الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
The Book of Al-Maharbeen
26. بَابُ مَنْ أَصَابَ ذَنْبًا دُونَ الْحَدِّ فَأَخْبَرَ الإِمَامَ فَلاَ عُقُوبَةَ عَلَيْهِ بَعْدَ التَّوْبَةِ إِذَا جَاءَ مُسْتَفْتِيًا:
26. باب: جس نے کوئی ایسا گناہ کیا جس پر حد نہیں (مثلاً اجنبی عورت کو بوسہ دیا یا اس سے مساس کیا)۔
(26) Chapter. If somebody commits a sin which is less than what deserve the legal punishment; and then informs the ruler, no punishment is to be inflicted on him after his repentance to Allah if he comes to the ruler with the intention of asking for a verdict about his sin.
حدیث نمبر: 6822
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
وقال الليث: عن عمرو بن الحارث، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن محمد بن جعفر بن الزبير، عن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن عائشة:" اتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، قال: احترقت، قال: مم ذاك؟ قال: وقعت بامراتي في رمضان، قال: له تصدق؟ قال: ما عندي شيء، فجلس واتاه إنسان يسوق حمارا، ومعه طعام، قال: عبد الرحمن، ما ادري ما هو إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اين المحترق؟ فقال: ها انا ذا، قال: خذ هذا فتصدق به، قال: على احوج مني؟ ما لاهلي طعام، قال:، فكلوه"، قال ابو عبد الله: الحديث الاول ابين، قوله:" اطعم اهلك".وَقَالَ اللَّيْثُ: عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ:" أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: احْتَرَقْتُ، قَالَ: مِمَّ ذَاكَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: لَهُ تَصَدَّقْ؟ قَالَ: مَا عِنْدِي شَيْءٌ، فَجَلَسَ وَأَتَاهُ إِنْسَانٌ يَسُوقُ حِمَارًا، وَمَعَهُ طَعَامٌ، قَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ، مَا أَدْرِي مَا هُوَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ؟ فَقَالَ: هَا أَنَا ذَا، قَالَ: خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ، قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنِّي؟ مَا لِأَهْلِي طَعَامٌ، قَالَ:، فَكُلُوهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَبْيَنُ، قَوْلُهُ:" أَطْعِمْ أَهْلَكَ".
اور لیث نے بیان کیا، ان سے عمرو بن الحارث نے، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے، ان سے محمد بن جعفر بن زبیر نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آئے اور عرض کیا میں تو دوزخ کا مستحق ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ پھر صدقہ کر۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور اس کے بعد ایک صاحب گدھا ہانکتے لائے جس پر کھانے کی چیز رکھی تھی۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ (دوسری روایت میں یوں ہے کہ کھجور لدی ہوئی تھی) اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جا رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آگ میں جلنے والے صاحب کہاں ہیں؟ وہ صاحب بولے کہ میں حاضر ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں؟ میرے گھر والوں کے لیے تو خود کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ہی کھا لو۔ عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ پہلی حدیث زیادہ واضح ہے جس میں «أطعم أهلك» کے الفاظ ہیں۔

Narrated 'Aisha: A man came to the Prophet in the mosque and said, "I am burnt (ruined)!" The Prophet asked him, "With what (what have you done)?" He said, "I have had sexual relation with my wife in the month of Ramadan (while fasting)." The Prophet said to him, "Give in charity." He said, "I have nothing." The man sat down, and in the meantime there came a person driving a donkey carrying food to the Prophet ..... (The sub-narrator, 'Abdur Rahman added: I do not know what kind of food it was). On that the Prophet said, "Where is the burnt person?" The man said, "Here I am." The Prophet said to him, "Take this (food) and give it in charity (to someone)." The man said, "To a poorer person than l? My family has nothing to eat." Then the Prophet said to him, "Then eat it yourselves."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 811

   صحيح البخاري6822وقعت بامرأتي في رمضان قال له تصدق قال ما عندي شيء فجلس وأتاه إنسان يسوق حمارا ومعه طعام قال عبد الرحمن ما أدري ما هو إلى النبي فقال أين المحترق فقال ها أنا ذا قال خذ هذا فتصدق به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6822  
6822. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد نبوی میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں تو جل بھن گیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں نے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (اس کو تلافی کے لیے) صدقہ کر۔ اس نے کہا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ وہ بیٹھ گیا۔ اس دوران میں ایک آدمی اپنا گدھا ہانکتا ہوا آیا اس کے پاس غلہ تھا۔ راوی حدیث عبدالرحمن نے کہا: مجھے معلوم نہیں اس پر کون سا غلہ تھا۔۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: جلنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا: میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ میرے اہل وعیال کے پاس کھانا نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چلو تم ہی کھا لو۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: پہلی حدیث (حدیث ابو ہریرہ) زیادہ واضح ہے اس میں ہے: اپنے اہل و عیال کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6822]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6822   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6822  
6822. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد نبوی میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں تو جل بھن گیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں نے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (اس کو تلافی کے لیے) صدقہ کر۔ اس نے کہا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ وہ بیٹھ گیا۔ اس دوران میں ایک آدمی اپنا گدھا ہانکتا ہوا آیا اس کے پاس غلہ تھا۔ راوی حدیث عبدالرحمن نے کہا: مجھے معلوم نہیں اس پر کون سا غلہ تھا۔۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: جلنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا: میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ میرے اہل وعیال کے پاس کھانا نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چلو تم ہی کھا لو۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: پہلی حدیث (حدیث ابو ہریرہ) زیادہ واضح ہے اس میں ہے: اپنے اہل و عیال کو کھلا دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6822]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں بحالت روزہ اپنی بیوی سے جماع کیا تھا۔
ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ماہ صیام کی بے حرمتی ہے لیکن اس پر کوئی حد لازم نہیں ہوتی بلکہ اس گناہ کی تلافی کے لیے کفارہ دینا ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفارہ ادا کرنے کے متعلق کہا، اس کے علاوہ اسے مزید کوئی سزا نہیں دی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واقعہ دو صحابہ سے بیان کیا ہے۔
پہلی حدیث میں زیادہ وضاحت ہے اگرچہ پیش کردہ حدیث میں وہ الفاظ نہیں ہیں جس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مدعا ثابت ہو سکے، تاہم ایک دوسری روایت میں ہے کہ تم یہ کھانا اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1936)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6822   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.