الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
The Book of Invocations
48. بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الاِسْتِخَارَةِ:
48. باب: استخارہ کی دعا کا بیان۔
(48) Chapter. The invocation on making Istikharah (an appeal to Allah to guide you on the right path as regards a certain matter).
حدیث نمبر: 6382
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مطرف بن عبد الله ابو مصعب، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الموال، عن محمد بن المنكدر، عن جابر رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الامور كلها، كالسورة من القرآن:" إذا هم بالامر فليركع ركعتين، ثم يقول: اللهم إني استخيرك بعلمك، واستقدرك بقدرتك، واسالك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا اقدر، وتعلم ولا اعلم، وانت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم ان هذا الامر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة امري، او قال في عاجل امري، وآجله، فاقدره لي، وإن كنت تعلم ان هذا الامر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة امري، او قال في عاجل امري، وآجله، فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم رضني به ويسمي حاجته".حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، كَالسُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ:" إِذَا هَمَّ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي، وَآجِلِهِ، فَاقْدُرْهُ لِي، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي، وَآجِلِهِ، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ".
ہم سے ابومصعب مطرف بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، قرآن کی سورت کی طرح (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جب تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح) کام کا ارادہ کرے (ابھی پکا عزم نہ ہوا ہو) تو دو رکعات (نفل) پڑھے اس کے بعد یوں دعا کرے کہ اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں (استخارہ) تیری بھلائی سے، تو علم والا ہے، مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ کہے «في عاجل أمري وآجله» تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے میرے دین کے لیے، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے یا یہ الفاظ فرمائے «في عاجل أمري وآجله» تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے (یہ دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا بیان کر دینا چاہئے۔

Narrated Jabir: The Prophet used to teach us the Istikhara for each and every matter as he used to teach us the Suras from the Holy Qur'an. (He used to say), "If anyone of you intends to do something, he should offer a two-rak`at prayer other than the obligatory prayer, and then say: 'Allahumma inni astakhiruka bi'ilmika, wa astaqdiruka biqudratika, wa as'aluka min fadlika-l-'azim, fa innaka taqdiru wala aqdiru, wa ta'lamu wala a'lamu, wa anta'allamu-l-ghuyub. Allahumma in kunta ta'lamu anna hadha-lamra khairun li fi dini wa ma'ashi wa 'aqibati `Amri (or said, fi 'ajili `Amri wa ajilihi) fa-qdurhu li, Wa in kunta ta'lamu anna ha-dha-l-amra sharrun li fi dini wa ma'ashi wa 'aqibati `Amri (or said, fi ajili `Amri wa ajilihi) fasrifhu 'anni was-rifni 'anhu wa aqdur li alkhaira haithu kana, thumma Raddani bihi," Then he should mention his matter (need).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 75, Number 391

   صحيح البخاري7390جابر بن عبد اللهيعلم أصحابه الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمهم السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم فإن كنت تعلم هذا
   صحيح البخاري6382جابر بن عبد اللهإذا هم بالأمر فليركع ركعتين ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري وآجله فاقدره لي وإن ك
   صحيح البخاري1162جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآج
   جامع الترمذي480جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن أبي داود1538جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة وليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر يسميه بعينه الذي يريد خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقب
   سنن النسائى الصغرى3255جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن ابن ماجه1383جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر فيسميه ما كان من شيء خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1383  
´نماز استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استخارے کا مطلب اللہ سے خیر اور بہتری کی درخواست ہے۔
جب کسی کام کا ارادہ ہوتو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلینا بہتر ہے۔
کہ اگر اس کا انجام میرے لئے بہتر ہے تو یہ خیریت سے مکمل ہو ورنہ جوکچھ میرے لئے بہتر ہو وہ حاصل ہوجائے۔

(2)
استخارے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی جائے۔
اس کے علاوہ جو مختلف قسم کے استخارے مشہور ہیں۔
وہ سب غیر مسنون ہیں۔

