وكره ابن سيرين ان يقول فاتتنا الصلاة ولكن ليقل لم ندرك. وقول النبي صلى الله عليه وسلم اصح.وَكَرِهَ ابْنُ سِيرِينَ أَنْ يَقُولَ فَاتَتْنَا الصَّلاَةُ وَلَكِنْ لِيَقُلْ لَمْ نُدْرِكْ. وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ.
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ کوئی کہے کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم نماز نہ پا سکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی زیادہ صحیح ہے۔
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا شيبان، عن يحيى، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، قال: بينما نحن نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ سمع جلبة رجال، فلما صلى، قال: ما شانكم؟، قالوا: استعجلنا إلى الصلاة، قال:" فلا تفعلوا، إذا اتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة، فما ادركتم فصلوا، وما فاتكم فاتموا".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ جَلَبَةَ رِجَالٍ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟، قَالُوا: اسْتَعْجَلْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلُوا، إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، فما أدركْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سنی۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا قصہ ہے لوگوں نے کہا کہ ہم نماز کے لیے جلدی کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، نماز کا جو حصہ پاؤ اسے پڑھو اور اور جو رہ جائے اسے (بعد) میں پورا کر لو۔
Narrated `Abdullah bin Abi Qatada: My father said, "While we were praying with the Prophet he heard the noise of some people. After the prayer he said, 'What is the matter?' They replied 'We were hurrying for the prayer.' He said, 'Do not make haste for the prayer, and whenever you come for the prayer, you should come with calmness, and pray whatever you get (with the people) and complete the rest which you have missed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 608
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 635
635. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے لوگوں کا کچھ شوروغل سنا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم نے نماز میں شمولیت کے لیے بہت جلدی کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”آئندہ ایسا نہ کرنا بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، پھر جس قدر نماز ملے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:635]
حدیث حاشیہ: حدیث کے لفظ ومافاتکم سے حضرت امام ؒ نے باب کو ثابت فرمایاہے اورگفتگو کا سلیقہ سکھلایا ہے کہ یوں کہنا چاہئیے کہ نماز کا جو حصہ تم پا سکو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے بعد میں پورا کر لو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 635
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:635
635. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے لوگوں کا کچھ شوروغل سنا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم نے نماز میں شمولیت کے لیے بہت جلدی کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”آئندہ ایسا نہ کرنا بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، پھر جس قدر نماز ملے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:635]
حدیث حاشیہ: (1) مؤذن کی دعوت پر لبیك کہتے ہوئے ممکن ہے کہ نماز مکمل یا جزوی طور پر رہ جائے، اس لیے اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ اپنی کوتاہی کو کن الفاظ سے بیان کیا جائے؟ ایسے حالات میں نماز کے لیے آنے کا کیا انداز ہو؟ نماز رہ جانے کی صورت میں اسے کس طرح پڑھا جائے؟ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ اس سلسلے میں پہلا ادب یہ ہے کہ اپنی کوتاہی کو بیان کرتے ہوئے اگر کہہ دیا جائے کہ ہماری نماز رہ گئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اسلوب اختیار کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی، چنانچہ اس حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے”رہ جانے“ کی نسبت نماز کی طرف فرمائی ہے، بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ایک مرتبہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نیند کی وجہ سے نماز بروقت نہ پڑھ سکے تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ہم سے نماز رہ گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کے استعمال پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ انھیں برقرار رکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔ (فتح الباري: 153/2)(2) واضح رہے کہ امام ابن سیرین ؒ کی ناپسندیدگی کا تعلق تہذیب الفاظ سے ہے، اظہار مدعا سے نہیں جیسا کہ شریعت نے عتمہ کا لفظ نماز عشاء پر اور یثرب کا لفظ مدینہ طیبہ پر ناپسند فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 635