الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
56. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} :
56. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الصافات میں) ارشاد ”اور اللہ نے پیدا کیا تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو“۔
(56) Chapter. The Statement of Allah: “While Allah has created you and what you make!” (V.37:96) ".
حدیث نمبر: Q7555
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
{إنا كل شيء خلقناه بقدر}. ويقال للمصورين احيوا ما خلقتم. ويقال للمصورين: احيوا ما خلقتم إن ربكم الله الذي خلق السموات والارض في ستة ايام ثم استوى على العرش يغشي الليل النهار يطلبه حثيثا والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامره الا له الخلق والامر تبارك الله رب العالمين سورة الاعراف آية 54، قال ابن عيينة: بين الله الخلق من الامر لقوله تعالى: الا له الخلق والامر سورة الاعراف آية 54 وسمى النبي صلى الله عليه وسلم الإيمان عملا، قال ابو ذر، وابو هريرة سئل النبي صلى الله عليه وسلم اي الاعمال افضل؟، قال: إيمان بالله، وجهاد في سبيله، وقال: جزاء بما كانوا يعملون، وقال وفد عبد القيس للنبي صلى الله عليه وسلم مرنا بجمل من الامر إن عملنا بها دخلنا الجنة، فامرهم بالإيمان، والشهادة، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، فجعل ذلك كله عملا.{إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ}. وَيُقَالُ لِلْمُصَوِّرِينَ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ. وَيُقَالُ لِلْمُصَوِّرِينَ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ سورة الأعراف آية 54، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: بَيَّنَ اللَّهُ الْخَلْقَ مِنَ الْأَمْرِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ سورة الأعراف آية 54 وَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيمَانَ عَمَلًا، قَالَ أَبُو ذَرٍّ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ، وَقَالَ: جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ، وَقَالَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْنَا بِجُمَلٍ مِنَ الْأَمْرِ إِنْ عَمِلْنَا بِهَا دَخَلْنَا الْجَنَّةَ، فَأَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ، وَالشَّهَادَةِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، فَجَعَلَ ذَلِكَ كُلَّهُ عَمَلًا.
‏‏‏‏ اور اللہ نے پیدا کیا تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو۔ اور (سورۃ القمر میں) فرمایا «إنا كل شىء خلقناه بقدر‏» بلاشبہ ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا اور مصوروں سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں جان ڈالو۔ اور (سورۃ الاعراف میں) فرمایا «إن ربكم الله الذي خلق السموات والأرض في ستة أيام ثم استوى على العرش يغشي الليل النهار يطلبه حثيثا والشمس والقمر والنجوم مسخرات بأمره ألا له الخلق والأمر تبارك الله رب العالمين‏» بلاشبہ تمہارا مالک اللہ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر زمین آسمان بنا کر تخت پر چڑھا، رات کو دن سے ڈھانپتا ہے اور دن کو رات سے، دونوں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ہاں سن لو! اسی نے سب کچھ بنایا اسی کا حکم چلتا ہے۔ اللہ کی ذات بہت بابرکت ہے جو سارے جہان کو پالنے والا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ اللہ نے «لأمر» کو «خلق» سے الگ کیا تب، تو یوں فرمایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کو بھی عمل کہا۔ ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «جزاء بما كانوا يعملون‏» یہ بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے تھے۔ قبیلہ عبدالقیس کے وفد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں آپ چند ایسے جامع اعمال بتا دیں جن پر اگر ہم عمل کر لیں تو جنت میں داخل ہو جائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایمان، شہادت، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ نے ان سب چیزوں کو عمل قرار دیا۔