(3)
استخارے کے بعد خواب آنا شرط نہیں بلکہ کام کا انتظام کرنا چاہیے۔
اگر بہتر ہوگا تو خیریت سے مکمل ہوجائےگا۔
ورنہ کوئی رکاوٹ آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اس انداز سے مکمل ہونا میرے حق میں بہتر نہیں۔
اسی طرح اگر استخارے کے بعد اس کام پر دل مطمئن ہوجائے۔
تو وہ کام کرلیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔

(4)
دعا میں ھٰذَ الأَمْر کی جگہ مطلوبہ کام کا نام لیناچاہیے۔
مثلاً ھٰذاَ النِّکَاح (یہ نکاح)
ھذ السفر (یہ سفر)
ھذہ التجارۃ (یہ تجارت وغیرہ یا ھٰذَ الأَمْر امر کہتے وقت دل میں اس کاتصور کرلیا جائے۔

(5)
  مجھے اس سے پھیر دے کامطلب یہ ہے کہ میں وہ کام نہ کروں اور دل میں بھی یہ خیال نہ رہے کہ کاش یوں کرلیتا تو بہتر ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1383   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 480  
´صلاۃ استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 480]
اردو حاشہ:
1؎:
استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں،
چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعائے استخارہ کہا جاتا ہے،
اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے،
استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے،
فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہاتِ شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے،
ان میں استخارہ نہیں ہے۔

