الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
41. باب تَحْرِيمِ قَتْلِ الْكَافِرِ بَعْدَ أَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
41. باب: کافر کو لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 279
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن الحسن بن خراش ، حدثنا عمرو بن عاصم ، حدثنا معتمر ، قال: سمعت ابي يحدث، ان خالدا الاثبج ابن اخي صفوان بن محرز حدث، عن صفوان بن محرز ، انه حدث، ان جندب بن عبد الله البجلي ، بعث إلى عسعس بن سلامة زمن فتنة ابن الزبير، فقال: اجمع لي نفرا من إخوانك حتى احدثهم، فبعث رسولا إليهم، فلما اجتمعوا، جاء جندب وعليه برنس اصفر، فقال: تحدثوا بما كنتم تحدثون به، حتى دار الحديث، فلما دار الحديث إليه، حسر البرنس عن راسه، فقال: إني اتيتكم ولا اريد ان اخبركم عن نبيكم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا من المسلمين إلى قوم من المشركين، وإنهم التقوا، فكان رجل من المشركين، إذا شاء ان يقصد إلى رجل من المسلمين قصد له فقتله، وإن رجلا من المسلمين قصد غفلته، قال: وكنا نحدث انه اسامة بن زيد، فلما رفع عليه السيف، قال: لا إله إلا الله، فقتله، فجاء البشير إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله، فاخبره حتى اخبره خبر الرجل كيف صنع، فدعاه فساله، فقال: لم قتلته؟ قال: يا رسول الله، اوجع في المسلمين، وقتل فلانا وفلانا، وسمى له نفرا، وإني حملت عليه، فلما راى السيف، قال: لا إله إلا الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلته؟ قال: نعم، قال: فكيف تصنع بلا إله إلا الله، إذا جاءت يوم القيامة؟ قال: يا رسول الله، استغفر لي، قال: وكيف تصنع بلا إله إلا الله، إذا جاءت يوم القيامة؟ قال: فجعل لا يزيده على ان يقول: " كيف تصنع بلا إله إلا الله، إذا جاءت يوم القيامة؟ ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِر ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، أَنَّ خَالِدًا الأَثْبَجَ ابْنَ أَخِي صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ حَدَّثَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، أَنَّهُ حَدَّثَ، أَنَّ جُنْدَبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيَّ ، بَعَثَ إِلَى عَسْعَسِ بْنِ سَلَامَةَ زَمَنَ فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: اجْمَعْ لِي نَفَرًا مِنْ إِخْوَانِكَ حَتَّى أُحَدِّثَهُمْ، فَبَعَثَ رَسُولًا إِلَيْهِمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا، جَاءَ جُنْدَبٌ وَعَلَيْهِ بُرْنُسٌ أَصْفَرُ، فَقَالَ: تَحَدَّثُوا بِمَا كُنْتُمْ تَحَدَّثُونَ بِهِ، حَتَّى دَارَ الْحَدِيثُ، فَلَمَّا دَارَ الْحَدِيثُ إِلَيْهِ، حَسَرَ الْبُرْنُسَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالَ: إِنِّي أَتَيْتُكُمْ وَلَا أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى قَوْمٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَإِنَّهُمُ الْتَقَوْا، فَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِذَا شَاءَ أَنْ يَقْصِدَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ لَهُ فَقَتَلَهُ، وَإِنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ غَفْلَتَهُ، قَالَ: وَكُنَّا نُحَدَّثُ أَنَّهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَلَمَّا رَفَعَ عَلَيْهِ السَّيْفَ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهَ، فَقَتَلَهُ، فَجَاءَ الْبَشِيرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ حَتَّى أَخْبَرَهُ خَبَرَ الرَّجُلِ كَيْفَ صَنَعَ، فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهَ، أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِينَ، وَقَتَلَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَسَمَّى لَهُ نَفَرًا، وَإِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى السَّيْفَ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: فَجَعَلَ لَا يَزِيدُهُ عَلَى أَنْ يَقُولَ: " كَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ ".
