، لہذا حدیث کا بیان قرآن کریم کے بیان کے خلاف ہے۔
پہلے اعتراض کا جواب:
کسی نے خوب کہا: آنکھیں ہیں اگر بند تو پھر دن بھی رات ہے، قرآن مجید ہی میں واضح طور پر موسی علیہ السلام پر جادو کے اثر کا واقعہ تفصیلا موجود ہے، جادوگروں کے جادو سے لوگوں کا ڈرنا تو منکرین حضرات مان لیتے ہیں، مگر موسی علیہ السلام پر اس کے اثر کو نہیں مانتے، حالانکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
« ﴿يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى﴾ » [طه: 66]
ان کے جادو سے موسی علیہ السلام کو خیال آتا ہے کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔
حالانکہ حقیقتا وہ دوڑ نہیں رہی تھیں، کیوں کہ وہ جادو کا اثر تھا، اور مزید اگلی آیت میں ارشاد ہوا:
« ﴿فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً﴾ » [طه: 67]
کہ موسی اپنے نفس میں خوف زدہ ہو گئے۔
لہذا جب موسی علیہ السلام کا خوف زدہ ہونا ایک بشریت کا تقاضا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو کے اثر سے خوف زدہ ہونا بھی اسی بشریت کے ناطے سے ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں نبیوں کو ایک مثال میں جمع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
« ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا﴾ » [المزمل: 15]
ہم نے تمہاری طرف اسی طرح کا رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا، جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بنا کر بھیجا۔
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت کے لیے موسی علیہ السلام کی مثال دی جارہی ہے، حالانکہ موسی علیہ السلام سے بیشتر انبیاء علیہم السلام کثیر تعداد میں تشریف لائے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے میں موسی علیہ السلام سب سے زیادہ قریب تھے، مثلا:
موسی علیہ السلام نے جہاد کیا . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاد کیا۔
موسی علیہ السلام کے دور کا فرعون . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا فرعون ابوجہل۔
موسی علیہ السلام نے ہجرت کی . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کی۔
موسی علیہ السلام کی پیدائش فطری تھی . . . . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی فطری پیدائش تھی۔
موسی علیہ السلام نے حدود کو نافذ فرمایا . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدود کا نفاذ کیا۔
موسی علیہ السلام کے جانشین ان کے خاندان نبوت سے نہیں بلکہ ان کے صحابی یوشع بن نون تھے . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔
موسی علیہ السلام پر بھی جادو ہوا . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو ہوا۔
موسی علیہ السلام پر جادو کرنے والے نامراد ہوئے . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرنے والا لبید بن اعصم بھی نامراد ہوا۔
دوسرا اعتراض:
بعض حضرات کی طرف سے یہ بھی اعتراض نقل کیا گیا ہے کہ اس حدیث کو صرف ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی نقل کیا ہے، اگر یہ واقعہ سرزد ہوتا تو دیگر امہات المومنین اسے ضرور نقل کرتیں یا پھر آپ کے دیگر صحابہ کرام۔
دوسرے اعتراض کا جواب:
یہ اعتراض بھی سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے، مثال کے طور پر اگر اس واقعہ کو صرف امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی روایت کیا ہے تو پھر بھی اس میں کون کی خرابی ہے؟ جس کی وجہ سے حدیث قابل حجت نہیں، شریعت میں ایسے کئی واقعات و مسائل ہیں جنہیں صرف ایک ہی صحابی روایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان روایات کو ہر دور میں قبول کیا گیا ہے، مگر یہاں ایسا کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ تکلف کرنے کی ضرورت پیش آئی؟؟
الحمد للہ تحقیق سے اگر مطالعہ کیا جائے تو سحر کی حدیث کو بھی کئی صحابہ نے روایت کیا ہے، مثلا:
➊ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ۔ [مسند أحمد بن حنبل: 397/4]
«قال الإمام أحمد: ثنا أو معاوية ثنا الأعمش عن يزيد بن حيان عن زيد بن أرقم قال: تستحر النبى صلى الله عليه وسلم رجل من اليهود . . . . .» (1)
➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا۔ [الطبقات ابن سعد: 153/2]
«قال ابن سعد: أخبرنا عمر بن حفص عن حويبر عن الضحاك عن ابن عباس قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم و أخز عن النساء و عن الطعام . . . . .» (2)
➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
«رواه ابن مردويه، و ذكره الدر المنثور، عن انس بن مالك، قال: صنعت اليهود بالنبي صلى الله عليه وسلم شيئا فأصابه منه.» (3)
➍ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 48/5]
«أخبرنا عبدالرحيم بن سليمان عن يحيى بن أبى حبة عن عبدالعزيز بن رفيع عن عبدالله بن أبى الحسين عن عمر بن خطاب: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نزل فجلس ملكان (1)
حدیث سحر والی روایت کے بارے میں «المراسيل والمقطوعات»:
