الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
77. بَابُ الْحَيَاءِ:
77. باب: حیاء اور شرم کا بیان۔
(77) Chapter. Al-Haya.
حدیث نمبر: 6118
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة، حدثنا ابن شهاب، عن سالم، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، مر النبي صلى الله عليه وسلم على رجل وهو يعاتب اخاه في الحياء، يقول: إنك لتستحيي حتى كانه يقول: قد اضر بك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعه فإن الحياء من الإيمان".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، مَرّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يُعَاتِبُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، يَقُولُ: إِنَّكَ لَتَسْتَحْيِي حَتَّى كَأَنَّهُ يَقُولُ: قَدْ أَضَرَّ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابوسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر سے ہوا جو اپنے بھائی پر حیاء کی وجہ سے ناراض ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم بہت شرماتے ہو، گویا وہ کہہ رہا تھا کہ تم اس کی وجہ سے اپنا نقصان کر لیتے ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو کہ حیاء ایمان میں سے ہے۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: The Prophet passed by a man who was admonishing his brother regarding Haya' (pious shyness from committing religeous indiscretions) and was saying, "You are very shy, and I am afraid that might harm you." On that, Allah's Apostle said, "Leave him, for Haya' is (a part) of Faith."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 139

   صحيح البخاري24عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   صحيح البخاري6118عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   صحيح مسلم154عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   جامع الترمذي2615عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   سنن أبي داود4795عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   سنن النسائى الصغرى5036عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   سنن ابن ماجه58عبد الله بن عمرالحياء شعبة من الإيمان
   بلوغ المرام1319عبد الله بن عمرالحياء من الإيمان
   المعجم الصغير للطبراني1021عبد الله بن عمر دعه فإن الحياء من الإيمان
   مسندالحميدي638عبد الله بن عمرإن الحياء من الإيمان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1319  
حیا ایمان ہے
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏الحياء من الإيمان ‏‏‏‏ متفق عليه.»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا ایمان ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1319]

تخریج:
[بخاري 24]،
[ مسلم الايمان/373]،
[تحفته الاشراف 388/5] [373/5] [429/9] [42/9] [9/11] [16/11] [11/11]

مفردات:
«اَلْحَيَاءُ» شرم، طبیعت کا کسی کام سے اس لیے رک جانا کہ اسے کرنے سے مذمت کا یا عیب لگنے کا خطرہ ہو یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے ورنہ وہ بھی جانوروں کی طرح جو بھی دل میں آتا کر گزرتا۔ شرع میں حیا ایک ایسی عادت کو کہتے ہیں جو آدمی کو قبیح کام سے بچنے اور حق والوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے بچنے پر آمادہ رکھتی ہے۔

فوائد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقعہ پر یہ الفاظ کہے؟
صحیح بخاری میں مکمل حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«دعه فان الحياء من الايمان»
اسے رہنے دو کیونکہ حیا ایمان سے ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب الادب المفرد میں ہے «يعاتب اخاه» اپنے بھائی پر ناراض ہو رہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھائی حیا کی وجہ سے لوگوں سے اپنے حقوق بھی پوری طرح وصول نہیں کر سکتا تھا تو اس کے بھائی نے اسے نصیحت کی اور ناراض بھی ہوا کہ تم حیا کی وجہ سے اپنا نقصان کر رہے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رہنے دو کیونکہ حیا ایمان سے ہے یعنی اگر حیا کی وجہ سے یہ اپنا کوئی حق وصول نہ کر سکا تو وہ حق اس کے لیے اجر کا باعث ہو گا۔ بعض احادیث میں آیا ہے:
«الحياء كله خير» ‏‏‏‏
حیا ساری کی ساری خیر ہے۔
اور:
«الحياء لا ياتي الا بخير»
حیا خیر کے علاوہ کچھ نہیں لاتی۔

