الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
معجم صغير للطبراني کل احادیث 1197 :حدیث نمبر
سوانح حیات امام طبرانی رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
کچھ کتاب کے بارے میں::
یہ سب معاجم میں مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مقبول اور متداول ہے، اس کی ترتیب شیوخ کے ناموں پر ہے، اس میں انھوں نے حروفِ تہجی کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث درج کی ہے، آخر میں بعض خواتین محدثات کی بھی حدیثیں ہیں، ان کی حدیثوں کی تعداد دو ہزار بتائی گئی ہے، لیکن بعض نے ڈیڑھ ہزار بھی کہا ہے، اس کے زوائد بھی ابوالحسن ہیثمی نے علیحدہ مرتب کیے تھے، معجم صغیر کے نسخے کئی کتب خانوں میں موجود ہیں، 1311ھ میں یہ مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی ہے، اس کی بعض خصوصیات ملاحظہ ہوں:
➊ اس میں روایت اور راوی کے متعلق مختلف قسم کی تصریحات کی گئی ہیں، مثلاً حدیث کے ضعف و قوت، رفع و اتصال تفرد، شہرت اور غرابت، راویوں کے ضبط و ثقاہت یا وہم و ضعف، کنیت، نسبت، نام، لقب، قبیلہ، وطن اور بعض کے نسب نامے اور روایتوں میں فرق و اختلاف اور کمی بیشی کی تصریح کی گئی ہے، جس سنہ اور مقام پر جو روایت سنی یا لکھی گئی ہے کہیں کہیں اس کی اور بعض راویوں کی صحابیت و تابعیت کا ذکر کیا گیا ہے، بعض روایتوں کے کسی خاص لفظ یا فقرہ کے متعلق یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ وہ صرف اسی حدیث میں مذکور ہے، بعض شیوخ کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے فلاں شیخ سے کتنی حدیثیں بیان کیں یا اس نے اور کن مشہور شیوخ سے سنیں، یا اس سے کن مشہور اشخاص اور اہم راویوں نے حدیثیں روایت کی ہیں، اسی طرح اکثر راویوں کے وہ نمایاں اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن سے ان کی زیادہ شہرت ہے۔
➋ حدیث کے بارے میں اہلِ علم کے بیان کردہ مفہوم و منشاء کو ذکر کرنے کے علاوہ خود بھی کہیں کہیں اس کی مراد واضح کی ہے، اور راوی نے حدیث کے بعض الفاظ کی جو وضاحت کی ہے اس کو، اور کہیں کہیں خود بھی مشکل اور غریب الفاظ کے معنی لکھے ہیں۔
➌ امام طبرانی نے ائمہ فقہ اور محدثین کے فقہی اقوال اور آراء بھی نقل کی ہیں اور خود بعض روایتوں کی اس طرح تشریح کی ہے جن سے کسی خاص فقہی مسلک کی تائید اور وضاحت ہوتی ہے، مثلاً ایک حدیث ہے:
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا بَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ يَا بَنِيْ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ اِنْ وَلِّيْتُمْ هٰذَا الْأَمْرَ فَلَا تَمْنَعُوْا أَحَدًا طَافَ بِهٰذَا الْبَيْتِ أَنْ يُصَلِّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ وَنَهَارٍ.»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی عبد مناف، اے بنی عبدالمطلب! اگر تم اس معاملہ کے ذمہ دار بنو تو خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے کسی شخص کو رات اور دن کے کسی حصہ میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرنا۔
امام طبرانی اس کی شرح کرتے لکھتے ہیں:
«يعني الركعتين بعد الطواف السبع أن يصلي بعد صلاة الصبح قبل طلوع الشمس وبعد صلاة العصر قبل غروب الشمس وفي كل النهار.» [معجم صغير، ص: 12]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سات چکر طواف کے بعد کی دو رکعتوں سے ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد غروب سے پہلے اور اسی طرح دن کے ہر حصہ میں پڑھی جا سکتی ہیں، یعنی ممنوع و منہی عنہا اوقات میں بھی ان کو پڑھ لینے میں حرج نہیں ہے۔
➍ انھوں نے بعض حدیثوں کے متعلق شبہات کے جواب دیے ہیں، مثلاً ایک حدیث ہے:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے چار کام کیے اس کو چار چیزیں عطا کی جاتی ہیں، اس کا ذکر کتاب اللہ میں بھی ہے۔
① جس نے اللہ کو یاد کیا اللہ بھی اسے یاد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ﴾» [البقرة: 152]
