الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر
سوانح حیات محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
علم حدیث کی طرف آپ کی توجہ اور اس کا اہتمام:
شیخ محمد ناصر الدین رحمہ الله بیس سال کی عمر میں مجلّۃ المنار میں شائع ہونے والی بحوث سے متاثر ہو کر علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ یہ مجلہ شیخ محمد رشید رضا کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ شیخ محمد مجذوب اپنی کتاب علماء و مفکّرون میں شیخ رحمہ الله سے نقل کرتے ہیں
… شیخ رحمہ الله سید رشید رضا کو ان لوگوں میں سب سے زیادہ پراثر شخص سمجھتے ہیں جنہوں نے انہیں حدیث شریف کی تعلیم کی طرف متوجہ کیا تھا۔
سید رشید رضا کے ساتھ شیخ رحمہ الله کے اس علمی تعلق کو بیان کرنے کے بعد شیخ مجذوب آپ سے روایت کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
میں پہلے عربی قصص، مثلاً ظہر و عنترۃ اور الملک سیف وغیرہ کے مطالعہ کا شوقین تھا، پھر پولینڈ کے ترجمہ شدہ قصے مثلاً کارین لوبین وغیرہ میری توجہ کا مرکز بنے۔ پھر میں تاریخی واقعات کے مطالعہ کے طرف مائل ہوا۔ اسی دوران میں نے ایک دن اپنے سامنے مجلہ المنار کا ایک شمارہ دیکھا۔ اس میں میں نے سید رشید رضا کی قلم سے تحریر شدہ ایک بحث دیکھی جس میں انہوں نے امام غزالی کی کتاب الإحیاء کے اَوصاف، محاسن اور مآخذ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ پہلی مرتبہ ایسی کوئی علمی تنقید میری نظر سے گزری تھی جس نے مجھ میں وہ پورا شمارہ پڑھنے کا جذبہ پیدا کیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اس موضوع پر مزید چھان بین کی جائے، چنانچہ حافظ عراقی کی تخریج الاحیاء دیکھی مگر اس کو خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث اس کو کرایہ پر لے لیا۔ جب میں اس کتاب کو پڑھا تو اس دقیق تخریج نے مجھے اس بات پر ابھارا کہ اس کو نقل کر لوں۔ میں نے اس کے لئے کافی جدوجہد کی۔ اس طرح مجھے ان معلومات کو ٹھیک طریقہ پر جمع کرنے کا سلیقہ آ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کام میں جو جدوجہد میں نے کی، اس نے میری ہمت افزائی کی اور اس راہ میں آگے قدم بڑھانا میرے لئے پسندیدہ اور مرغوب امر بن گیا۔ نصوص کو سمجھنے اور ان کی تخریج کے لئے میں نے لغت، بلاغت اور غریب الحدیث کی بعض مؤلفات سے بھی مدد لی تھی۔
شیخ رحمہ اللہ اپنے متعلق خود بیان کرتے ہیں کہ
بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے بےشمار نعمتوں سے نوازا ہے مگر ان میں سے دو نعمتیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ پہلی، ملک شام کی طرف میرے والد کی ہجرت کیونکہ اگر ہم البانیہ ہی میں رہتے تو عربی نہ سیکھتے جبکہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکھنے و سمجھنے کے لئے عربی زبان کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اور دوسری نعمت: میرے والد کا مجھے گھڑیوں کی مرمت کرنے کا ہنر سکھانا ہے …… اوائل شباب میں میں نے یہ ہنر سیکھا تھا لیکن ساتھ ہی ہر دن میں علم حدیث کو بھی سیکھنے کے لئے وقت نکالتا تھا۔ منگل اور جمعہ کے سوا میں ہر دن تین گھنٹے گھڑیوں کی مرمت کرتا اور اس کے ذریعہ اپنے اور اہل و عیال کے لئے ضروریات زندگی کماتا تھا۔ باقی وقت میں سے ہر دن چھ سے آٹھ گھنٹے طلب علم، تالیف، کتب حدیث، بالخصوص المکتبۃ الظاھریۃ میں موجود مخطوطات کے مطالعہ میں گزارتا تھا۔ جب ظہر، مغرب اور عشاء وغیرہ کی نماز کا وقت ہوتا تو مکتبہ ہی میں موجود مسلمان کے ساتھ نماز پڑھ لیتا تھا۔
محدث رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
حدیث پر میرا پہلا کام کتابالمغني عن حمل الأسفار فى الأسفار فى تخريج مافى الإحياء من الأخبار ازحافظ عراقی کا نقل کرنا اور اس پر تعلیقات لکھنا تھا۔ اس کے لئے میں نے ایک پروگرام وضع کیا تھا، مثلاً الإحياء میں ایک حدیث یوں لکھی ہوئی تھی:
«إن العبد لينشر له من الثناء مابين المشرق والمغرب وما يزن عند الله جناح بعوضة» حافظ عراقی رحمہ الله نے اس پر تعقباً لکھا ہے:
