الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
48. باب غِلَظِ تَحْرِيمِ الْغُلُولِ وَأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ:
48. باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے کی حرمت اور یہ کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔
حدیث نمبر: 310
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني ابو الطاهر ، قال: اخبرني ابن وهب ، عن مالك بن انس ، عن ثور بن زيد الدؤلي ، عن سالم ابي الغيث مولى ابن مطيع ، عن ابي هريرة . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد وهذا حديثه، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد ، عن ثور ، عن ابي الغيث ، عن ابي هريرة ، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، ففتح الله علينا، فلم نغنم ذهبا، ولا ورقا، غنمنا المتاع، والطعام، والثياب، ثم انطلقنا إلى الوادي، ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد له وهبه، له رجل من جذام يدعى رفاعة بن زيد من بني الضبيب، فلما نزلنا الوادي، قام عبد رسول الله صلى الله عليه وسلم يحل رحله، فرمي بسهم فكان فيه حتفه، فقلنا: هنيئا له الشهادة يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كلا، والذي نفس محمد بيده إن الشملة لتلتهب عليه نارا، اخذها من الغنائم يوم خيبر لم تصبها المقاسم، قال: ففزع الناس، فجاء رجل بشراك، او شراكين، فقال: يا رسول الله، اصبت يوم خيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " شراك من نار، او شراكان من نار ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدُّؤَلِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَهَذَا حَدِيثُهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا، وَلَا وَرِقًا، غَنِمْنَا الْمَتَاعَ، وَالطَّعَامَ، وَالثِّيَابَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الْوَادِي، وَمَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ لَهُ وَهَبَهُ، لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُذَامٍ يُدْعَى رِفَاعَةَ بْنَ زَيْدٍ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ، فَلَمَّا نَزَلْنَا الْوَادِي، قَامَ عَبْدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُلُّ رَحْلَهُ، فَرُمِيَ بِسَهْمٍ فَكَانَ فِيهِ حَتْفُهُ، فَقُلْنَا: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَلَّا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ لَتَلْتَهِبُ عَلَيْهِ نَارًا، أَخَذَهَا مِنَ الْغَنَائِمِ يَوْمَ خَيْبَرَ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ، قَالَ: فَفَزِعَ النَّاسُ، فَجَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ، أَوْ شِرَاكَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَبْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شِرَاكٌ مِنَ نَارٍ، أَوْ شِرَاكَانِ مِنَ نَارٍ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر کی طرف نکلے، اللہ نے ہمیں فتح عنایت فرمائی، غنیمت میں ہمیں سنا یا چاندی نہ ملا، غنیمت میں سامان، غلہ اور کپڑے ملے، پھر ہم وادی (القری) کی طر ف چل پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلے کے ایک آدمی نے، جسے رفاعہ بن زید کہا جاتا تھا اور (جذام کی شاخ) بنو صبیب سے اس کا تعلق تھا، آپ کو ہبہ کیا تھا۔ جب ہم نے اس وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ (یہ) غلام آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا، اسے (دور سے) تیر کا نشانہ بنایا گیا اور اسی اس کی موت واقع ہو گئی۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے شہادت مبارک ہو۔ آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اوڑھنے کی وہ چادر اس پر آگ کے شعلے برسا رہی ہے جو اس نے خیبر کے دن اس کے تقسیم ہونے سے پہلے اٹھائی تھی۔ یہ سن کر لوگ خوف زدہ ہو گئے، ایک آدمی ایک یا دوتسمے لے آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! خیبر کے دن میں نے لیے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر گئے، اللہ نے فتح عنایت فرمائی، ہمیں غنیمت میں سونا یا چاندی نہ ملا، ہمیں غنیمت میں سامان غلہ اور کپڑے حاصل ہوئے۔ پھر ایک وادی کی طرف چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا ایک غلام تھا جو جذام قبیلہ کے ایک آدمی نے آپ کو ہبہ کیا تھا، جو بنو ضبیب سے تھا، جسے رفاعہ بن زید کہتے تھے۔ جب ہم نے وادی میں پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام (مدعم نامی) آپ کا پالان کھولنے کے لیے اٹھا، اس کو ایک تیر مارا گیا جو اس کی موت کا باعث بنا۔ توہم نے کہا: اسے شہادت مبارک ہو، اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! وہ شملہ جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اٹھائی تھی، اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر لوگ خوفزدہ ہو گئے، ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے یہ خیبر کے دن ملے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کا ایک تسمہ یا آگ کے دوتسمے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 115