صفوان بن محرز نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے فتنے کے زمانے میں جندب بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے عسعس بن سلامہ کو پیغام بھیجا اور کہا: میرے لیے اپنے ساتھیوں میں ایک نفری (نفرتیں سے دس تک کی جماعت) جمع کرو تاکہ میں ان سے بات کروں: چنانچہ عسعس نے اپنے ان ساتھیوں کی جانب ایک قاصد بھیجا جب و ہ جمع ہو گئے تو جندب ایک زرد رنگ کی لمبی ٹوپی پہنے ہوئےآئے اور کہا: جو باتیں تم کر رہے تھے، وہ کرتے رہو۔ یہاں تک کہ بات چیت کا دور چل پڑا۔ جب بات ان تک پہنچی (ان کے بولنے کی باری آئی) تو انہوں نے اپنے سر سےلمبی ٹو‎پی اتار دی اور کہا: میں تمہارے پاس آیاتھا اور میرا ارادہ یہ نہ تھا کہ تمہیں تمہارے نبی سے کوئی حدیث سناؤں (لیکن اب یہ ضروری ہو گیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کی ایک قوم کی طرف بھیجا اور ان کے آمنا سامنا ہوا۔ مشرکوں کا ایک آدمی تھا، وہ جب مسلمانوں کے کسی آدمی پر حملہ کرنا چاہتا تو اس پر حملہ کرتا اور اسے قتل کر دیتا۔ اور مسلمانوں کا ایک آدمی تھا جو اس (مشرک) کی بے دھیانی کا متلاشی تھا، (جندب بن عبد اللہ نے) کہا: ہم ایک دوسرےسے کہتے تھے کہ وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب ان کی تلوار مارنے کی باری آئی تو اس نے لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ فتح کی خوش خبری دینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے اس سے (حالات کے متعلق) پوچھا، اس نے آپ کو حالات بتائے حتی کہ اس آدمی (حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ) کی خبر بھی دے دی کہ انہوں کیا کیا۔ آپ نے انہیں بلا کر پوچھا اور فرمایا: تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ ا نہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچائی تھی اور فلاں فلاں کو قتل کیا تھا، انہوں نے کچھ لوگوں کے نام گنوائے، (پھر کہا:) میں اس پر حملہ کیا، اس نے جب تلوار دیکھی تو لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے قتل کر دیا؟ (اسامہ رضی اللہ عنہ) کہا، جی ہاں! فرمایا: قیامت کے دن جب لا إلہ إلا اللہ (تمہارے سامنے) آئے گا تو اس کا کیا کرو گے؟ (اسامہ رضی اللہ عنہ نے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب کیجیے۔ آپ نے فرمایا: قیامت کےدن (تمہارے سامنے کلمہ) لا إلہ إلااللہ آئے گا تو اس کا کیا کرو گے؟ (جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مزید کوئی بات نہیں کر رہے تھے، یہی کہہ رہے تھے: قیامت کے دن لا إلہ إلا اللہ (تمہارے سامنے) آئے گا تو اس کیا کرو گے؟
صفوان بن محرزؒ بیان کرتے ہیں، حضرت ابنِ زبیر ؓ کے فتنہ کے زمانہ میں جندب بن عبداللہ بجلی ؓ نے عَسْعَسْ بن سلامہ کے پاس پیغام بھیجا کہ میرے لیے اپنے ساتھیوں کا ایک گروہ جمع کرو، تاکہ میں ان سے بات کروں۔ عسعس نے اپنے ساتھیوں کو بلا بھیجا، تو جب وہ جمع ہو گئے، جندب ؓ ایک برنس (برانڈی) زرد رنگ کی پہنے ہوئے آئے اور فرمایا: جو باتیں تم کر رہے تھے وہ کرتے رہو تو جب بات ان تک پہنچی (ان کے بولنے کی باری آئی) انھوں نے سر سے برانڈی اتار دی پھر کہا: میں تمھارے نبی کی حدیث بیان کرنے کے ارادے سے نہیں آیا تھا۔ (لیکن اب آپ کی حدیث بیان کرتا ہوں) رسو ل اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرک لوگوں کی طرف بھیجا، اور ان کا آمنا سامنا ہوا، مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس مسلمان پر حملہ کرنا چاہتا حملہ کر کے اس کو قتل کر دیتا، ایک مسلمان آدمی نے اس کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہا (اس کی گھات میں رہا) ہمیں بتایا جاتا تھا: کہ وہ اسامہ بن زید ؓ تھے۔ تو جب انھوں نے اس پر تلوار اٹھائی (ان کی تلوار کی زد میں آگیا) تو اس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا، لیکن انھوں نے اسے قتل کر دیا۔ فتح کی بشارت دینے والا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو آپؐ نے اس سے پوچھا، اس نے حالات بتائے یہاں تک کہ اس آدمی نے حضرت اسامہ ؓ کے کارنامہ کی بھی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر پوچھا: تو نے اس کو قتل کیوں کیا؟ انھوں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسولؐ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی اور فلاں فلاں کو قتل کیا۔ انھوں نے چند آدمیوں کے نام لیے، جب میں نے اس پر حملہ کیا، تو تلوار دیکھ کر اس نے لا لٰہ الا اللہ کہہ دیا۔ آپ نے پوچھا کیا: تو نے اسے قتل کیا ہے؟ اسامہ ؓ نے ہاں میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: قیامت کےدن جب لا الٰہ الا اللہ آئے گا تو کیا جواب دو گے؟ اسامہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے لیے بخشش طلب کیجیے! آپؐ نے فرمایا: لاالٰہ الا اللہ جب قیامت کو آئے گا تو اس کا کیا جواب دو گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زائد کچھ نہیں کہہ رہے تھے: جب قیامت کے روز لا الٰہ الا اللہ آئے گا تو اس کا کیا جواب دو گے؟
ترقیم فوادعبدالباقی: 97

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3258)»

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 279  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
بُرْنُس:
اس جبہ یا برانڈی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ ٹوپی موجود ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 279   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.