الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
27. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ثَنَاءِ السُّلْطَانِ، وَإِذَا خَرَجَ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ:
27. باب: بادشاہ کے سامنے منہ در منہ خوشامد کرنا، پیٹھ پیچھے اس کو برا کہنا منع ہے۔
(27) Chapter. What is disliked as regards praising the Sultan (ruler) (in his presence) and saying something differently after leaving him.
حدیث نمبر: 7178
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا ابو نعيم، حدثنا عاصم بن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال اناس لابن عمر: إنا ندخل على سلطاننا، فنقول لهم خلاف ما نتكلم إذا خرجنا من عندهم، قال:" كنا نعدها نفاقا".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا، فَنَقُولُ لَهُمْ خِلَافَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ، قَالَ:" كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے، اور ان سے ان کے والد نے کہ کچھ لوگوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ہم اپنے حاکموں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے حق میں وہ باتیں کہتے ہیں کہ باہر آنے کے بعد ہم اس کے خلاف کہتے ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم اسے نفاق کہتے تھے۔

Narrated Muhammad bin Zaid bin `Abdullah bin `Umar: Some people said to Ibn `Umar, "When we enter upon our ruler(s) we say in their praise what is contrary to what we say when we leave them." Ibn `Umar said, "We used to consider this as hypocrisy."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 289


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7178  
7178. سیدنا محمد بن زید سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے کہا: جب ہم اپنے بادشاہ کے پاس جاتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ باہر آکر اس کے خلاف کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عمر ؓ نے جواب دیا: ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7178]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ چند لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے۔
آپ نے فرمایا:
تم ان کے سامنے بھی ایسا کہتے ہو؟انھوں نے کہا:
نہیں،بلکہ ہم ان کے سامنے تعریف کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
ہم اسی کو منافقت شمارکرتے تھے۔
(فتح الباري: 212/13 وسنن الکبری للبیهقي: 165/5)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا:
یہ شخص بہت بُرا ہے۔
لیکن وہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خندہ پیشانی سے ملے؟ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 6032)
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اظہار حقیقت کیا تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ کریں اور جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔

بہرحال انسان کے ظاہرہ باطن میں یکسانیت ہونی چاہیے۔
ظاہر وباطن کے فرق کو منافقت کہا جاتا ہے لیکن یہ عملی منافقت ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ کفر کےقریب کر دیتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق کفر تھا جبکہ ہمارے ہاں نفاق عمل پایا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 212/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7178   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.