الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
26. بَابُ الْعُرَفَاءِ لِلنَّاسِ:
26. باب: لوگوں کے چودھری یا نقیب بنانا۔
(26) Chapter. The Urafa appointed to look after the people’s affairs.
حدیث نمبر: 7177
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، حدثني إسماعيل بن إبراهيم، عن عمه موسى بن عقبة، قال ابن شهاب: حدثني عروة بن الزبير، انمروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال حين اذن لهم المسلمون في عتق سبي هوازن:" إني لا ادري من اذن منكم ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، فرجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه ان الناس قد طيبوا واذنوا".حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّمَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حِينَ أَذِنَ لَهُمُ الْمُسْلِمُونَ فِي عِتْقِ سَبْيِ هَوَازِنَ:" إِنِّي لَا أَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جب مسلمانوں نے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اجازت دی تو فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ پس واپس جاؤ اور تمہارا معاملہ ہمارے پاس تمہارے نقیب یا چودھری اور تمہارے سردار لائیں۔ چنانچہ لوگ واپس چلے گئے اور ان کے ذمہ داروں نے ان سے بات کی اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر اطلاع دی کہ لوگوں نے دلی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama told him that when the Muslims were permitted to set free the captives of Hawazin, Allah's Apostle said, "I do not know who amongst you has agreed (to it) and who has not. Go back so that your 'Urafa' may submit your decision to us." So the people returned and their 'Urafa' talked to them and then came back to Allah's Apostle and told him that the people had given their consent happily and permitted (their captives to be freed).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 288

   صحيح البخاري7177مسور بن مخرمةلا أدري من أذن منكم ممن لم يأذن فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم أمركم فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم فرجعوا إلى رسول الله فأخبروه أن الناس قد طيبوا وأذنوا
   صحيح البخاري2308مسور بن مخرمةلا ندري من أذن منكم في ذلك ممن لم يأذن فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم أمركم فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم ثم رجعوا إلى رسول الله فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7177  
7177. سیدنا عروہ بن زبیر سے روایت ہے انہوں مروان بن حکم اور سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ نے بتایا کہ جب مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کو ہوازن کے قیدی آزاد کر دینے کے متعلق کہا تو آپ نےفرمایا: میں نہیں جانتا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی۔ اب تم واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے نمبردار تمہارا معاملہ ہم تک پہنچائیں۔ چنانچہ لوگ واپس چلے گئے اور ان کے درمیان ذمہ داران نے ان سے گفتگو کی۔ پھر انہوں نے آکر رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی کہ لوگوں نے اپنے دل کی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7177]
حدیث حاشیہ:
مخصوص لوگوں کے منتظم اور چودھری کو عریف کہتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ عریف،جہنم میں جائیں گے اور امراء کے لیے بھی ہلاکت ہے۔
(مسند احمد: 352/2)
اس سے مراد وہ منتظم ہیں جو حد سے گزرنے والے اور ظلم وستم ڈھانے والے ہوں۔
مطلق طور پرعرفاء قابل مذمت نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نظام کی اجازت دی ہے۔
کوئی آدمی اکیلا امور مملکت نہیں چلا سکتا،اسے نچلی سطح پرعرفاء (ناظم وغیرہ)
کی ضرورت ہے جو لوگوں کی ضروریات اوران کے مسائل حاکم اعلیٰ تک پہنچائیں اورحکومت کے قوانین وہدایات عام لوگوں تک پہنچائیں، چنانچہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث میں عرفاء اور منتظم حضرات کی مشروعیت کا بیان ہے کیونکہ امام وقت تمام معاملات براہ راست نہیں چلا سکتا۔
اس نظام کی اسے ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے معاملات کو احسن انداز میں بروقت نمٹایا جاسکے اور انھیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
(فتح الباري: 210/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7177   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.