الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
72. بَابُ مَنْ لَمْ يُوَاجِهِ النَّاسَ بِالْعِتَابِ:
72. باب: غصہ میں جن پر عتاب ہے ان کو مخاطب نہ کرنا۔
(72) Chapter. Whoever did not admonish people in their faces (i.e., directly).
حدیث نمبر: 6101
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا مسلم، عن مسروق، قالت عائشة: صنع النبي صلى الله عليه وسلم شيئا فرخص فيه، فتنزه عنه قوم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فخطب فحمد الله، ثم قال:" ما بال اقوام يتنزهون عن الشيء اصنعه، فوالله إني لاعلمهم بالله واشدهم له خشية".حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَرَخَّصَ فِيهِ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً".
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی لیکن کچھ لوگوں نے اس کا نہ کرنا اچھا جانا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اس کام سے پرہیز کرتے ہیں، جو میں کرتا ہوں، اللہ کی قسم میں اللہ کو ان سب سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔

Narrated `Aisha: The Prophet did something and allowed his people to do it, but some people refrained from doing it. When the Prophet learned of that, he delivered a sermon, and after having sent Praises to Allah, he said, "What is wrong with such people as refrain from doing a thing that I do? By Allah, I know Allah better than they, and I am more afraid of Him than they."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 123

   صحيح البخاري6101عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح البخاري7301عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح مسلم6111عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   صحيح مسلم6109عائشة بنت عبد اللهأعلمهم بالله وأشدهم له خشية
   مشكوة المصابيح146عائشة بنت عبد اللهما بال اقوام يتنزهون عن الشيء اصنعه فوالله إني لاعلمهم بالله واشدهم له خشية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 146  
´اس کا نام اسلام ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَرَخَّصَ فِيهِ فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لأعلمهم بِاللَّه وأشدهم لَهُ خشيَة» . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور اس کے کرنے کی اجازت اور رخصت بھی دے دی لیکن بعض لوگوں نے اس سے پرہیز کیا۔ اور اس رخصت کو منظور نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے شرعی رخصت کو نہیں قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اللہ کی تعریف و شان بیان کرنے کے بعد فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا کہ جس کو میں کرتا ہوں اس سے یہ لوگ کنارہ کشی اختیار کر کے پرہیز کرتے اور اس کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کی خوشنودی اور اس کی مرضی کو سب سے زیادہ جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں، اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 146]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 6101]،
[صحيح مسلم 6109]

