الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
14. بَابُ كَمْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ وَمَنْ يَنْتَظِرُ الإِقَامَةَ:
14. باب: اس بیان میں کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟
(14) Chapter. How long should the interval between the Adhan and the Iqama be? (And something concerning) the person who waits for the Iqama.
حدیث نمبر: 624
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق الواسطي، قال: حدثنا خالد، عن الجريري، عن ابن بريدة، عن عبد الله بن مغفل المزني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" بين كل اذانين صلاة ثلاثا لمن شاء".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ ثَلَاثًا لِمَنْ شَاءَ".
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے سعد بن ایاس جریری سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن بریدہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ ہر دو اذانوں (اذان و اقامت) کے درمیان ایک نماز (کا فصل) دوسری نماز سے ہونا چاہیے (تیسری مرتبہ فرمایا کہ) جو شخص ایسا کرنا چاہے۔

Narrated `Abdullah bin Mughaffal Al-Muzani: Allah's Apostle said thrice, "There is a prayer between the two Adhans (Adhan and Iqama)," and added, "For the one who wants to pray."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 597

   صحيح البخاري627عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   صحيح البخاري624عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   صحيح مسلم1940عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   جامع الترمذي185عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   سنن أبي داود1283عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   سنن النسائى الصغرى682عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء
   سنن ابن ماجه1162عبد الله بن مغفلبين كل أذانين صلاة لمن شاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 682  
´اذان اور اقامت کے درمیان سنت (نفل نماز) پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، جو چاہے اس کے لیے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 682]
682 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ثابت ہوا کہ ہر اذان و اقامت کے درمیان نفل نماز کا وقفہ ہونا چاہیے۔ جو پڑھنا چاہے وہ کم از کم دو رکعت پڑھ لے اور یہ مغرب کی اذان و اقامت کے درمیان بھی ہو گا۔
➋ مغرب سے قبل دو رکعتوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیبی حکم کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریر بھی اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے، کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عہد نبوت میں اس پر عمل پیرا تھے، نیز عہد نبوت کے بعد تابعین عظام کے ہاں بھی یہ عمل معمول بہ تھا اور تاحال حاملین کتاب و سنت کے ہاں بتوفیق اللہ بدستور جاری ہے جیسا کہ اس کی تفصیل کتاب المواقیت کے ابتدائیے میں بعنوان نماز مغرب سے قبل، اذان اور اقامت کے درمیان، دو رکعت نماز کا استحباب میں گزر چکی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
➌ جہاں مؤکدہ سنتیں ہیں وہاں تو وقفہ ہے ہی، باقی نمازوں میں بھی مستحب ہے۔ احناف مغرب کی نماز میں وقفے کے قائل نہیں کہ اس سے تاخیر ہو جائے گی، حالانکہ چند منٹ کے وقفے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا جب کہ احناف مغرب کی اذان بسا اوقات پانچ پانچ منٹ تاخیر سے کہتے ہیں، بالخصوص رمضان المبارک میں افطاری کے وقت بعض (بریلوی) حنفی مساجد میں صرف افطاری کے اعلان پر اکتفا کیا جاتا ہے، پھر پانچ سات منٹ بعد، حسب ضرورت کھا پی کر، اذان دی جاتی ہے جو کہ قطعاً سنت کے خلاف عمل ہے، اگر اس احتیاط سے نماز میں تاخیر نہیں ہوتی تو ہلکی سی مسنون دو رکعتوں سے کیسے تاخیر ہو گی۔ سنت پر عمل تو برکت و ثواب کا موجب ہے۔
➍ دو اذانوں سے مراد حقیقی اذانیں نہیں کیونکہ ان کے درمیان تو فرض نمازِ ہوتی ہے اور یہاں «لمن شاء» کے الفاظ ہیں کہ جو پڑھنا چاہے، گویا یہ فرض نماز نہیں، لہٰذا دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 682   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1162  
´مغرب سے پہلے کی دو رکعت سنت کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا: اس کے لیے جو چاہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1162]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعض اوقات اقامت کو بھی اذان کہہ دیا جاتا ہے۔
جمعے کی پہلی اذان کو اسی مفہوم میں تیسری اذان کہا گیا ہے۔
دیکھئے: (حدیث: 1135)
اس حدیث میں بھی اقامت کو اذان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہراذان کے بعد سنتیں پڑھی جایئں گی۔
جیسے ظہر، عصر، عشاء اور فجرسے پہلے اسی طرح مغرب کی اذان کے بعد مغرب کی اذان سے پہلے بھی سنتیں ہیں۔
اور وہ کتنی ہیں؟ صرف دوسنتیں۔
کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔
تاہم یہ غیر مؤکدہ ہیں۔
کیونکہ ان کو نبی کریمﷺ نے پڑھنے والے کی چاہت پر چھوڑ دیا ہے۔

(2)
یہ نماز اذان ختم ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
جیسے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کے لفظ سے ظاہر ہے۔

(3) (لمن شاء)
 سے ظاہر ہے کہ یہ سنت غیر مؤکدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1162   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 185  
´مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو نفلی نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان نماز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 185]
اردو حاشہ:
1؎:
ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے،
یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے،
اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں،
اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہو جائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے،
مشکل سے دو تین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اوّل وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے نماز مؤخرنہیں ہوتی۔
(صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امر کا صیغہ ہے مغرب سے پہلے نماز پڑھو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 185   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1283  
´مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، اس شخص کے لیے جو چاہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1283]
1283۔ اردو حاشیہ:
دو اذانوں سے مراد معروف اذان اور اقامت ہے اور ان دونوں کے مابین جن نوافل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی و تاکید کی اور ترغیب دی ہے، انہیں سنن راتبہ (مؤکدہ) کہتے ہیں اور جن کی پابندی نہیں کی انہیں غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1283   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:624  
624. حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر دو اذانوں (اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے۔ آپ نے تین دفعہ یہ الفاظ کہے، پھر فرمایا: یہ نماز اس شخص کے لیے ہے جو پڑھنا چاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:624]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا ایک اصول ہے کہ بعض اوقات وہ عنوان کے ذریعے سے کسی روایت کی تردید یا تائید کرتے ہیں۔
تائید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث اگرچہ امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہوتے، لیکن مضمون حدیث صحیح ہوتا ہے۔
اس مضمون کو اپنی کسی روایت سے ثابت کرتے ہیں۔
(2)
عنوان مذکورہ کا مطلب بھی ایک حدیث کے مضمون کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ کھانے پینے والا اپنی ضروریات اور بول وبراز والا اپنی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوسکے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 195)
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصوداس کے مضمون کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ہونا چاہیے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے حتی کہ نماز مغرب جس کا وقت محدود ہوتاہے، وہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
اگرچہ ایک حدیث میں مغرب کا استثنا آیا ہے، لیکن حفاظ حدیث کی مخالفت کی وجہ سے یہ اضافہ شاذ ہے۔
اس کے علاوہ راوئ حدیث حضرت بریدہ ؓ خود نماز مغرب سے پہلے دورکعت پڑھتے تھے۔
اگر مذکورہ اضافہ محفوظ ہوتا تو کم از کم حضرت بریدہ ان دو رکعات کو نہ پڑھتے، نیز اس روایت کے ایک راوی حیان بن عبداللہ پر بھی محدثین نے کچھ کلام کیا ہے۔
(فتح الباري: 142/2)
مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 624   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.