حدیث نمبر: 7555
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، والقاسم التميمي، عن زهدم، قال: كان بين هذا الحي من جرم وبين الاشعريين ود وإخاء، فكنا عند ابي موسى الاشعري، فقرب إليه الطعام فيه لحم دجاج وعنده رجل من بني تيم الله كانه من الموالي، فدعاه إليه، فقال: إني رايته ياكل شيئا، فقذرته، فحلفت لا آكله، فقال: هلم، فلاحدثك عن ذاك إني اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في نفر من الاشعريين نستحمله، قال: والله لا احملكم وما عندي ما احملكم، فاتي النبي صلى الله عليه وسلم بنهب إبل، فسال عنا، فقال:" اين النفر الاشعريون، فامر لنا بخمس ذود غر الذرى، ثم انطلقنا، قلنا: ما صنعنا حلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا يحملنا وما عنده ما يحملنا، ثم حملنا تغفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه والله لا نفلح ابدا، فرجعنا إليه، فقلنا له: فقال: لست انا احملكم ولكن الله حملكم، وإني والله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها إلا اتيت الذي هو خير منه وتحللتها".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، وَالْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ جُرْمٍ وَبَيْنَ الْأَشْعَرِيِّينَ وُدٌّ وَإِخَاءٌ، فَكُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ الطَّعَامُ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ كَأَنَّهُ مِنَ الْمَوَالِي، فَدَعَاهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا، فَقَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ لَا آكُلُهُ، فَقَالَ: هَلُمَّ، فَلْأُحَدِّثْكَ عَنْ ذَاكَ إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَسَأَلَ عَنَّا، فَقَالَ:" أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، ثُمَّ انْطَلَقْنَا، قُلْنَا: مَا صَنَعْنَا حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا وَمَا عِنْدَهُ مَا يَحْمِلُنَا، ثُمَّ حَمَلَنَا تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ وَاللَّهِ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا لَهُ: فَقَالَ: لَسْتُ أَنَا أَحْمِلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَتَحَلَّلْتُهَا".
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ اور قاسم تمیمی نے، ان سے زہدم نے بیان کیا کہ اس قبیلہ جرم اور اشعریوں میں محبت اور بھائی چارہ کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ان کے پاس کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ ان کے ہاں ایک بنی تیم اللہ کا بھی شخص تھا۔ غالباً وہ عرب کے غلام لوگوں میں سے تھا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس بلایا تو اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا ہے اور اسی وقت سے قسم کھا لی کہ اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا، سنو! میں تم سے اس کے متعلق ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کرتا ہوں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعریوں کے کچھ افراد کو لے کر حاضر ہوا اور ہم نے آپ سے سواری مانگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واللہ! میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا، نہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے میں تمہیں سواری کے لیے دوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں سے کچھ اونٹ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے متعلق پوچھا کہ اشعری لوگ کہاں ہیں؟ چنانچہ آپ نے ہمیں پانچ عمدہ اونٹ دینے کا حکم دیا۔ ہم انہیں لے کر چلے تو ہم نے اپنے عمل کے متعلق سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہیں دیں گے اور نہ آپ کے پاس کوئی ایسا جانور ہے جو ہمیں سواری کے لیے دیں۔ ہم نے سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہیں، واللہ! ہم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ہم واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ سے صورت حال کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں یہ سواری نہیں دے رہا ہوں بلکہ اللہ دے رہا ہے۔ واللہ! میں اگر کوئی قسم کھا لیتا ہوں اور پھر اس کے خلاف میں دیکھتا ہوں تو میں وہی کرتا ہوں جس میں بھلائی ہوتی ہے اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔

Narrated Zahdam: There were good relations and brotherhood between this tribe of Jurm and the Ash`ariyyin. Once, while we were sitting with Abu Musa Al-Ash`ari, there was brought to him a meal which contained chicken meat, and there was sitting beside him, a man from the tribe of Bani Taimul-lah who looked like one of the Mawali. Abu Musa invited the man to eat but the man said, "I have seen chicken eating some dirty things, and I have taken an oath not to eat chicken." Abu Musa said to him, "Come along, let me tell you something in this regard. Once I went to the Prophet with a few men from Ash`ariyyin and we asked him for mounts. The Prophet said, By Allah, I will not mount you on anything; besides I do not have anything to mount you on.' Then a few camels from the war booty were brought to the Prophet, and he asked about us, saying, 'Where are the group of Ash`ariyyin?' So he ordered for five fat camels to be given to us and then we set out. We said, 'What have we done? Allah's Apostle took an oath that he would not give us anything to ride and that he had nothing for us to ride, yet he provided us with mounts. We made Allah's Apostle forget his oath! By Allah, we will never be successful.' So we returned to him and reminded him of his oath. He said, 'I have not provided you with the mount, but Allah has done so. By Allah, I may take an oath to do something, but on finding something else which is better, I do that which is better and make the expiation for my oath.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 644

