الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
36. بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَغَيْرِهِمْ:
36. باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے۔
(36) Chapter. The Talk of the Lord to the Prophets and others on the Day of Resurrection.
حدیث نمبر: 7514
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن صفوان بن محرز، ان رجلا سال ابن عمر كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول في النجوى، قال: يدنو احدكم من ربه حتى يضع كنفه عليه، فيقول: اعملت كذا وكذا؟، فيقول: نعم، ويقول: عملت كذا وكذا، فيقول: نعم، فيقرره، ثم يقول:" إني سترت عليك في الدنيا وانا اغفرها لك اليوم"،حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي النَّجْوَى، قَالَ: يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: أَعَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا؟، فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ: عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ:" إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ"،
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن محرز نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: سرگوشی کے بارے میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب جائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پردہ اس پر ڈال دے گا اور کہے گا تو نے یہ یہ عمل کیا تھا؟ بندہ کہے گا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ اس کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔

Narrated Safwan bin Muhriz: A man asked Ibn `Umar, "What have you heard from Allah's Apostle regarding An-Najwa?" He said, "Everyone of you will come close to His Lord Who will screen him from the people and say to him, 'Did you do so-and-so?' He will reply, 'Yes.' Then Allah will say, 'Did you do so-and-so?' He will reply, 'Yes.' So Allah will question him and make him confess, and then Allah will say, 'I screened your sins in the world and forgive them for you today.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 605

   صحيح البخاري7514عبد الله بن عمرسترت عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاري6070عبد الله بن عمرسترت عليك في الدنيا فأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاري2441عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم فيعطى كتاب حسناته وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد هؤلاء الذين كذبوا على ربهم ألا لعنة الله على الظالمين
   صحيح البخاري4685عبد الله بن عمريدنى المؤمن من ربه
   صحيح مسلم7015عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وإني أغفرها لك اليوم فيعطى صحيفة حسناته وأما الكفار والمنافقون فينادى بهم على رءوس الخلائق هؤلاء الذين كذبوا على الله
   سنن ابن ماجه183عبد الله بن عمرسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم ثم يعطى صحيفة حسناته وأما الكافر فينادى على رءوس الأشهاد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث183  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ» (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔
اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مخاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔
جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔

(2)
اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے ﴿وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا﴾ (مریم: 56)
 ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا قرب بخشا۔
اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

(3)
اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 183   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7514  
7514. صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک آدمی نے سرگوشی کے متعلق سوال کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے یہ یہ عمل بھی کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ ہر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7514]
حدیث حاشیہ:
اس سند کےلانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع دفع ہو جائے۔
حدیث کی اس باب سے مطابقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندے سے سرگوشی کرنا مذکور ہے۔
حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے اس کے بعد اب کہاں گئے وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے نہ اس میں آوا ز ہے نہ حروف ہیں۔
فرمائیے یہ قدیم صفت موقع بموفع کیونکر حادث ہوتی رہتی ہے۔
اگر کہتے ہیں کہ اس کا تعلق حادث ہے جیسے سمع اوربصرہ وغیرہ ہیں تو مسموع اور مبصر ذات الہی کا غیر ہے۔
اس لیے تعلق حادث ہو سکتا ہے یہاں تو کلام اسی کی صفت ہے اس کا غیر نہیں ہے۔
اگر اس کے کلام میں آواز اور حروف نہیں ہیں توپھر پیغمبروں نےاس کا کلام کیوں کرسنا اور متواتر احادیث میں جو آیا ہے کہ اس نے دوسرے لوگو‎ں سے بھی کلا م کیا اور خصوصا مومنوں سےآخرت میں کلام کرے گا تویہ کلام جب اس میں آواز اورحروف نہیں ہیں کیوں کر سمجھ میں آیا اور آسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ یہ (متکلمین)
لوگ اتنا علم پڑھ کر پھر اس مسئلہ میں بے وقوفی کی چال چلے اورمعلوم نہیں کیا کیا تاویلات کرتے ہیں۔
اس قسم کی تاویلیں درحقیقت صفت کلام کا انکار کرنا ہے پھر سرے سے یوں نہیں کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی نہیں کرتا جیسے جعد بن درہم مردود تھا۔
آج کل بھی اکثر نیچری مغرب زدہ نام نہاد مسلمان ایسی ہی باتیں کرتےہیں۔
ھدا ھم اللہ إلیٰ صراط مستقیم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7514   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7514  
7514. صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک آدمی نے سرگوشی کے متعلق سوال کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے یہ یہ عمل بھی کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ ہر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7514]
حدیث حاشیہ:

اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے سر گوشی کے انداز میں گفتگو کرے گا۔
اسے قریب کرنے اور اس پر پردہ ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ گفتگو کوئی اور نہ سنے تاکہ بندے کو ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھا جائے یہ گفتگو مبنی بر حقیقت اور الفاظ و حروف پر مشتمل ہو گی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے جس میں آواز اور حروف نہیں ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے تو بندہ اس سر گوشی کو کیسے سن سکے گا؟ اللہ تعالیٰ اہل جہنم سے بھی گفتگو کرے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ وہ ایک ایسے کافرسے کہے گا جسے بہت ہلکا سا عذاب دیا جارہا ہو گا۔
اگر تجھے دنیا اور اس کا ساز و سامان دے دیا جائے تو کیا اسے فدیے کے طور پر دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کر لے گا؟ وہ جواب دے گا۔
میں اس کے لیے تیار ہوں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
جب تو اپنے باپ کی پشت میں تھا تو تجھ سے بہت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تونے (ڈھٹائی سے)
شرک ہی کیا۔
(صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7083(2805)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک اور سند بیان کی ہے تاکہ راوی حدیث صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع کا احتمال ختم ہو جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7514   

حدیث نمبر: 7514M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال آدم، حدثنا شيبان، حدثنا قتادة، حدثنا صفوان، عن ابن عمر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم.وَقَالَ آدَمُ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے صفوان نے بیان کیا، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.