الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
2. بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ:
2. باب: اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔
(2) Chapter. Whoever is asked about knowledge while he is busy in some conversation, so he finished his talk, and then answered the questioner.
حدیث نمبر: Q59
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله تعالى: {يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات والله بما تعملون خبير}. وقوله عز وجل: {رب زدني علما}.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ}. وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا}.
‏‏‏‏ جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ طہٰ میں) فرمایا (کہ یوں دعا کیا کرو) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q59  
´فضیلت علم`
«. . . يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ . . .»
. . . جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: Q59]

تشریح:
حضرت امام قدس سرہ نے فضیلت علم کے بارے میں قرآن مجید کی ان دو آیات ہی کو کافی سمجھا، اس لیے کہ پہلی آیت میں اللہ پاک نے خود اہل علم کے لیے بلند درجات کی بشارت دی ہے اور دوسری میں علمی ترقی کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کی گئی۔ نیز پہلی آیت میں ایمان و علم کا رابطہ مذکور ہے اور ایمان کو علم پر مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں حضرت امام قدس سرہ کے حسن ترتیب بیان پر بھی ایک لطیف اشارہ ہے کیونکہ آپ نے بھی پہلے کتاب الایمان پھر کتاب العلم کا انعقاد فرمایا ہے۔ آیت میں ایمان اور علم ہر دو کو ترقی درجات کے لیے ضروری قرار دیا۔ درجات جمع سالم اور نکرہ ہونے کی وجہ سے غیر معین ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان درجات کی کوئی حد نہیں و اہل علم کو حاصل ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 59   

حدیث نمبر: 59
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن سنان، قال: حدثنا فليح. ح وحدثني إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا محمد بن فليح، قال: حدثني ابي، قال: حدثني هلال بن علي، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، قال:" بينما النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس يحدث القوم جاءه اعرابي، فقال: متى الساعة؟ فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث، فقال بعض القوم: سمع ما قال، فكره ما قال، وقال بعضهم: بل لم يسمع، حتى إذا قضى حديثه، قال: اين اراه السائل عن الساعة؟ قال: ها انا يا رسول الله، قال: فإذا ضيعت الامانة فانتظر الساعة، قال: كيف إضاعتها؟ قال: إذا وسد الامر إلى غير اهله فانتظر الساعة".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ. ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ، فَكَرِهَ مَا قَالَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، قَالَ: أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ (فليح بن سليمان الأسلمي) نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

Narrated Abu Huraira: While the Prophet was saying something in a gathering, a Bedouin came and asked him, "When would the Hour (Doomsday) take place?" Allah's Apostle continued his talk, so some people said that Allah's Apostle had heard the question, but did not like what that Bedouin had asked. Some of them said that Allah's Apostle had not heard it. When the Prophet finished his speech, he said, "Where is the questioner, who inquired about the Hour (Doomsday)?" The Bedouin said, "I am here, O Allah's Apostle ." Then the Prophet said, "When honesty is lost, then wait for the Hour (Doomsday)." The Bedouin said, "How will that be lost?" The Prophet said, "When the power or authority comes in the hands of unfit persons, then wait for the Hour (Doomsday.)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 56

   صحيح البخاري6496عبد الرحمن بن صخرإذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة إذا أسند الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة
   صحيح البخاري59عبد الرحمن بن صخرإذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة إذا وسد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 59  
´جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس (ادب کا تقاضا ہے کہ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: سَمِعَ مَا قَالَ، فَكَرِهَ مَا قَالَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، قَالَ: أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟ قَالَ: هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا؟ قَالَ: إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ " . . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ:: 59]

تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری باتوں میں مشغول تھے، اس لیے اس کا جواب بعد میں دیا۔ یہیں سے حضرت امام کا مقصود باب ثابت ہوا اور ظاہر ہوا کہ علمی آداب میں یہ ضروری ادب ہے کہ شاگرد موقع محل دیکھ کر استاد سے بات کریں۔ کوئی اور شخص بات کر رہا ہو تو جب تک وہ فارغ نہ ہو درمیان میں دخل اندازی نہ کریں۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وانما لم يجبه عليه الصلوهٰ والسلام لانه يحتمل ان يكون لانتظار الوحي اويكون مشغولا بجواب سائل اخر و يوخذ منه انه ينبغي للعالم والقاضي ونحوهما رعاية تقدم الاسبق.» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید وحی کے انتظار میں اس کو جواب نہ دیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے سائل کے جواب میں مصروف تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عالم اور قاضی صاحبان کو پہلے آنے والوں کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 59   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:59  
59. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک مرتبہ نبی ﷺ مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ﷺ (اسے کوئی جواب دیے بغیر) اپنی باتوں میں مصروف رہے۔ (حاضرین میں سے) کچھ لوگ کہنے لگے: آپ نے دیہاتی کی بات کو سن تو لیا ہے لیکن اسے پسند نہیں فرمایا۔ اور بعض کہنے لگے: ایسا نہیں ہے بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں۔ جب آپ اپنی گفتگو ختم کر چکے تو فرمایا: قیامت کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ دیہاتی نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ اس نے دریافت کیا: امانت کس طرح ضائع ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جب (ذمے داری کے) کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:59]
حدیث حاشیہ:

پہلے باب میں علم کے متعلق طلب زیادت کا حکم تھا، اس باب میں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا علم نہ ہو، اس کے متعلق اہل علم سے دریافت کر لینا چاہیے نیز اس حدیث میں معلم کے کچھ آداب ہیں:
(1)
اسے طلباء کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
(2)
کسی ضرورت و مصلحت کے پیش نظر اسے کسی سوال کے جواب کو مؤخر کرنے کی اجازت ہے۔
اسی طرح کچھ آداب طالب علم سے متعلق ہیں۔
(3)
اگر استاد کسی سے گفتگو میں مصروف ہو تو خواہ مخواہ اس میں دخل انداز نہ ہو۔
(4)
اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کے متعلق استفسار کرنے کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 1؍288)

ہنگامی قسم کے سوالات کے متعلق اصل بات یہ ہے کہ سوال کی نوعیت سائل اور مفتی کے حالات پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
اگر کوئی ہنگامی سوال عقیدے کے متعلق ہےتو خطبہ چھوڑ کر بھی اس کا جواب دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے دین کے متعلق سوال کیا تو آپ نے خطبہ چھوڑکر اسے جواب دیا۔
(صحيح مسلم، الجمعة: 2025۔
(876)

ضروریات زندگی سے متعلق اہم سوالات کرنے چاہئیں، ان کا جواب بھی پہلے دینا چاہیے، جن سوالات کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے نہیں ہے ان سے صرف نظر کرنا عین مصلحت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
تو نے اس کے متعلق کیا تیاری کی ہے؟ یعنی سوال اس کی تیاری کے متعلق کرنا چاہیے تھا۔
(صحيح البخاري، الأدب، حدیث: 6171)

اگر مفتی مصروف ہو اور کوئی جلد باز دوران مصروفیت میں سوال کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسی وقت جواب دیا جائے بلکہ اپنی مصروفیات سے فراغت کے بعد اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
یہ کتمان علم نہیں جس پر قرآن میں وعید آئی ہے۔

حدیث میںامرسے مراد دینی معاملات ہیں جیسے خلافت قضا اور افتا وغیرہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی ضروریات کے لیے علمی لحاظ سے مضبوطی کے لیے علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
علماء حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ طالبان حق کی تسلی کرائیں۔
حدیث میں ہے کہ قیامت سے پہلے علم کی تلاش جاہلوں کے ہاں کی جائے گی۔
جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو قیامت قریب ہوگی۔
(فتح الباري: 1؍189)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 59   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.