فقہ الحدیث:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت بہترین نمونہ زندگی ہے جسے ہر وقت خوشی اور محبت سے اپنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئیے۔
➋ قرآن و حدیث کی مخالفت اور بدعات کی پیروی سے ہر وقت بچنا ضروری ہے۔
➌ دربار الٰہی میں صرف وہی عمل معتبر و مقبول ہے جس پر قرآن و حدیث کی مہر ثبت ہو۔
➍ آپ نے کون سا کام کیا تھا؟ اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ظاہر ہے اس سے مراد رات کے بعض حصے میں نیند کرنا اور بعض دنوں میں نفلی روزے نہ رکھنا ہے، آپ نے شادیاں بھی کیں۔ ديكهئے: [مرعاة المفاتيح 1ص 242] «والله اعلم»
↰ کتاب و سنت کے خلاف امور کا خطبہ میں اعلانیہ رد کرنا مسنون ہے , لیکن خاص آدمی کا نام لینے سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے محبت اور رحمت للعالمین ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ بات کا رد تو فرما دیا، لیکن خطبے میں اپنے ان صحابہ کا نام نہیں لیا جنہوں نے اجتہادی لغزش کی وجہ سے مسنون کام سے اجتناب کرنے کا اظہار کیا تھا۔ داعی کو یہ طرز عمل ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئیے۔
➏ بعض اوقات موقع کی مناسبت سے صراحت کی بجاے اشارے کنایہ میں سمجھایا جا سکتا ہے , جیسا کہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں استدلال کیا ہے۔ ديكهيے: [صحيح بخاري مع فتح الباري 513/10 باب من لم يواجه الناس بالعتاب]
➐ دنیا کا کوئی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں ہو سکتا چاہے کتنے ہی نیک اعمال کرے اور علم کا کتنا ہی بڑا پہاڑ بن جائے، کجا یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ جائے؟ ایسا تصور سرے سے باطل اور محال ہے۔
↰ یہاں پر بطور رد عرض ہے کہ ایک شخص نے لکھا ہے: انبیاء اپنی امت سے اگر ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں۔ باقی رہا عمل، اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں اور۔۔۔۔
◄ عرض ہے کہ اس شخص کا عقیدہ باطل اور مردود ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ امتیوں کے مساوی (برابر) ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کجا یہ کہ بڑھ جانے کا دعویٰ کر دیا جائے۔!
◄ اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ ساری امت بلکہ ساری کائنات کے علوم و اعمال مل کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم و اعمال تک نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت لمبی عمر مل جائے اور وہ نیکیوں کے انبار لگا دے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عام صحابی کے درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«لو وزن ايمان ابي بكر بايمان اهل الارض لرجح به .»
اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان کا ساری زمین والوں کے ایمان سے وزن کیا جائے تو ان (سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) کا ایمان بھاری ہو گا۔ [السنة لعبدالله بن أحمد بن حنبل قلمي ص49 ب ح 821، مطبوع 378/1 و سند حسن]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنا چاہئیے کیوں کہ بندہ ذرہ سی گستاخی سے بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے ساتھ رب العالمین کے غضب اور ابدی عذاب کا حقدار ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔ «آمين»
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے سے کبھی شرمانا نہیں چاہئیے، جو کہ احادیث کی صورت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ بعض ملحدین اور بے دین لوگ داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر ازار پر اعتراضات اور طعن و تشنیع کرتے ہیں، ایسے اعتراضات اور طعن و تشنیع سے قطعًا گھبرانا نہیں چاہئیے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنے میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا یقین ہونا چاہئیے۔
➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رحمت للعالمین ہیں۔
➓ اگر سنت میں کسی بات کی رخصت موجود ہے تو خواہ مخواہ تشدد نہیں کرنا چاہئیے۔ بعض لوگ تصوف کے جال میں پھنس کر مصنوی پرہیزگاری پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ سخت گرمیوں کی دھوپ میں اور سخت سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس طرح کے سارے اعمال خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 146   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6101  
6101. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے کوئی کام کیا اور لوگوں کو بھی وہ کرنے کی اجازت دی لیکن کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کرنا اچھا خیال کیا۔ ان کا یہ رویہ نبی ﷺ کو پہنچا تو آپ نے خطبہ دیا، اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اس کام سے پرہیز کرتے ہیں جسے میں نے خود کیا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالٰی کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6101]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس جگہ سے نکلا کہ آپ نے ان لوگوں کو مخاطب کر کے نہیں فرمایا بلکہ بہ صیغہ غائب ارشاد دہوا کہ بعض لوگوں کا یہ حال ہے، اس حدیث سے یہ نکلا کہ اتباع سنت نبوی یہی تقویٰ اور یہی خدا ترسی ہے اور جو شخص یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل یا کوئی قول خلاف تقویٰ تھا یا اس کے خلاف کوئی فعل یا قول افضل ہے وہ عظیم غلطی پر ہے۔
اس حدیث میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کوان سے زیادہ پہنچانتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات الٰہی بیان کی ہیں مثلاً اترنا چڑھنا ہنسنا تعجب کرنا آنا جانا آواز سے بات کرنا یہ سب صفات برحق ہیں اور تاویل کرنے والے غلطی پر ہیں کیونکہ ان کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے مقابلہ پر صفر کے قریب ہے اور ارشاد نبوی برحق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6101   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6101  
6101. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے کوئی کام کیا اور لوگوں کو بھی وہ کرنے کی اجازت دی لیکن کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کرنا اچھا خیال کیا۔ ان کا یہ رویہ نبی ﷺ کو پہنچا تو آپ نے خطبہ دیا، اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اس کام سے پرہیز کرتے ہیں جسے میں نے خود کیا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالٰی کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6101]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاہلوں کی جہالت پر صبر کرتے، بدویوں کی سختی برداشت کرتے اور ان سے درگزر فرماتے تھے۔
اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوتا تو اس کا نام لیے بغیر اصلاح کی کوشش فرماتے۔
آپ کی نرمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سرے سے باز پرس نہ کرتے بلکہ برسرعام ان لوگوں کی تشہیر نہ کرتے تھے۔
(2)
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مباح چیزوں سے پرہیز کو تقویٰ کی بلندی خیال کرتے تھے، حدیث میں اس قسم کے لوگوں کا ذکر ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں صبح جنابت کی حالت میں ہوتا ہوں، میں نے روزہ بھی رکھنا ہوتا ہے، کیا میں پہلے غسل کروں پھر روزہ رکھوں؟ آپ نے فرمایا:
''بعض اوقات میں خود بھی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہوں تو روزہ رکھنے کے بعد غسل کر کے نماز پڑھتا ہوں۔
'' اس نے کہا:
اللہ کے رسول! آپ ہماری طرح نہیں ہیں۔
آپ کے اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں۔
اس پر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا:
''میں تمہاری نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔
'' (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2593(1110) (3)
رخصت پر عمل کرنا تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ عین تقویٰ ہے۔
بہرحال علماء اور واعظین کو چاہیے کہ وہ وعظ و نصیحت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کو ضرور پیش نظر رکھا کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6101   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.