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازی، باب: غزوة خيبر برقم (3993) وفي الايمان والنذور، باب: هل يدخل في الايمان والنذور الأرض والغنم والزروع والا متعة برقم (6329) وابوداؤد في ((سننه)) في الجهاد، باب: في تعظيم الغلول برقم (2711) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (12916)»
   صحيح البخاري6707عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا شراك من نار أو شراكان من نار
   صحيح البخاري4234عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أصابها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا شراك أو شراكان من نار
   صحيح مسلم310عبد الرحمن بن صخرالشملة لتلتهب عليه نارا أخذها من الغنائم يوم خيبر لم تصبها المقاسم شراك من نار أو شراكان من نار
   سنن أبي داود2711عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا شراك من نار أو قال شراكان من نار
   سنن النسائى الصغرى3858عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لتشتعل عليه نارا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم586عبد الرحمن بن صخرالشملة التى اخذ يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 586  
´چوری کرنا حرام ہے`
«. . . عن أبى هريرة قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر فلم نغنم ذهبا ولا ورقا إلا الأموال المتاع والثياب . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر والے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو ہمیں مال غنیمت میں اموال (زمینیں)، اسباب اور کپڑوں کے سوا نہ سونا ملا اور نہ چاندی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 586]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6707، ومسلم 115، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے۔
➋ غزوہ خیبر سات (7) ہجری میں ہوا تھا۔
➌ بعض راویوں نے اس روایت میں غزوہ خیبر کے بجائے غزوہ حنین کا لفظ ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم
➍ چوری کرنا حرام ہے بالخصوص مال غنیمت میں سے چوری کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
➎ دلیل (قرآن و حدیث) کے بغیر کسی خاص شخص کے بارے میں جنتی ہونے کی گواہی دینا غلط ہے۔
➏ ضرورت کے وقت قسم کھانا جائز ہے بلکہ بغیر ضرورت کے بھی سچی قسم کھانا جائز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اپنی بات کی تاکید مقصود ہوتی ہے۔
➐ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ رشوت وغیرہ حرام امور کا شک و شبہ نہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 141   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4234  
´مال غنیمت میں خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے`
«. . . افْتَتَحْنَا خَيْبَرَ وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلَا فِضَّةً، إِنَّمَا غَنِمْنَا الْبَقَرَ وَالْإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يُقَالُ لَهُ: مِدْعَمٌ أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِي الضِّبَابِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ عَائِرٌ حَتَّى أَصَابَ ذَلِكَ الْعَبْدَ، فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا"، فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ فَقَالَ: هَذَا شَيْءٌ كُنْتُ أَصَبْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ . . .»
. . . جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ‘ اونٹ ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر ان کے لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4234]

لغوی توضیح:
«الْحَوَئِط» جمع ہے «حَائِط» کی، معنی ہے باغات۔
«وَادِي الْقُري» مدینہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
«سَهْمٌ عَائِرٌ» جس تیر کے مارنے والے کا پتہ نہ چلے۔
«شِرَاك» تسمہ۔

فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ (مال غنیمت میں) خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت خائن کے لیے دنیا و آخرت میں آگ اور عار ہے۔ [حسن صحيح: ابن ماجه: 2850، مسند احمد: 316/5، دارمي: 2487]
امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے: خیانت حرام ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ [نيل الأوطار 60/5]
امام نووی رحمہ اللہ نے خیانت کے کبیرہ گناہ ہونے پر اجماع نقل فرمایا ہے۔ [شرح مسلم للنوي 456/6]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 74   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2711  
´مال غنیمت میں چوری بڑا گناہ ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے سال نکلے، تو ہمیں غنیمت میں نہ سونا ہاتھ آیا نہ چاندی، البتہ کپڑے اور مال و اسباب ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القری کی جانب چلے اور آپ کو ایک کالا غلام ہدیہ میں دیا گیا تھا جس کا نام مدعم تھا، جب لوگ وادی القری میں پہنچے تو مدعم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا، اتنے میں اس کو ایک تیر آ لگا اور وہ مر گیا، لوگوں نے کہا: اس کے لیے جنت کی مبارک بادی ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2711]
فوائد ومسائل:
ملی امانتوں کا معاملہ انتہائی سخت ہے۔
بلا اجازت امیر یا بلااستحقاق کوئی معمولی چیز بھی اٹھا لینا بہت بڑے عقاب کا باعث ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2711   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 310  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَحُلُّ رَحْلَهُ:
آپ کا پالان یا کجاوا کھول رہا تھا۔
(2)
حَتْف:
موت۔
(3)
هَنِيئًا لَهُ:
اسے مبارک ہو،
اس کے لیے مسرت اور خوش گواری کا باعث ہو۔
(4)
شِّمْلَةٌ:
کھلی اوڑھنے کی چادری۔
(5)
تَلْتَهِبُ:
بھڑک رہی ہے،
شعلہ زن ہے۔
(6)
غَنَائِم:
غنیمت کی جمع،
دشمن سے جنگ کے وقت حاصل ہونے والا مال۔
(7)
مَقَاسِم:
مقسمٌ کی جمع ہے،
جو تقسیم یا بانٹنے کے معنی میں ہے۔
(8)
شِرَاكٌ:
چمڑے کا تسمہ۔
فوائد ومسائل:
تمام لوگوں کی مشترکہ چیز میں سے کسی ایک کا ان کی اجازت کے بغیر کچھ اٹھا لینا اگرچہ وہ معمولی چیز ہو انتہائی خوفناک جرم ہے،
جس کی آج کل لوگوں کو بالکل پرواہ نہیں ہے۔
مفاد عامہ کی چیزوں یا مفاد عامہ کی جگہوں پر قبضہ کرنے کی وبا عام ہوچکی ہے،
سیلاب،
زلزلہ وغیرہ آفتوں کے سلسلہ میں حاصل ہونے والی اشیاء کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر لیا جاتا ہے،
حالانکہ یہ حرکت کرنے والا شہادت کے عظیم رتبہ سے بھی محروم ہوجاتا ہے،
اس لیے ان کاموں سے بچنا ضروری ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 310   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.