الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
84. باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 479
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابو الربيع العتكي ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا معبد بن هلال العنزي . ح وحدثناه سعيد بن منصور واللفظ له، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا معبد بن هلال العنزي ، قال: انطلقنا إلى انس بن مالك ، وتشفعنا بثابت، فانتهينا إليه وهو يصلي الضحى، فاستاذن لنا ثابت، فدخلنا عليه واجلس ثابتا معه على سريره، فقال له: يا ابا حمزة، إن إخوانك من اهل البصرة يسالونك، ان تحدثهم حديث الشفاعة، قال: حدثنا محمد صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم إلى بعض، فياتون آدم، فيقولون له: اشفع لذريتك، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بإبراهيم عليه السلام، فإنه خليل الله، فياتون إبراهيم، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بموسى عليه السلام، فإنه كليم الله، فيؤتى موسى، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بعيسى عليه السلام، فإنه روح الله وكلمته، فيؤتى عيسى، فيقول: لست لها، ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم، فاوتى، فاقول: انا لها، فانطلق فاستاذن على ربي، فيؤذن لي، فاقوم بين يديه، فاحمده بمحامد لا اقدر عليه الآن يلهمنيه الله، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راس، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: رب امتي، امتي، فيقال: انطلق، فمن كان في قلبه مثقال حبة من برة او شعيرة من إيمان، فاخرجه منها، فانطلق، فافعل، ثم ارجع إلى ربي، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: امتي، امتي، فيقال لي: انطلق، فمن كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، فاخرجه منها، فانطلق، فافعل، ثم اعود إلى ربي، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعطه، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، امتي، امتي، فيقال لي: انطلق، فمن كان في قلبه، ادنى، ادنى، ادنى من مثقال حبة من خردل من إيمان، فاخرجه من النار، فانطلق، فافعل "، هذا حديث انس الذي انبانا به، فخرجنا من عنده، فلما كنا بظهر الجبان، قلنا: لو ملنا إلى الحسن، فسلمنا عليه وهو مستخف في دار ابي خليفة، قال: فدخلنا عليه فسلمنا عليه، فقلنا: يا ابا سعيد، جئنا من عند اخيك ابي حمزة، فلم نسمع مثل حديث حدثناه في الشفاعة، قال: هيه فحدثناه الحديث، فقال: هيه، قلنا: ما زادنا؟ قال: قد حدثنا به منذ عشرين سنة، وهو يومئذ جميع، ولقد ترك شيئا ما ادري انسي الشيخ او كره، ان يحدثكم فتتكلوا، قلنا له حدثنا فضحك، وقال: خلق الإنسان من عجل سورة الانبياء آية 37 ما ذكرت لكم هذا، إلا وانا اريد ان احدثكموه، ثم ارجع إلى ربي في الرابعة، فاحمده بتلك المحامد، ثم اخر له ساجدا، فيقال لي: يا محمد، ارفع راسك، وقل: يسمع لك، وسل تعط، واشفع تشفع، فاقول: يا رب، ائذن لي فيمن، قال: لا إله إلا الله، قال: ليس ذاك لك، او قال: ليس ذاك إليك، ولكن، وعزتي، وكبريائي، وعظمتي، وجبريائي، لاخرجن من قال: لا إله إلا الله "، قال: فاشهد على الحسن ، انه حدثنا به، انه سمع انس بن مالك اراه، قال: قبل عشرين سنة، وهو يومئذ جميع.
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ . ح وحَدَّثَنَاه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ، أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللَّهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الآنَ يُلْهِمُنِيهِ اللَّهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ أَوْ شَعِيرَةٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ، أَدْنَى، أَدْنَى، أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ "، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ، قُلْنَا: مَا زَادَنَا؟ قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ أَوْ كَرِهَ، أَنْ يُحَدِّثَكُمْ فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا فَضَحِكَ، وَقَالَ: خُلِقَ الإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سورة الأنبياء آية 37 مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا، إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ، أَوَ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ، وَلَكِنْ، وَعِزَّتِي، وَكِبْرِيَائِي، وَعَظَمَتِي، وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ ، أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ، قَالَ: قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً، وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ.