2؎:
یعنی:
لفظ ((هَذَا الْأَمْرَ)) یہ کام کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔
اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے،
ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اُسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے،
یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے،
استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک،
تین پانچ یا سات بار کیا جائے،
دل کا اطمینان،
مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اُسے آدمی اختیار کر لے،
خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے،
عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں،
کہیں پر ممانعت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1538  
´استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے اور یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولاأقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر ۱؎ خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه اللهم وإن كنت تعلمه شرا لي فاصرفني عنه واصرفه عني واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به» اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے وسیلے سے خیر طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیری قدرت کے وسیلے سے قوت طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیرے بڑے فضل میں سے کچھ کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے مجھ کو قدرت نہیں۔ تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ یا یہ کام ۱؎ میرے واسطے دین و دنیا، آخرت اور انجام کار کے لیے بہتر ہے تو اسے میرا مقدر بنا دے اور اسے میرے لیے آسان بنا دے اور میرے لیے اس میں برکت عطا کر، اے اللہ! اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے دین، دنیا، آخرت اور انجام میں برا ہے تو مجھ کو اس سے پھیر دے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو، اسے میرے لیے مقدر کر دے، پھر مجھے اس پر راضی فرما۔‏‏‏‏ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ کی روایت میں «عن محمد بن المنكدر عن جابر» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1538]
1538. اردو حاشیہ:
➊ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس [خیر]
کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔ اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔ جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔ فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔ مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔ یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔
➋ استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔ یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔ تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔ اللہ اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔ یہ بے معنی سی بات ہے۔ صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔ شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔
➌ اس دعا میں ھذا الأمر۔۔۔ کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔ مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الأمر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔ جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1538   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6382  
6382. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔۔۔۔۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6382]
حدیث حاشیہ:
جب کسی شخص کو ایک کام کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو یا دو باتوں یا دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے میں تو باب کی حدیث کے موافق استخارہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اس پر خواب میں یا اور کسی طرح جو اس کے حق میں بہتر ہوگا اس پر کھول دے گا یا اسی کی توفیق دے گا۔
بس جو استخارہ بہ سند صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے وہ یہی ہے۔
باقی استخارے جو شیعہ امامیہ کیا کرتے ہیں۔
مثلاً تسبیح پر یا استخارہ ذات الرقاع ان کی اصل حدیث کی کتابوں میں نہیں ملتی۔
استخارہ کرنا گویا اللہ سے طلب خیر کرنا اورمشورہ طلب کرنا ہے۔
قدرت کے اشارے ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر اہل ایما ن صاحبان فراست اللہ کے اشاروں کو سمجھ کر ان کے مطابق قدم اٹھا تے ہیں۔
اس مقصد کے لئے دعا ئے مسنونہ جو یہاں مرقوم ہے بہترین دعا ہے اور بکثرت یوں پڑھنا اللهم خیِّر لي و اختَر لي بھی استخارہ، کے لئے بہترین عمل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6382   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6382  
6382. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔۔۔۔۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6382]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس دعا میں ''هذا الأمر'' کے بعد درپیش ضرورت کا نام لے، مثلاً:
''هذا الأمر من السفر، هذا الأمر من التجارة، هذا الأمر من الزواج'' وغیرہ۔
استخارے کی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھی جا سکتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو صاف کر لے، یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا طالب ہو اور پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی گزارشات پیش کرے۔
استخارہ کے آداب حسب ذیل ہیں:
٭ ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے، اپنے کپڑے، بدن اور جگہ کو پاک و صاف رکھا جائے۔
٭ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے سود ہے، نیت صرف دل سے ہو گی۔
٭ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ میں اپنے رب سے بھلائی کا طالب ہوں، لہذا پوری یکسوئی اور توجہ سے استخارہ کرے۔
٭ اگر کسی گناہ کا عادی ہے تو اسے فوراً ترک کرے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، پھر درپیش مسئلہ کے متعلق استخارہ کرے۔
٭ استخارہ ایک دعا ہے، اس لیے دعا کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھا جائے۔
درود کے وہی الفاظ ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے۔
٭ رزق حلال کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔
حرام روزی کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی تو استخارہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا یقین کامل رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، جو کام اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اس میں ہی دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔
٭ استخارہ کے بعد وہ باوضو ہو کر قبلہ رخ لیٹ جائے بشرطیکہ استخارہ سونے سے پہلے کیا ہو اگرچہ نیند کے ساتھ استخارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(2)
استخارہ کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے:
٭ جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو فوراً استخارہ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔
٭ نماز کے وضو کی طرح مکمل وضو کرے۔
٭ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل ادا کرے۔
٭ نماز سے فراغت کے بعد استخارہ کی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اس لیے انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارے کا اہتمام کر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے کہ تین بار اس کا اہتمام کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4649 (1794) (3)
درج ذیل امور میں استخارہ مشروع نہیں ہے:
(ا)
جن امور پر عمل واجب ہے، مثلاً:
