الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
3. بَابُ مَنْ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْعِلْمِ:
3. باب: اس کے بارے میں جس نے علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا۔
(3) Chapter. Whoever raises his voice in (conveying) knowledge.
حدیث نمبر: 60
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو النعمان عارم بن الفضل، قال: حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن عبد الله بن عمرو، قال: تخلف عنا النبي صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرناها، فادركنا وقد ارهقتنا الصلاة ونحن نتوضا، فجعلنا نمسح على ارجلنا، فنادى باعلى صوته:" ويل للاعقاب من النار مرتين او ثلاثا".حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے یوسف بن ماہک سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انہوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب (عصر کی) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ (یہ حال دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ہی بلند آواز سے) فرمایا۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: Once the Prophet remained behind us in a journey. He joined us while we were performing ablution for the prayer which was over-due. We were just passing wet hands over our feet (and not washing them properly) so the Prophet addressed us in a loud voice and said twice or thrice: "Save your heels from the fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 57

   صحيح البخاري96عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح البخاري60عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح البخاري163عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح مسلم570عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   صحيح مسلم572عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار
   سنن أبي داود97عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   سنن النسائى الصغرى111عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   سنن ابن ماجه451عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 97  
´وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہئیے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 97]
فوائد و مسائل:
معلوم ہوا کہ وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہیے، ورنہ مذکورہ وعید ثابت اور لاگو ہو گی۔ ایڑیوں کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ آدمی جلدی میں ہو اور ان کا خیال نہ کرے تو یہ خشک رہ جاتی ہیں، خاص طور پر ٹخنوں کے پیچھے کی گہری جگہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 97   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 60  
´علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنا`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 60]

تشریح:
بلند آواز سے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں «ليس بصخاب» آیا ہے کہ آپ شور و غل کرنے والے نہ تھے مگر یہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کر کے بتلا دیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرما دیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہو جایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 60   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 96  
´محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کر سکتا ہے`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 96]

تشریح:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے تو آپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے تو تیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہو جاتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 96   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 111  
´وضو میں دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا، تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں (خشک ہونے کی وجہ سے) چمک رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو میں ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی تباہی ہے، وضو کامل طریقہ سے کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 111]
111۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ احادیث لا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کا حکم ہوتا اور اسے دھونا واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید نہ سناتے۔ جب صرف ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پورا پاؤں نہ دھونا اور صرف مسح پر اکتفا کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، البتہ وضو کرنے کے بعد پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 182، و صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 274، و جامع الترمذي، الطهارة، حديث: 99]
«وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ……… الخ» بددعا بھی ہو سکتی ہے اور خبر بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 111   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:60  
60. حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک سفر میں نبیﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ پھر آپ ہمیں اس حالت میں ملے کہ ہم سے نماز میں دیر ہو گئی تھی اور ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پاؤں (خوب دھونے کی بجائے ان) پر مسح کی طرح تر ہاتھ پھیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: دوزخ میں جانے والی ایڑیوں پر افسوس! [صحيح بخاري، حديث نمبر:60]
حدیث حاشیہ:

پہلے باب میں سوال کرنے کا طریقہ تھا، اس باب میں جواب دینے کا طریقہ بتایا ہے کہ ازالہ غفلت یا کسی اورمصلحت کے پیش نظر جواب دیتے وقت اپنی آواز کو اونچا کرنا مستحسن ہے۔
احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ایک صفت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ آپ شوروغل نہ فرماتےتھے کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز کا بلند کرنا پیغمبرانہ وقار کے منافی اورآپ کی علمی شان کے بھی خلاف ہے۔
شاید کوئی تعلیم دیتے وقت ضرورت پڑنے پر آواز بلند کرنا قابل اعتراض خیال کرتا ہو، حدیث سے اس خیال کی تردید مقصود ہے کہ اس میں کچھ اندیشہ نہیں، البتہ تکبر یا بے پروائی کی وجہ سے رفع صوت ہو تو قابل مذمت ہے۔
ضرورت کے مواقع حسب ذیل ہیں۔
(الف)
۔
سننے والا دور ہے۔
(ب)
۔
مجمع کثیر ہے۔
(ج)
۔
مضمون کی اہمیت کا تقاضا ایساہے۔
(د)
۔
کسی طالب کو ڈانٹنے کے لیے یہ انداز اختیار کیاجاسکتا ہے۔
(ھ)
۔
حدیث میں ہے کہ جب آپ خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں، آواز بلند ہوجاتی اور آپ کاغصہ تیز ہوجاتا۔
(صحيح مسلم، الجمعة، حدیث 2005(867)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے رمز شناس یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں احادیث لکھتے وقت بڑی محنت اٹھائی ہے، ان کی جمع و تدوین اور حسن ترتیب میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
(فتح الباري: 190/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد لوگوں کوآگاہ کرنا تھا کہ جلدی میں وضو کرتے وقت اپنی ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں جیسا کہ عام طور پر جلدی میں پاؤں کا کچھ حصہ خشک رہ جاتاہے۔
یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائے گی، نیز "أعقاب" سے مراد صاحب اعقاب ہیں۔
یعنی وضو کرتے وقت جن کی ایڑیاں خشک رہیں گی، انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 60   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.