معبد بن ہلال عنزی نے کہا: ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ثابت (البنانی) کو اپنا سفارشی بنایا (ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی۔) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمارے لیے (اندر آنے کی) اجازت لی۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا۔ ثابت نے ان سے کہا: اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو (یہ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے۔ وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے (کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں۔) وہ کہیں گے: میں اس کے لیے نہیں ہوں۔لیکن تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل (خالص دوست) ہیں۔ لوگ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے۔ وہ جواب دیں گے: میں اس کے لیےنہیں۔ لیکن تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں (جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا) تو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضری ہو گی۔ وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں۔ لیکن تم عیسیٰ رضی اللہ عنہ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آمد ہو گی، وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں۔ لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤ، تو (ان کی) آمد میرے پاس ہو گی۔ میں جواب دوں گا: اس (کام) کے لیے میں ہوں۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت عطا کی جائے گی، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ ہی یہ (حمد) میرے دل میں ڈالے گا، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت!، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا: جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! مجھے کہا جائے گا: جائیں، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لیں۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا۔ تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! ا پنا سر اٹھائیں، کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت!تو مجھ سے کہا جائے گا: جائیں، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، اس سے (بھی) کم، اس سے (اور بھی) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا۔ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی۔ (معبدی بن ہلال عنزی نے) کہا: چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا: (کیا ہی اچھاہو) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں۔ وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نےکہا: جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا۔ ہم نے کہا: جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) کے پاس سے آرہے ہیں۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: لائیں سنائیں۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا: آگے سنائیں۔ ہم نے کہا: انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا۔ انہوں (حسن بصری) نے کہا: ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے۔انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے، معلوم نہیں، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم (اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر) بھروسا نہ کر لو۔ ہم نےعرض کی: آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا (اور کسی وجہ سے) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کےبارے میں (بھی) اجازت دیجیے جنہوں نے (صرف) لا الہ الا اللہ کہا۔ اللہ فرمائے گا: یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم، میری کبریائی، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم! میں ان کو (بھی) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا۔ معبد کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ روایت سنی۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: بیس سال پہلے، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں۔