نماز، روزہ وغیرہ ان کی بجا آوری کے لیے استخارہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پر عمل کرنا استخارہ کرنے کے بغیر ہی واجب ہے۔
(ب)
جن امور پر عمل جائز نہیں، مثلاً:
جوا اور شراب نوشی وغیرہ، ان میں بھی استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان سے دور رہنا انسان کی ذمے داری ہے۔
اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔
(ج)
جو امور شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہیں، مثلاً:
تہجد اور تلاوت قرآن وغیرہ ایسے امور میں استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تعمیل اور بجا آوری کو شریعت پہلے ہی پسند کر چکی ہے۔
(د)
وہ امور جو شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں، ان کا ارتکاب شارع علیہ السلام نے اچھا خیال نہیں کیا، ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں۔
(ہ)
وہ امور جن کا تعلق گزشتہ واقعات سے ہے، مثلاً:
چور کو تلاش کرنا، اس کے لیے استخارے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ استخارہ آئندہ پیش آمدہ ضروریات کے متعلق کیا جاتا ہے۔
صرف ان جائز امور میں استخارہ کیا جا سکتا ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس کام کو اختیار کروں، ان میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے یا کسی جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اگر اس کے لیے فائدہ مند ہے تو کرے اور اگر بے فائدہ ہے تو اسے نظر انداز کر دے۔
(4)
انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین مرحلہ ہے۔
انسان کو اپنی شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے۔
اگر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو تو زندگی آرام اور سکون سے گزرتی ہے بصورت دیگر دنیا میں ہی سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے سلسلے میں ہم اس معیار کو برقرار نہیں رکھتے جسے شریعت نے پسند کیا ہے۔
مال و دولت اور حسب و نسب کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔
شریعت کی نظر میں اس قسم کے غیر معیاری رشتوں کے لیے استخارے کا سہارا لینا کسی صورت میں جائز نہیں۔
شادی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے استخارے کے متعلق فرمایا:
تم بہترین طریقے سے وضو کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو نماز مقدر کی ہے اسے ادا کرو، پھر اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھو:
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ أَنْتَ عَلَّامُ [ص: 567] الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةَ، تُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا، خَيْرًا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، فَاقْضِ لِي بِهَا " أَوْ قَالَ:
«فَاقْدِرْهَا لِي»)
(مسند أحمد: 423/5)
اے اللہ! تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔
تو پوشیدہ معاملات کو خوب جاننے والا ہے، اگر فلاں عورت (اس کا نام لے)
کے متعلق جانتا ہے کہ وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین و دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا کہا:
اسے میرے مقدر میں کر دے۔
(5)
اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے کسی رشتے کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں لیکن استخارے سے پہلے شرعی معیار کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
(6)
ہمارے ہاں غیر شرعی استخارے کی کئی صورتیں رائج ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ استخارہ سنٹر:
کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔
یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان، عزت و آبرو اور مال و دولت پر شب خون مارتے ہیں۔
ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔
سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ کی فیس قدرے زیادہ ہے۔
اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے کہ میرا فلاں کام ہوگا یا نہیں۔
یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتا ہے۔
یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک مثال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملے میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، مثلاً:
کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں، اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر و برکت طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔
بہرحال دور حاضر میں جو استخارہ سنٹر جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔
واللہ أعلم۔
٭ تسبیح اور استخارہ:
کچھ لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں۔
جو بات آخری دانے کے مطابق ہو، اس پر عمل کرنا استخارہ کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
٭ قرآن کریم اور استخارہ:
کچھ لوگ قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں پھر اس کے مفہوم سے خود ساختہ نتائج کشید کرتے ہیں۔
یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شرعی ہے۔
٭ تیر اور استخارہ:
بعض لوگ تیر پھینک کر استخارہ کرتے ہیں۔
اس کے دائیں یا بائیں گرنے سے نتیجہ اخذ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہ طریقہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔
(7)
ہمارے ہاں استخارے کے متعلق ایک زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارے کا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔
یہ نظریہ بھی صحیح نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔
اصل بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل مطمئن کر دیتا ہے، خواہ وہ خواب کی صورت میں ہو یا دلی تسلی کی شکل میں ہو۔
اگر استخارہ کرنے کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔
(8)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے استخارہ کرنے کے متعلق درج ذیل بنیادی اور اہم حقائق معلوم ہوتے ہیں:
٭ استخارہ ایک دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنی سورتوں کی طرح سکھائی تاکہ وہ اپنے معاملات کے بہتر انجام کے لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا شخص موحد، متبع سنت، مخلص اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ کبائر کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو اور صغائر پر اصرار کا عادی بھی نہ ہو۔
٭ استخارے کی دعا کرنے سے پہلے وہ دو رکعت نفل ادا کرے، پھر سنت کے مطابق مذکورہ دعا پڑھے۔
٭ استخارے کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استخارہ کرنے والے کو خود یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
استخارے کی دعا مانگنے سے پہلے اس دعا کو اچھی طرح یاد کرنا چاہیے اور اس کے معانی و مطالب کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
٭ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کی طرف سے استخارہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فریق ثانی کو کوئی مجبوری اور تکلیف نہیں، پھر وہ استخارے کا عمل کیوں کرے۔
٭ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے انسان کو شعبدہ بازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
٭ اہل علم حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔
(9)
آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی، شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتا دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں، پھر استخارے کے ذریعے سے ان کی بگڑی بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں، ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔
اس غیر شرعی پیشے سے اظہار بےزاری کرنا ایک غیرت مند مسلمان کا اولین فرض ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6382   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.