الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
22. بَابُ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ} ، {وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} :
22. باب: (سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”اور اس کا عرش پانی پر تھا“، ”اور وہ عرش عظیم کا رب ہے“۔
(22) Chapter. (The Statement of Allah): “… And His Throne was on the water…” (V.11:7) "…The Lord of the Supreme Throne." (V.27:26)
حدیث نمبر: 7423
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثني محمد بن فليح، قال: حدثني ابي، حدثني هلال، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من آمن بالله ورسوله واقام الصلاة وصام رمضان، كان حقا على الله ان يدخله الجنة هاجر في سبيل الله، او جلس في ارضه التي ولد فيها، قالوا: يا رسول الله، افلا ننبئ الناس بذلك؟، قال: إن في الجنة مائة درجة اعدها الله للمجاهدين في سبيله، كل درجتين ما بينهما كما بين السماء والارض فإذا سالتم الله؟، فسلوه الفردوس فإنه اوسط الجنة واعلى الجنة وفوقه عرش الرحمن ومنه تفجر انهار الجنة".حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي هِلَالٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَامَ رَمَضَانَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُنَبِّئُ النَّاسَ بِذَلِكَ؟، قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ، كُلُّ دَرَجَتَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ؟، فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔ خواہ اس نے ہجرت کی ہو یا وہیں مقیم رہا ہو جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کی اطلاع لوگوں کو نہ دے دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیانہ درجے کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Whoever believes in Allah and His Apostle offers prayers perfectly and fasts (the month of) Ramadan then it is incumbent upon Allah to admit him into Paradise, whether he emigrates for Allah's cause or stays in the land where he was born." They (the companions of the Prophet) said, "O Allah's Apostle! Should we not inform the people of that?" He said, "There are one-hundred degrees in Paradise which Allah has prepared for those who carry on Jihad in His Cause. The distance between every two degrees is like the distance between the sky and the Earth, so if you ask Allah for anything, ask Him for the Firdaus, for it is the last part of Paradise and the highest part of Paradise, and at its top there is the Throne of Beneficent, and from it gush forth the rivers of Paradise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 519

   صحيح البخاري2790عبد الرحمن بن صخرمن آمن بالله وبرسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة جاهد في سبيل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والأرض فإذا سألتم الله فاسألوه الفردو
   صحيح البخاري7423عبد الرحمن بن صخرمن آمن بالله ورسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة هاجر في سبيل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيله كل درجتين ما بينهما كما بين السماء والأرض فإذا سألتم الله فسلوه الفردوس ف
   سلسله احاديث صحيحه480عبد الرحمن بن صخر إن في الجنة مائة درجة اعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والارض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7423  
7423. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی زمین میں مقیم رہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو اس سے مطلع نہ کریں؟ آپ ﷺ نےفرمایا: جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت فردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا اعلیٰ اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7423]
حدیث حاشیہ:
جنتوں کو اورعرش کواسی طرح ترتیب سے تسلیم کرنا آیت (الذينَ يُومِنونَ بالغيبِ)
كا تقاضا ہے۔
آمنا بما قال الله وقال رسوله
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7423  
7423. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی زمین میں مقیم رہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو اس سے مطلع نہ کریں؟ آپ ﷺ نےفرمایا: جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت فردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا اعلیٰ اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7423]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرے انداز سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کی ہے۔
وہ اس طرح کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے لیے فوقیت کا اثبات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلق کے اوپر ہے اوران سے جدا اور الگ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ)
وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔
(الأنعام61)
نیز فرمایا:
(يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ)
اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور انھیں جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔
(النحل: 50)

اس سلسلے میں فرعون نے اپنے درباریوں کواُلو بنانے کے لیے ایک اسکیم تیار کی۔
وہ کہنے لگا:
اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں ان راستوں تک پہنچ سکو جو آسمانوں کے راستے ہیں۔
موسیٰ کے الٰہ کی طرف جھانک کر دیکھوں اور بے شک میں تو اسے یقیناً جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں۔
(المومن: 40۔
37)

یعنی موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں اور کتنی بلندی پر ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ذات باری تعالیٰ کے متعلق یہی عقیدہ پیش کیا تھا کہ وہ آسمانوں کے اوپرہے۔
نیز جو اس کا انکار کرتا ہے وہ فرعون کا اتباع کرتا ہے چنانچہ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جہمیہ میں سے جس نے علو باری تعالیٰ کی نفی کی وہ فرعونی ہے اور جس نے علو کو ثابت کیا وہ موسوی اور محمدی ہے۔
(شرح العقیدة الطحاویة: 259/1)

علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیسیوں دلائل سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت ثابت کی بلکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے علو کو تسلیم کیا جائے کیونکہ انسان دعا کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہےاور نہایت عاجزی کے ساتھ جہت علو کا قصد کرتا ہے۔
اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نیچے ہے بلکہ اس سے مقصود اللہ کے حضورخود کو ذلیل کرنا اور نیچا دکھانا ہوتا ہےاللہ تعالیٰ تو ایسی گھٹیا باتوں سے پاک ہے۔
(شرح العقیدہ الطحاویة: 372/1)
پہلی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کے اوپر اپنے پاس لکھا۔
میری رحمت میرے غصے سے سبقت لے گئی ہے۔
علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے معنی لکھے ہیں کہ اس کے پاس کائنات کا علم ہے جسے نہ وہ بھولے گا اور نہ اس میں تبدیلی ہی کرے گا۔
(فتح الباری: 13/509)
اہل علم اس تاویل کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کتاب خاص کو مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں جسے اس نے اپنے پاس عرش پر رکھا ہے۔
یہ اس بات کے منافی نہیں کہ لوح محفوظ میں اسے الگ طور پر لکھا گیا ہے۔
بہر حال یہ کتاب حقیقت پر مبنی ہے اور عرش پر ہونا بھی حقیقت پر مبنی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش کے اوپر ہونا بھی حقیقی ہے۔
اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا ہے اور اس کا عرش تمام مخلوقات سے اوپر اور ان سے الگ ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 1/397)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7423   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.