حیا ایمان سے کس طرح ہے؟
بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ حیا آدمی کو برائی سے روک دیتی ہے جس طرح ایمان بندے کے لیے گناہ سے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس مشابہت سے اسے ایمان کہا گیا۔ لیکن اس تفسیر کی رو سے حیا ایمان کا مشابہ قرار پاتی ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ایمان سے ہے۔
اس لیے اس کا معنی دوسری حدیث کو مدنظر رکھ کر کریں تو بہتر ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الايمان بضع وستون شعبة والحياء شعبة من الايمان» [صحيح بخاري ح9]
ایمان ساٹھ سے زائد شاخوں کا نام ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح کلمہ، نماز، روزہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور دوسری چیزیں ایمان کا حصہ ہیں اسی طرح حیا بھی ایمان کے درخت کی ایک شاخ اور اس کا حصہ ہے۔
«الحياء من الايمان» کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے بھائی کی یہ حیا ایمان کا نتیجہ ہے اور اس میں یہ خوبی ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

حیا کی قسمیں:
اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ان سے رکنا حیا ہے۔ عقلاً جو چیزیں ناپسندیدہ ہیں ان سے رکنا حیا ہے اور لوگ جن چیزوں کو برا جانتے ہوں ان سے رکنا بھی حیا ہے، مگر اصل حیا اللّٰہ اور اس کے رسول کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب ہے۔ بعض لوگ کئی نیکی کے کام نہیں کرتے مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کہتے ہیں ہمیں حیا آتی ہے لیکن یہ حیا نہیں بزدلی ہے، حیا ناپسندیدہ کام سے اجتناب ہے نیکی سے اجتناب حیا نہیں۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 245   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث58  
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 58]
اردو حاشہ:
(1)
حیا سے مراد وہ اخلاقی کیفیت ہے جس کی وجہ سے انسان معیوب امور سے پرہیز کرتا ہے اور حق دار کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا۔

(2)
حیا مومن کی خوبی ہے، اس لیے ہر وہ چیز یا عمل جو انسان کو بے حیائی پر آمادہ کرے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

(3)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی بہت سی شاخیں ہیں جن میں کمی بیشی ممکن ہے، لہذا ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔

(4)
حیا کے متعلق نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے کہہ رہا تھا کہ اتنی زیادہ شرم اچھی نہیں ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرما دی۔

(5)
جب کسی سے کوئی غلط بات سننے میں آئے جسے وہ صحیح سمجھ رہا ہو تو اس کی غلط فہمی دور کر کے صحیح بات واضح کر دینی چاہیے۔
یہ بھی نهي عن المنكر کی ایک صورت ہے۔

(6)
بعض لوگ فطری طور پر شرمیلے ہوتے ہیں۔
ان کی تربیت کر کے ان کا رخ نیکیوں کی طرف موڑ دیا جائے تو یہ زیادہ مفید ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 58   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2615  
´حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیاء (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کر رہا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور تاکید) فرمایا: حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2615]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے حیا کی فضیلت و اہمیت ثابت ہے،
ایک باحیاء انسان اپنی زندگی میں حیا سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے،
کیوں کہ حیا انسان کو گناہوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2615   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4795  
´شرم و حیاء کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے ایک شخص پر سے گزرے، وہ اپنے بھائی کو شرم و حیاء کرنے پر ڈانٹ رہا تھا (اور سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم کرنا اچھی بات نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، شرم تو ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4795]
فوائد ومسائل:
حیا اگرچہ ایک طبعی اور فطری عمل ہوتا ہے۔
مگر اس کے باوجود شرعی امور میں اور شرعی طور پر اس کے اظہار و استعمال کے لیئے قصد۔
کسب اور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے اسے ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4795   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6118  
6118. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی پر حیا کی وجہ سے ناراض ہو رہا تھا اور اسے کہہ رہا تھا تو حیا کرتا ہے اور حیا تجھے نقصان پہنچائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6118]
حدیث حاشیہ:
حیا کامل ایمان کا حصہ ہے، اور حیا ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔
جس طرح ایمان، مومن کو نافرمانی سے روکتا ہے اور اللہ کی اطاعت پر ابھارتا ہے، اسی طرح حیا فواحش و منکرات سے روکتی ہے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
جب انسان میں حیا نہ ہو تو بے حیا بن کر اللہ تعالیٰ سے بغاوت پر اتر آتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6118   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.