الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
20. بَابُ التَّسْلِيمِ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ:
20. باب: ایسی مجلس والوں کو سلام کرنا جس میں مسلمان اور مشرک سب شامل ہوں۔
(20) Chapter. Greeting (how to greet) a mix-up gathering in which there are Muslims and Al-Mushrikun.
حدیث نمبر: 6254
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، قال: اخبرني اسامة بن زيد،" ان النبي صلى الله عليه وسلم ركب حمارا عليه إكاف تحته قطيفة فدكية واردف وراءه اسامة بن زيد وهو يعود سعد بن عبادة في بني الحارث بن الخزرج، وذلك قبل وقعة بدر حتى مر في مجلس فيه اخلاط من المسلمين، والمشركين عبدة الاوثان، واليهود، وفيهم عبد الله بن ابي بن سلول، وفي المجلس عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة، خمر عبد الله بن ابي انفه بردائه، ثم قال: لا تغبروا علينا، فسلم عليهم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم وقف فنزل، فدعاهم إلى الله، وقرا عليهم القرآن، فقال عبد الله بن ابي بن سلول: ايها المرء، لا احسن من هذا إن كان ما تقول حقا، فلا تؤذنا في مجالسنا وارجع إلى رحلك، فمن جاءك منا فاقصص عليه، قال عبد الله بن رواحة: اغشنا في مجالسنا فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون، والمشركون، واليهود حتى هموا ان يتواثبوا، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يخفضهم، ثم ركب دابته حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال: اي سعد، الم تسمع إلى ما قال ابو حباب، يريد عبد الله بن ابي، قال: كذا وكذا، قال: اعف عنه يا رسول الله واصفح، فوالله لقد اعطاك الله الذي اعطاك، ولقد اصطلح اهل هذه البحرة على ان يتوجوه فيعصبونه بالعصابة، فلما رد الله ذلك بالحق الذي اعطاك شرق بذلك، فذلك فعل به ما رايت، فعفا عنه النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ، وَفِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ، فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ، لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ، وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ، ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ: أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ، يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ، فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا لی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا، میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیز حق ہے جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، سعد تم نے نہیں سنا کہ ابوحباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔ سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئیے اور درگزر فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔

Narrated `Urwa-bin Az-Zubair: Usama bin Zaid said, "The Prophet rode over a donkey with a saddle underneath which there was a thick soft Fadakiya velvet sheet. Usama bin Zaid was his companion rider, and he was going to pay a visit to Sa`d bin Ubada (who was sick) at the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which there were Muslims and pagan idolators and Jews, and among them there was `Abdullah bin Ubai bin Salul, and there was `Abdullah bin Rawaha too. When a cloud of dust raised by the animal covered that gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his Rida (sheet) and said (to the Prophet), "Don't cover us with dust." The Prophet greeted them and then stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and also recited to them the Holy Qur'an. `Abdullah bin Ubai' bin Salul said, "O man! There is nothing better than what you say, if what you say is the truth. So do not trouble us in our gatherings. Go back to your mount (or house,) and if anyone of us comes to you, tell (your tales) to him." On that `Abdullah bin Rawaha said, "(O Allah's Apostle!) Come to us and bring it(what you want to say) in our gatherings, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started quarreling till they were about to fight and clash with one another. The Prophet kept on quietening them (till they all became quiet). He then rode his animal, and proceeded till he entered upon Sa`d bin 'Ubada, he said, "O Sa`d, didn't you hear what Abu Habbab said? (He meant `Abdullah bin Ubai). He said so-and-so." Sa`d bin 'Ubada said, "O Allah's Apostle! Excuse and forgive him, for by Allah, Allah has given you what He has given you. The people of this town decided to crown him (as their chief) and make him their king. But when Allah prevented that with the Truth which He had given you, it choked him, and that was what made him behave in the way you saw him behaving." So the Prophet excused him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 271

   صحيح البخاري6254أسامة بن زيدسلم عليهم النبي ثم وقف فنزل فدعاهم إلى الله وقرأ عليهم القرآن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6254  
6254. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی نبی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد غبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ نبی ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔ آپ نے سواری سے اتر کر انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6254]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاں باب کا مضمون واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے وہاں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال دانائی، دوراندیشی، عفو، حلم کی بھی ایک شاندار تفصیل ہے کہ آپ نے ایک انتہائی گستاخ کو دامن عفو میں لے لیا اور عبد اللہ بن ابی جیسے خفیہ دشمن اسلام کی حرکت شنیعہ کو معاف فرما دیا۔
اللہ پاک ایسے پیارے رسول پر ہزارہا ہزار ان گنت درود وسلام نازل فرمائے۔
آمین۔
اس میں آج کے ٹھیکہ داران اسلام کے لئے بھی درس ہے جو ہر وقت شعلہ جوالہ بن کر اپنے علم وفضل کی دھاک بٹھانے کے لئے اخلاق نبوی کا عملا ً مضحکہ اڑاتے رہتے ہیں اور ذراسی خلاف مزاج بات پاکر غیظ وغضب کا مظاہرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔
اکثر مقلدین جامدین کا یہی حال ہے إلا ماشاء اللہ۔
اللہ پاک ان مذہب کے ٹھیکہ داروں کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق بخشے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6254   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6254  
6254. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی نبی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد غبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ نبی ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔ آپ نے سواری سے اتر کر انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6254]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کرکے کمال دانائی اور دور اندیشی کی ایک شاندار روایت برقراررکھی۔
اللہ تعالیٰ آپ پر ان گنت درودوسلام نازل فرمائے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مجلس میں مسلمان اور کافر اکٹھے ہوں تو انھیں سلام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب انسان کسی ایسی مجلس سے گزرے جہاں کافر اور مسلمان دونوں قسم کے لوگ موجود ہوں تو عام الفاظ سے سلام کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی نیت مسلمانوں کو سلام کہنے کی ہو کیونکہ حدیث میں کافر اور اہل کتاب کو ابتداءً سلام کہنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔
(مسند أحمد: 143/4)
اور جوابًا بھی صرف وعلیکم کہنے کا حکم ہے اگرچہ بعض اہل علم نے اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا ہے اور بطور دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلام کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے باپ کو کہا تھا۔
(مریم19: 47)
لیکن یہ سلام شرعی نہیں اور نہ بطور دعا ہی تھا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے ارادے سے کہا تھا۔
(فتح الباري: 48/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6254   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.