معبد بن ہلال عنزی بیان کرتے ہیں، کہ ہم لوگ انس بن مالک ؓ کے پاس گئے اور سفارش کے لیے ثابت کو ساتھ لیا۔ تو ہم ان کے پاس اس وقت پہنچے، جب وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمیں اجازت لے کر دی، تو ہم اندر ان کے پاس گئے۔ انھوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھا لیا، تو ثابت نے ان سے عرض کیا: اے ابو حمزہ! آپ کے بصری بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں، کہ آپ انھیں شفاعت کے بارے میں حدیث سنائیں! حضرت انس ؓ نے کہا: ہمیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: جب قیامت کا دن ہوگا (گھبراہٹ کی بنا پر) لوگ ایک دوسرے میں گھسیں گے، تو (سوچ بچار کے بعد) پہلے آدمؑ کے پاس آئیں گے، اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے(کہ وہ میدانِ محشر کے مصائب سے نجات پائیں حساب کتاب شروع ہو) تو وہ جواب دیں گے: میں اس کا حق دار نہیں، لیکن تم ابراہیم ؑکے پاس جاؤ! کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ تو لوگ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے، تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا حق نہیں ہے۔ لیکن تم موسیٰؑ کے پاس جاؤ! کیونکہ انھیں اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہے۔ تو موسیٰؑ کے پاس جایا جائے گا، تو وہ فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، لیکن تم عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ! کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیؑ کے پاس جایا جائے گا، تو وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، لیکن تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! تو میرے پاس آیا جائے گا۔ تو میں جواب دوں گا: یہ میرا منصب ہے (میں اس کا اہل ہوں) میں چلوں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا، تو مجھے اجازت مل جائے گی۔ تو میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں گا اور اس کی ایسی خوبیوں سے تعریف کروں گا جن کے بیان کی اب مجھ میں قدرت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مجھے الہام کرے گا، پھر میں اس کےحضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمدؐ! اپنا سر اٹھاؤ، کہو! تیری بات سنی جائے گی۔ مانگو! دیے جاؤ گے، سفارش کرو! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں عرض کروں گا میرے رب! میری امت! میری امت! تو کہا جائے گا: جاؤ! جس کے دل میں گندم یا جَو کے دانے کے برابر ایمان ہے، تم اسے نکال کر لاؤ۔ میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا، پھر اپنے رب کی طرف لوٹوں گا اور ان ہی تعریفات و خوبیوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ! کہو! تیری بات سنی جائے گی، مانگو! دیے جاو گے۔ سفارش کرو! تمھاری سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: میری امت! میری امت! تو مجھے کہا جائے گا: جائیے! جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لائیے! تو میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا۔ پھر اپنے رب کی طرف لوٹ آؤں گا، تو ان ہی خوبیوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے! کہیے! تیری بات سنی جائے گی، مانگیے! تمھیں ملے گا، سفارش کیجیے! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو مجھے کہا جائے گا: چلیے جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، بہت ہی کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لائیے! تو میں جاؤں گا، اور یہ کام کروں گا۔ یہ حضرت انس ؓ کی روایت ہے، جو انھوں نے ہمیں سنائی، تو ہم ان کے ہاں سے نکل آئے۔ جب ہم صحراء میں آئے، تو ہم نے کہا اے کاش! ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انھیں سلام کرتے جائیں۔ اور وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر چھپے ہوئے تھے۔ ہم ان کے پاس پہنچے، انھیں سلام عرض کیا، اور ہم نے عرض کیا: اے ابو سعید! (حسن بصری کی کنیت ہے) ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انس ؓ کی کنیت ہے) کے پاس سے آ رہے ہیں، انھوں نے ہمیں شفاعت کے بارے میں جو حدیث سنائی ہے، اس جیسی حدیث ہم نے نہیں سنی۔ حسن بصری نے کہا: سنائیے! ہم نے اسے حدیث سنائی، تو اس نے کہا: آگے بیان کیجیے! ہم نے کہا: اس سے زیادہ انھوں نے ہمیں نہیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: انھوں نے یہ حدیث ہمیں بیس برس پہلے سنائی تھی، جب کہ وہ اس وقت بھر پور جوان تھے۔ (ان کے قویٰ مضبوط تھے) انھوں نے کچھ چھوڑ دیا ہے۔ میں نہیں جانتا استاد صاحب بھول گئے ہیں، یا انھوں نے تمھیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا، کہ کہیں تم اس پر بھروسہ نہ کر لو۔ (اور نیک اعمال کرنا ترک کر دو) ہم نے عرض کیا: آپ ہمیں سنا دیں! تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلد باز پیدا ہوا ہے۔ میں نے تمھارے سامنے اس کا تذکرہ اس لیے کیا ہے، کہ میں تمھیں سنانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں اپنے ربِ عز و جل کی خدمت میں چوتھی بار حاضر ہوں گا، ان ہی تعریفات سے اس کی تعریف کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو! تمھاری بات سنی جائے گی، مانگو! تمھیں ملے گا، سفارش کرو! آپ کی سفارش قبول ہوگی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کے بارے میں اجازت دیجیے، جنہوں نے صرف "لا إله إلا الله" کہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ آپ کا مقام نہیں ہے، یا آپ اس کے حق دار نہیں، لیکن میری عزت، کبریائی، میری عظمت اور میری قوت و جبروت کی قسم! میں ان کو نکال کر رہوں گا، جنھوں نے "لا إله إلا الله" کہا ہے۔ راوی کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے ہمیں بتایا، کہ اس نے حضرت انس بن مالک ؓ سے یہ روایت سنی ہے، میرا خیال ہے، اس نے کہا، بیس سال پہلے جب کہ ان کے قویٰ مجتمع تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 193

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: كلام الرب عزوجل يوم القيامة مع الانبياء، وغيرهم برقم (7510) انظر ((التحفة)) برقم (523 و 1599)»
   صحيح البخاري7410أنس بن مالكلو استشفعنا إلى ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا يأتون آدم فيقولون يا آدم أما ترى الناس خلقك الله بيده أسجد لك ملائكته علمك أسماء كل شيء اشفع لنا إلى ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناك ويذكر لهم خطي
   صحيح البخاري7516أنس بن مالكلو استشفعنا إلى ربنا فيريحنا من مكاننا هذا يأتون آدم فيقولون له أنت آدم أبو البشر خلقك الله بيده أسجد لك الملائكة علمك أسماء كل شيء فاشفع لنا إلى ربنا حتى يريحنا فيقول لهم لست هناكم فيذكر لهم خطيئته التي أصاب
   صحيح البخاري7510أنس بن مالكإذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم في بعض فيأتون آدم فيقولون اشفع لنا إلى ربك فيقول لست لها ولكن عليكم بإبراهيم فإنه خليل الرحمن فيأتون إبراهيم فيقول لست لها ولكن عليكم بموسى فإنه كليم الله فيأتون موسى فيقول لست لها ولكن عليكم بعيسى فإنه روح الله
   صحيح البخاري6565أنس بن مالكلو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا يأتون آدم فيقولون أنت الذي خلقك الله بيده نفخ فيك من روحه أمر الملائكة فسجدوا لك اشفع لنا عند ربنا فيقول لست هناكم يذكر خطيئته يقول ائتوا نوحا أول رسول بعثه الله فيأتو
   صحيح البخاري7509أنس بن مالكإذا كان يوم القيامة شفعت فقلت يا رب أدخل الجنة من كان في قلبه خردلة فيدخلون أدخل الجنة من كان في قلبه أدنى شيء
   صحيح البخاري4476أنس بن مالكلو استشفعنا إلى ربنا يأتون آدم فيقولون أنت أبو الناس خلقك الله بيده أسجد لك ملائكته علمك أسماء كل شيء اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناكم ويذكر ذنبه فيستحي ائتوا نوحا فإنه أول رسول بعثه الله
   صحيح مسلم475أنس بن مالكلو استشفعنا على ربنا حتى يريحنا من مكاننا هذا يأتون آدم فيقولون أنت آدم أبو الخلق خلقك الله بيده نفخ فيك من روحه أمر الملائكة فسجدوا لك اشفع لنا عند ربك حتى يريحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناكم فيذكر خطيئته التي أصاب فيستحيي ربه منها ول
   صحيح مسلم479أنس بن مالكإذا كان يوم القيامة ماج الناس بعضهم إلى بعض فيأتون آدم فيقولون له اشفع لذريتك فيقول لست لها ولكن عليكم بإبراهيم فإنه خليل الله فيأتون إبراهيم فيقول لست لها ولكن عليكم بموسى فإنه كليم الله فيؤتى موسى فيقول لست لها ولكن عليكم
   صحيح مسلم486أنس بن مالكآتي باب الجنة يوم القيامة فأستفتح يقول الخازن من أنت فأقول محمد فيقول بك أمرت لا أفتح لأحد قبلك
   سنن ابن ماجه4312أنس بن مالكلو تشفعنا إلى ربنا فأراحنا من مكاننا يأتون آدم فيقولون أنت آدم أبو الناس خلقك الله بيده أسجد لك ملائكته اشفع لنا عند ربك يرحنا من مكاننا هذا فيقول لست هناكم يذكر ويشكو إليهم ذنبه الذي أصاب فيستحيي من ذلك ائتوا نوحا فإنه أول رسول بعثه الله إلى أهل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 479  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
جَبَّان:
صحراء و جنگل یا قبرستان۔
(2)
ظَهْرِ الْجَبَّانِ:
جبان کے اوپر،
اس کی بلندی پر۔
(3)
هِيَهِ:
اپنی بات جاری رکھیے،
اور سنائیے۔
(4)
جَمِيعٌ:
قوت حفظ مجتمع تھے،
یعنی بڑھاپے کی بنا پر قویٰ کمزور نہیں ہوئے تھے۔
(5)
وَكِبْرِيَائِي:
میری بڑائی کی قسم۔
(6)
وَجِبْرِيَائِي:
میری قوت و غلبہ کی قسم۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 479   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.