الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
60. بَابُ سَتْرِ الْمُؤْمِنِ عَلَى نَفْسِهِ:
60. باب: مومن کا اپنے (عیب) پر پردہ ڈالنا۔
(60) Chapter. (It is recommended that) a believer should conceal what sins he may commit.
حدیث نمبر: 6070
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن صفوان بن محرز، ان رجلا سال ابن عمر، كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في النجوى؟ قال: يدنو احدكم من ربه حتى يضع كنفه عليه، فيقول:" عملت كذا وكذا"، فيقول: نعم، ويقول:" عملت كذا وكذا"، فيقول: نعم، فيقرره، ثم يقول:" إني سترت عليك في الدنيا فانا اغفرها لك اليوم".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ:" عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا"، فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ:" عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا"، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ:" إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے صفوان بن محرز سے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کانا پھوسی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ (یعنی سرگوشی کے بارے میں) انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے (قیامت کے دن تم مسلمانوں) میں سے ایک شخص (جو گنہگار ہو گا) اپنے پروردگار سے نزدیک ہو جائے گا۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تو نے (فلاں دن دنیا میں) یہ یہ برے کام کئے تھے، وہ عرض کرے گا۔ بیشک (پروردگار مجھ سے خطائیں ہوئی ہیں پر تو غفور رحیم ہے) غرض (سارے گناہوں کا) اس سے (پہلے) اقرار کرا لے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے تو آج میں ان گناہوں کو بخش دیتا ہوں۔

Narrated Safwan bin Muhriz: A man asked Ibn `Umar, "What did you hear Allah's Apostle saying regarding An-Najwa (secret talk between Allah and His believing worshipper on the Day of Judgment)?" He said, "(The Prophet said), "One of you will come close to his Lord till He will shelter him in His screen and say: Did you commit such-and-such sin? He will say, 'Yes.' Then Allah will say: Did you commit such and such sin? He will say, 'Yes.' So Allah will make him confess (all his sins) and He will say, 'I screened them (your sins) for you in the world, and today I forgive them for you."'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 96

   صحيح البخاري7514عبد الله بن عمرسترت عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاري6070عبد الله بن عمرسترت عليك في الدنيا فأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاري2441عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم فيعطى كتاب حسناته وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد هؤلاء الذين كذبوا على ربهم ألا لعنة الله على الظالمين
   صحيح البخاري4685عبد الله بن عمريدنى المؤمن من ربه
   صحيح مسلم7015عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وإني أغفرها لك اليوم فيعطى صحيفة حسناته وأما الكفار والمنافقون فينادى بهم على رءوس الخلائق هؤلاء الذين كذبوا على الله
   سنن ابن ماجه183عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم ثم يعطى صحيفة حسناته وأما الكافر فينادى على رءوس الأشهاد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث183  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ» (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔
اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مخاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔
جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔

(2)
اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے ﴿وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا﴾ (مریم: 56)
 ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا قرب بخشا۔
اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

(3)
اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 183   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6070  
6070. حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو سرگوشی کے متعلق کیا فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: تم میں سے ایک شخص اللہ کے قریب ہوگا، اللہ تعالٰی اپنا بازو اس پر رکھ کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا جی ہاں اللہ تعالٰی، پھر فرمائے گا۔ تو نے یہ برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا۔ جی ہاں۔ اللہ تعالٰی اس سے اقرار کرانے کے بعد فرمائے گا میں نے دینا میں تیرے گناہوں پرپردہ دیے رکھا اور آج میں تیرے وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6070]
حدیث حاشیہ:
اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے، یعنی گناہوں کا چھپا لینے والا، دنیا اور آخرت میں وہ بہت سے بندوں کے گناہوں کو چھپا لیتا ہے۔
بعون اللہ منھم۔
آمین۔
مثل مشہور ہے کہ ایک تو چوری کرے اوپر سے سینہ زوری کرے۔
اگر آدمی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اسے چھپا کر رکھے، شرمندہ ہو۔
اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے، یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔
یہ حدیث بھی ان احادیث صفات میں سے ہے، اس میں اللہ کے لئے کتف بازو ثابت کیا گیا ہے، جیسے سمع اور بصر اور ید اور عین اور وجہ وغیرہ۔
اہل حدیث اس کی تاویل نہیں کرتے اور یہی مسلک حق ہے، تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ کتف سے حجاب رحمت مراد ہے یعنی اللہ اسے اپنے سایہ عاطفت میں چھپا لے گا مگر یہ تاویل کرنا ٹھیک نہیں ہے، کتف کے معنی بازو کے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6070   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6070  
6070. حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو سرگوشی کے متعلق کیا فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: تم میں سے ایک شخص اللہ کے قریب ہوگا، اللہ تعالٰی اپنا بازو اس پر رکھ کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا جی ہاں اللہ تعالٰی، پھر فرمائے گا۔ تو نے یہ برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا۔ جی ہاں۔ اللہ تعالٰی اس سے اقرار کرانے کے بعد فرمائے گا میں نے دینا میں تیرے گناہوں پرپردہ دیے رکھا اور آج میں تیرے وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6070]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس سے گناہوں کا اقرار کرائے گا تو وہ یقین کرے گا کہ میں تو ہلاک ہو گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ گناہوں پر پردہ پوشی بلکہ اپنی طرف سے معافی کی بشارت دے گا۔
نیز لوگوں کے سامنے اسے رسوائی سے بچانے کے لیے صرف نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دیا جائے گا۔
اس کے برعکس کافر اور منافق کو سرعام ذلیل ورسوا کرے گا اور اس کے خلاف گواہی دینے والے کہیں گے:
یہی وہ لوگ تھے جو اپنے رب پر جھوٹ باندھتے تھے۔
سن لو! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
(صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2441) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تمام احادیث پر نظر رکھتے ہوئے بڑی جامع بحث کی ہے کہ اہل ایمان میں سے گناہ گاروں کی دو قسمیں ہوں گی:
ایک وہ گناہ گار جن کے گناہ صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہوں گے اور دوسرے وہ گناہ گار جنھوں نے حقوق العباد میں کوتاہی کی ہوگی۔
جن کے گناہ صرف حقوق اللہ سے متعلق ہوں گے ان کی پھر دوقسمیں ہیں:
ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پردہ ڈلا ہوگا، انھیں تو معاف کر دیا جائے گا۔
اور دوسرے وہ جنھوں نے اپنے گناہوں کو نشر کیا ہوگا، انھیں معاف نہیں کیا جائے گا۔
جن کے گناہ حقوق العباد سے متعلق ہوں گے، ان کی بھی دوقسمیں ہوں گی:
ایک وہہ جن کی برائیاں، نیکیوں سے زیادہ ہوں گی تو انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
وہ سزا پا کر یا سفارش سے جہنم سے نکل آئیں گے۔
دوسرے وہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، ان سے بدلہ لے کر جنت میں داخلے کی اجازت مل جائے گی جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(فتح الباري: 600/10، وصحیح البخاري، المظالم، حدیث2440) (3)
بہرحال انسان کوچاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی خود ہی پردہ دری نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جن برائیوں سے اللہ نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرو اگر کوئی ان کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ انھیں نشرنہ کرے بلکہ اللہ کے پردے میں انھیں چھپائے رکھے۔
(المستدرك للحاکم: 272/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6070   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.