«وقد نقلته منه ولكني لم أجده هٰكذا، وفي الصحيحين من حديث أبى هريرة: إنه ليأتي الرجل السمين العظيم يوم القيمة لا يزن عند الله جناح بعوضة»
میں نے یہ کیا کہ صحیحین کی اس حدیث کو مکمل کیا اور اضافہ کو اصل کتاب سے نقل کیا۔ اس دن سے حدیث میرے مطالعہ کا عنوان بن گئی۔ جو چیزیں میرے لئے غور و فکر کا مرکز ہوتیں انہیں میں قوسین کے مابین لکھ لیا کرتا تھا۔ جب میں پہلی جلد کا نصف حصہ مکمل کر چکا تو ایک مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ احادیث کے اپنے اس عمل کے دوران مجھے بہت سے ایسے الفاظ سے سابقہ پڑا ہے جن کے متعلق مجھے تفقہ حاصل نہ تھا۔ بعض اوقات تو پوری حدیث کا معنی و مراد ہی میرے لئے واضح نہ ہوتی تھی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ان تمام الفاظ کی شرح بھی حاشیہ پر درج کر لوں تاکہ وہ میرے لئے مذکرہ (یاد داشت) بن جائے اور فہم حدیث میں معاون ہو۔ چنانچہ از سر نو میں نے کتاب شروع کی اور جس مغلق کلمہ پر میرا گزر ہوتا، اس کو میں غریب الحدیث لابن اثیر اور قاموس کی مدد سے حل کرتا اور حاشیہ پر اس کا معنی لکھ لیتا تھا یہاں تک کہ میرے لئے یہ معاملہ آسان ہو گیا اور اس طرح متن سے زیادہ تعلیق کی ضخامت ہو گئی۔ اس طرح یہ کتاب مکمل ہوئی۔ یہ وہ چیز تھی جس نے مجھے سب سے زیادہ نفع پہنچایا۔
علم حدیث میں شیخ رحمہ اللہ کی یہ جدوجہد ان کے لئے خیر کبیر کے راستے کھولنے کاسبب بنی اور اس فن میں ان کا اقبال بڑھا۔ سنت کے مطالعہ میں ان کے انہماک اور شدید شغف کو دیکھ کر ان کے والد خوفزدہ ہوتے اور ان سے کہا کرتے تھے: «علم الحديث صنعة المفاليس» علم حدیث تو مفلس لوگوں کا فن ہے۔ مگر انہوں نے پرواہ نہ کی۔
چونکہ شیخ رحمہ اللہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہتے تھے جو ماشاء اللہ ایک بڑا خاندان تھا لہٰذا اکثر جن کتابوں کی انہیں ضرورت ہوتی تھی اور وہ ان کے والد کے ذاتی کتب خانہ میں موجود نہ ہوتی تھیں (جو کہ بیشتر مسلک حنفی کی کتب پر ہی مشتمل تھا) شیخ انہیں خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے، لہٰذا آپ انہیں مکتبہ ظاہریہ میں تلاش کرتے تھے۔ المکتبۃ الظاھریۃ آپ کے لئے ایک نعمت کبریٰ سے کسی طرح کم نہ تھاکیونکہ جن کتابوں کو آپ خرید نہ پاتے تھے ان میں سے اکثر مکتبہ میں مل جاتی تھیں اور آپ کی ضرورت پوری کرتی تھیں۔ کبھی کبھی بعض تجارتی کتب خانے بھی آپ کی اس طرح مدد کر دیتے تھے کہ آپ کو مطلوبہ کتب بطور استعارہ، غیر محدود مدت تک بلا اجرت دے دیتے تھے۔ جب ان کتب کا کوئی خریدار دوکان پر آتا تو وہ شیخ سے کتاب واپس منگوا لیتے۔ ان مالکان کتب خانہ میں دمشق کے سید سلیم القصیباتی او ران کے فرزند عزت نیز المکتبۃ العربیۃ الھاشمیۃ کے اصحاب احمد، حمدی اور توفیق کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں، «فجز اهم الله»
کچھ عرصہ کے بعد شیخ رحمہ اللہ المکتبۃ الظاھریۃ میں بارہ بارہ گھنٹے رہنے لگے۔ اس دوران سوائے اوقات نماز کے آپ کا تمام تر وقت کتب حدیث کے مطالعہ، تحقیق اور تعلیق میں گزرتا تھا۔ اکثر اوقات آپ تھوڑا بہت کھانا مکتبہ ہی میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا یہ انہماک دیکھ کر المکتبۃ الظاھریۃ کی انتظامیہ نے آپ کے لئے ایک کمرہ مخصوص کر دیا تھا۔ جس میں آپ کی اَبحاث کے لئے ضروری اُمہاتِ مصادر کو فراہم کر دیا گیا تھا۔ ملازمین مکتبہ سے قبل آپ صبح سویرے ہی اپنے اس مخصوص کمرہ میں آ جاتے تھے اور بیشتر اوقات عشاء کی نماز پڑھ کر ہی وہاں سے گھر جایا کرتے تھے۔ بہت سے ملاقاتی مطالعہ اور تالیف میں آپ کے انہماک کے پیش نظر مکتبہ ہی میں آپ سے ملنے جایا کرتے تھے۔ آپ طبیعتاً خوشامدی یا پرمجاملت کلمات سے پرہیز کرتے تھے اور اسے ضیاع وقت کا سبب سمجھتے تھے۔ جب کوئی شخص آپ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ کتاب پر سے نظر ہٹائے بغیر ہی اس کا مختصر سا جواب دے دیا کرتے تھے۔ استاذ محمدالصباغ کے بقول: آپ کی آنکھ بیک وقت کتاب اور سائل دونوں پر ہواکرتی تھی۔


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.