① عروہ و ابن المسیب رحمہما اللہ: [عبد الرزاق، رقم: 19764 - الطبقات لابن سعد: 153/2]
② الزہری رحمہ اللہ: [صحيح البخاري: 153/2]
③ عکرمہ: [ابن سعد: 154/2]
④ عمر مولی غفرۃ: [ابن سعد: 151/2]
⑤ عمر بن الحکم و عبدالرحمن بن کعب بن مالک: [ابن سعد: 152/2]
⑥ عبدالرحمن بن ابی لیلی: [ابن سعد: 155/2]
⑦ یحیی بن یعمر: [مصنف عبدالرزاق: 14/11]
ان حوالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ سحر والی حدیث میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا منفرد نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو روایت کرتے ہیں، اور دیگر محدثین نے بھی مراسیل اور مقطوعات اس بارے میں پیش کی ہیں جن کی مثالیں ہم نے دے دی ہیں۔ الحمد للہ
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 183   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6391  
´دعا میں ایک ہی فقرہ باربار عرض کرنا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طُبَّ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ صَنَعَ الشَّيْءَ وَمَا صَنَعَهُ، وَإِنَّهُ دَعَا رَبَّهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" جَاءَنِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ: قَالَ فِي مَاذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي ذَرْوَانَ وَذَرْوَانُ بِئْرٌ فِي بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَتْ: فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ"، قَالَتْ: فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهَا عَنِ الْبِئْرِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلَّا أَخْرَجْتَهُ، قَالَ:" أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ خواب کیا ہے؟ فرمایا میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا، ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔ پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا وہ جادو کس چیز میں ہے؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔ پوچھا وہ ہے کہاں؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا واللہ! اس کا پانی مہدی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ: 6391]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6391 کا باب: «بَابُ تَكْرِيرِ الدُّعَاءِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں ایک ہی فقرے کو بار بار دعا میں استعمال کرنے کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں اس طرح کا کوئی فقرہ نہیں ہے جسے بار بار کہا گیا ہو، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عادت کے مطابق دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و رواية عيسىٰ بن يونس تقدمت موصولة فى الطب، و هو المطابق للترجمة بخلاف رواية أنس بن عياض التى أوردها فى الباب فليس فيها تكرير الدعاء، و وقع عند مسلم فى هذا الحديث فدعا ثم دعا ثم دعا (1)
عیسیٰ بن یونس کی روایت الطب میں مع شرح موصول ہوئی یہ مطابق ترجمہ ہے، بخلاف انس بن عیاض کی روایت کے جو یہاں وارد ہوئی ہے کہ اس کے سیاق میں تکریر دعا کا ذکر موجود نہیں ہے (لیکن) مسلم کے ہاں عبیداللہ بن عنبر عن ہشام کے طریق سے اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کا ذکر کتاب الطب وغیرہ میں گزر چکا ہے، اور جس روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اس میں تکرار کے ساتھ دعا کا ذکر موجود ہے جس سے باب کا مقصد حل ہو جاتا ہے۔ پس اسی جہت سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 213   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3545  
´جادو کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی زریق کے یہودیوں میں سے لبید بن اعصم نامی ایک یہودی نے جادو کر دیا، تو آپ کو ایسا لگتا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے تھے، یہی صورت حال تھی کہ ایک دن یا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی اور پھر دعا فرمائی، پھر کہا: عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی جو میں نے اس سے پوچھی تھی، میرے پاس دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائتانے بیٹھ گیا، سرہانے والے نے پائتانے والے سے کہا، یا پائتانے والے نے سرہانے والے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3545]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جادو ایک شیطانی عمل ہے۔
جس کی وجہ سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(2)
جادو حرام اور کفر ہے۔
کیونکہ اس میں شیطانوں سے مدد مانگی جاتی ہے۔
اور اس طرح کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔
جن میں شیطانوں کی تعریف ہوتی ہے اور کفریہ باتیں ہوتی ہیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوجانا منصب نبوت کے منافی نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام جادو گروں کے جادو کی وجہ سے ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ کر ڈر گئے تھے۔ (سور ہ طہٰ: 66، 67)