پس تم مجھے یاد کرو تو میں تمہیں یاد کروں گا۔
② جس نے دعا کی اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«﴿ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾» [غافر: 60]
مجھ سے دعا کرو میں اسے قبول کروں گا۔
③ شکر کرنے والے پر الله مزید فضل و انعام کرتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
«﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾» [ابراهيم: 7]
اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نوازوں گا۔
④ جو اللہ سے استغفار کرتا ہے، اللہ اس کی مغفرت کرتا ہے، الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
«﴿اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا﴾» [نوح: 10]
اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو، بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا ہے۔
اس حدیث کے سلسلہ میں پہلے انھوں نے بعض لوگوں کے اس شبہ کا ذکر کیا ہے کہ ہم لوگ دعائیں کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں، پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ:
گویا یہ اعتراض اللہ پر ہے کیونکہ اس نے کہا ہے اور یقیناً اس کی بات برحق ہے کہ:
«﴿ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾» [غافر: 60]
مجھے پکارو! میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔
نیز:
«﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾» [البقرة: 186]
اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو (انھیں بتاؤ کہ) میں (ان کے) نزدیک ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔
مگر اس حقیقت اور مفہوم سے اہل علم اور اربابِ بصیرت ہی واقف ہو سکتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ سے مروی ہے کہ:
«مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُوْا اللّٰهَ بِدَعْوَةٍ اِلَّا اسْتَجَابَ لَهُ فَهُوَ مِنْ دَعْوَتِهِ عَلَى إِحْدَيٰ ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ يُّعَجِّلَ لَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِمَّا أَنْ تَدَّخِرَ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يَدْفَعَ عَنْهُ مِنَ الْبَلَاءِ مِثْلِهَا.» [معجم صغير، ص: 212]
جو مسلمان بھی اللہ سے دعا کرتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے، اس کی تین صورتیں ہیں، یا تو دنیا ہی میں قبولیت عطا کی جاتی ہے، یا اس کی دعا آخرت کے لیے مؤخر کی جاتی ہے اور ذخیرہ بنتی ہے، یا دعا مانگنے والے کی اس طرح کی کوئی مصیبت دفع کر دی جاتی ہے۔
معجم صغیر کے مطبوعہ ایڈیشن میں مختصر تشریحی حواشی بھی شامل ہیں جن میں نسخوں کے فرق کی توضیح کے ساتھ ساتھ اختلافِ متن کی تصحیح، راویوں کے ناموں کی تحقیق، اعراب کی تعیین، لغات کی تشریح، حدیث کے مشکل جملوں کی وضاحت، اختلافِ قرأت، ثلاثی حدیثوں کی نشاندہی اور دوسری کتبِ حدیث سے اس کی حدیثوں کی مطابقت اور غیر مطابقت اور دیگر بحثیں درج ہیں، شارح نے محدثین کے مسلک کی تائید کی ہے، مثلاً سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلوٰةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ.» [معجم صغير حواشي، ص: 22]
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ فجر اور عصر کے بعد طلوع و غروب آفتاب سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
یہ حکم بلا سبب پڑھی جانے والی نفل نمازوں کے بارے میں ہے، لیکن فوت شدہ فرائض و نوافل یا کسی وجہ سے پڑھی جانے والی نفل نمازوں کو ان وقتوں میں بھی پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے، اس کی تفصیل کے لیے مشہور محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے رسالہ «اعلام أهل العصر بأحكام ركعتي الفجر» کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ [ايضًا حواشي، ص: 22]


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.