   صحيح البخاري7555عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منه وتحللتها
   صحيح البخاري6680عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6721عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6649عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6718عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير
   صحيح البخاري5518عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري3133عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها
   صحيح البخاري6623عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أو أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني
   صحيح البخاري4385عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منها
   صحيح مسلم4263عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين ثم أرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير
   صحيح مسلم4265عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها فانطلقوا فإنما حملكم الله
   صحيح مسلم4269عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين أرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير
   سنن أبي داود3276عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خي
   سنن النسائى الصغرى3811عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير
   سنن النسائى الصغرى3810عبد الله بن قيسما على الأرض يمين أحلف عليها فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيته
   سنن ابن ماجه2107عبد الله بن قيسلا أحلف على يمين فأرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أوقال أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني
   المعجم الصغير للطبراني12عبد الله بن قيسمن حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه
   مسندالحميدي783عبد الله بن قيسرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107  
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قسم کی تین قسمیں ہیں:

(ا)
لغو:
جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔
اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔

(ب)
غموس:
یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔
یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔

(ج)
معقدہ:
جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔
اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے:
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89)

۔

(2)
  قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)

(3)
  ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام)
کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔
اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89)
اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔
یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔
اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔

(4)
  نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔
اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾  (البقرۃ، 2: 224)
اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح)
نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔

(5)
جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7555  
7555. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری قبیلے کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے اور ان کے ہاں بنو تیم اللہ کا ایک شخص بھی تھا۔ غالباً وہ عرب کے غلام لوگوں میں سے تھا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو اسی وقت سےقسم اٹھائی کہ اس کا گوشت نہیں دکھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نےکہا: آؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ میں نبی ﷺ کے پاس اشعری قبیلے کے چند افراد لے کر حاضر ہوا اور ہم نے آپ سے سواری مانگی۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کرسکتا اور نہ میرے پاس کوئی چیز ہے جسے میں تمہیں سواری کے لیے دوں۔ پھر نبی ﷺ کے پاس مال غنیمت میں سے کچھ اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے ہمارے متعلق دریافت کیا: اشعری کہاں ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7555]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری  یہاں اس لیے لائے کہ بندے کےافعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جب توآنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے تم کو سوار ی نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7555   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7555  
7555. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری قبیلے کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے اور ان کے ہاں بنو تیم اللہ کا ایک شخص بھی تھا۔ غالباً وہ عرب کے غلام لوگوں میں سے تھا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو اسی وقت سےقسم اٹھائی کہ اس کا گوشت نہیں دکھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نےکہا: آؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ میں نبی ﷺ کے پاس اشعری قبیلے کے چند افراد لے کر حاضر ہوا اور ہم نے آپ سے سواری مانگی۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کرسکتا اور نہ میرے پاس کوئی چیز ہے جسے میں تمہیں سواری کے لیے دوں۔ پھر نبی ﷺ کے پاس مال غنیمت میں سے کچھ اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے ہمارے متعلق دریافت کیا: اشعری کہاں ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7555]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بندہ اپنے افعال کا کسب کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرتا ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سواریاں فراہم کیں اور فرمایا:
یہ سواریاں میں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں جیسا کہ روزے دار بھول کر کھا لے تو فرمایا:
اللہ تعالیٰ اسے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت عطا کیا تھا تو درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی نے انھیں اونٹ دیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے افعال کا خالق ہے۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل عطا کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اسباب کا مہیا کرنے والا اور انھیں پیدا کرنے والا وہ خود ہے 2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
اس حدیث میں سواریاں دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی گئی ہے حالانکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراہم کی تھیں۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب مہیا کیے تھے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور جب آپ نے مٹھی پھینکی تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔
(الأنفال: 8/17۔
وفتح الباري: 663/13)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7555   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.