الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: لباس کے بیان میں
The Book of Dress
57. بَابُ الْقَلاَئِدِ وَالسِّخَابِ لِلنِّسَاءِ:
57. باب: زیور کے ہار اور خوشبو یا مشک کے ہار عورتیں پہن سکتی ہیں۔
(57) Chapter. The wearing of necklaces and Sikhab by the women.
حدیث نمبر: Q5881
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
يعني قلادة من طيب وسك.يَعْنِي قِلاَدَةً مِنْ طِيبٍ وَسُكٍّ.
‏‏‏‏ یعنی خوشبو اور مشک کا ہار۔

حدیث نمبر: 5881
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن عرعرة، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم عيد فصلى ركعتين لم يصل قبل ولا بعد، ثم اتى النساء فامرهن بالصدقة، فجعلت المراة تصدق بخرصها وسخابها".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تَصَدَّقُ بِخُرْصِهَا وَسِخَابِهَا".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن (آبادی سے باہر) گئے اور دو رکعت نماز پڑھائی آپ نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی دوسری نفل نماز نہیں پڑھی پھر آپ عورتوں کے مجمع کی طرف آئے اور انہیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ چنانچہ عورتیں اپنی بالیاں اور خوشبو اور مشک کے ہار صدقہ میں دینے لگیں۔

Narrated ibn `Abbas: The Prophet came out on the day of `Id and offered a two-rak`at prayer, and he did not pray any rak`a before it, nor after it. Then he went towards the women and ordered them to give alms. The women started donating their earring and necklaces.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 769

   صحيح البخاري29عبد الله بن عباسأريت النار فإذا أكثر أهلها النساء يكفرن العشير
   صحيح البخاري5880عبد الله بن عباسأتى النساء فجعلن يلقين الفتخ والخواتيم في ثوب بلال
   صحيح البخاري5881عبد الله بن عباسخرج النبي يوم عيد فصلى ركعتين لم يصل قبل ولا بعد ثم أتى النساء فأمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تصدق بخرصها وسخابها
   صحيح البخاري98عبد الله بن عباسوعظهن وأمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي القرط والخاتم وبلال يأخذ في طرف ثوبه
   صحيح البخاري863عبد الله بن عباسأتى النساء فوعظهن وذكرهن وأمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال ثم أتى هو وبلال البيت
   صحيح مسلم2044عبد الله بن عباسأنتن على ذلك فقالت امرأة واحدة لم يجبه غيرها منهن نعم يا نبي الله لا يدرى حينئذ من هي قال فتصدقن فبسط بلال ثوبه ثم قال هلم فدى لكن أبي وأمي فجعلن يلقين الفتخ والخواتم في ثوب بلال
   سنن النسائى الصغرى1494عبد الله بن عباسلم أر كاليوم منظرا قط رأيت أكثر أهلها النساء قالوا لم يا رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 29  
´دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ، قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 29]

تشریح:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو کفر حقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگر یہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابوسعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کر دیا ہے۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي هذاالحديث وعظ الرئيس المروس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيماقاله اذا لم يظهر له معناه الخ»
یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کر لے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔

حضرت امام نے «كفر دون كفر» کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ «وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» [المائدۃ: 44] کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ کافر ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا «خلود فى النار» ہے۔ اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے۔
➊ کفر بانکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔
➋ کفر جحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفر تھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔
➌ کفر عناد یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید و رسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی و حال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔
➍ کفر نفاق یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف «وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِنْ لَا يَعْلَمُونَ» [البقرۃ: 13] میں مذکو رہے۔ (یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار و مہاجرین) لائے ہوئے ہیں تو جواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی (منافق) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 98  
´عورتوں کا عیدگاہ میں جانا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 98]

تشریح:
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عیدگاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگر سنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 98   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5881  
5881. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ عید کے دن باہر تشریف لے گئے اور دو رکعت پڑھائیں آپ نے نماز عید سے پہلے یا بعد کوئی نوافل نہیں پڑھے۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے انہیں صدقہ کرنے کا شوق دلایا تو انہوں نے اپنی بالیاں اور خوشبو دار ہار صدقہ کرنا شروع کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5881]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عید گاہ میں عورتوں کا جانا عہد نبوی میں عام طور پر معمول تھا بلکہ آپ نے اس قدر تاکید کی تھی کہ حیض والی بھی نکلیں جو صرف دعا میں شریک ہوں۔
تعجب ہے ان لوگوں پر جو آج اس کو معیوب جانتے ہیں حالانکہ آج کل قدم قدم پر پولیس کا انتظام ہوتا ہے اور کوئی بد مزگی نہیں ہوتی پھر بھی بعض الناس مختلف حیلوں بہانوں سے اس کی تاویل کرتے رہتے اور لوگوں کو عورتوں کے روکنے کا حکم کرتے رہتے ہیں۔
روایت میں عورتوں کا صدقہ میں بالیاں اور ہار دینا مذکور ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5881   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5881  
5881. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ عید کے دن باہر تشریف لے گئے اور دو رکعت پڑھائیں آپ نے نماز عید سے پہلے یا بعد کوئی نوافل نہیں پڑھے۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے انہیں صدقہ کرنے کا شوق دلایا تو انہوں نے اپنی بالیاں اور خوشبو دار ہار صدقہ کرنا شروع کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5881]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ عورتوں نے اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں اتار کر دینا شروع کر دیں۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 98)
ایک دوسری روایت میں کنگن صدقہ کرنے کا بھی بیان ہے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1431)
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ عید الفطر کا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4895) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں عورتیں بھی عیدگاہ جاتی تھیں اور نماز میں شریک ہوتی تھیں۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ عورتیں سونے کے ہار اور خوشبودار پھولوں اور کلیوں کے ہار استعمال کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ زینت کے لیے ہوتے ہیں اور عورتوں کو زینت کرنے کی اجازت ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5881   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.