(4)
یہودی جادو کے ذریعے سے رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔
یہ نبی کریمﷺکی نبوت کی دلیل ہے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے جادو کے اثر سے کمزوری اور کسل مندی محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہوجائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے مؤثر ہونے کے باوجود اپنے نبی ﷺ کو محفوظ رکھا۔
جس طرح یہود نے نبی کریمﷺ کو زہریلا گوشت کھلا دیا۔
لیکن نبی ﷺ زہر کے اثر سے محفوظ رہے۔

(6)
بعض لوگوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہےکہ اس سے کفار کے الزام کی تایئد ہوتی ہے۔
کہ نبی کریمﷺ پر جادو کا اثر ہے۔
جس کا ذکر سورہ فرقان آیت 8 میں ہے۔
لیکن یہ اعتراض اس لئے غلط ہے کہ کفار قرآن مجید کو اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت اور محنت کو جنون اور جادو کا اثرقرار دیتے تھے۔
اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔

(7)
نبی علیہ السلام انسان ہوتے ہیں اس لئے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
جس طرح طائف اور احد میں کفار کے ہاتھوں آپﷺ زخمی ہوئے یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں۔

(8)
نبی کریمﷺ بھی مشکلات کے حل کےلئے اللہ سے دعا مانگتے تھے۔
اور اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانی دور فرما دیتا تھا۔

(9)
نبی عالم الغیب نہں تھے۔
البتہ وحی کے ذریعے سے آپ ﷺ کوغیبی امور کی اطلاع دے دی جاتی تھی۔

(10)
جن چیزوں کو جادو کے عمل میں استعمال کیا جائے۔
ان کو جلادینا یا زمین میں دبا دینا درست ہے۔

(11)
رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کوزیادہ اہمیت نہیں دی۔
تاکہ بے فائدہ تشہیر نہ ہو۔
بلکہ صبر فرمایا اور یہودیوں کو سزا بھی نہیں دی۔

(12)
اس کنویں کے پانی کا رنگ غالبا عدم استعمال کی وجہ سے تبدیل ہوگیا تھا اور مہندی کے پانی کی طرح سرخ معلوم ہوتا تھا۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3545   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5766  
5766. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5766]
حدیث حاشیہ:
ابن سعد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کواس کنویں پر بھیجا کہ جا کر یہ جادو کا سامان اٹھا لائیں۔
ایک روایت میں ہے حضرت جبیر بن یاس زرقی کو بھیجا انہوں نے یہ چیزیں کنویں سے نکالیں ممکن ہے کہ پہلے آپ نے ان لوگوں کو بھیجا ہو اور بعد میں آپ خود بھی تشریف لے گئے ہوں جیسا کہ یہاں مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چند روز اس جادو کا اثر رہا اس میں یہ حکمت الٰہی تھی کہ آپ کا جادو گر نہ ہونا سب پر کھل جائے کیونکہ جادو گر کا اثر جادو گر پر نہیں ہوتا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5766   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5766  
5766. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5766]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن سعد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو اس کنویں پر بھیجا کہ وہاں جا کر جادو کا سامان اٹھا لائیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبیر بن ایاس زرقی کو بلایا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، انہوں نے بئر ذروان میں جادو کے سامان کی نشاندہی کی۔
ممکن ہے کہ آپ نے پہلے ان حضرات کو بھیجا ہو بعد میں خود بھی تشریف لے گئے ہوں اور خود اس کا مشاہدہ کیا ہو۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 283/10) (2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور چند روز تک اس کا اثر بھی رہا، شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکمت تھی کہ آپ کا جادوگر نہ ہونا سب پر ظاہر ہو جائے کیونکہ جادوگر پر جادو اثر نہیں کرتا۔
یہود آپ کو حسد کی وجہ سے شہید کرنا چاہتے تھے، پہلے زہریلا گوشت کھلایا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا اور اب انہوں نے آپ پر سخت قسم کا جادو کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات دی اور یہود کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5766   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.