الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند اسحاق بن راهويه کل احادیث 981 :حدیث نمبر
سوانح حیات امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
نام و نسب اور نسبت::
آپ کا نام اسحٰق، کنیت ابویعقوب اور ابن راہویہ لقب تھا، شجرۂ نسب کچھ اس طرح ہے: اسحٰق بن ابراہیم بن مخلد بن ابراہیم بن مطر بن عبیداللہ بن غالب بن عبدالوارث بن عبیداللہ بن عطیہ بن مرہ بن کعب ابن ہمام بن اسد بن مرہ بن خنظلہ بن مالک بن زید بن منات بن تمیم۔ امام اسحٰق کے والد ابراہیم شکمِ مادر ہی میں تھے کہ ان کی والدہ نے مکہ معظمہ کا سفر کیا، اسی سفر میں کسی مقام پر ان کی ولادت ہوئی، اس لیے اہلِ مرو انہیں راہوی یا راہویہ یعنی راستہ والا کہتے تھے ۱؎ ۔ عام اعراب راھویہ ہے اور کچھ نحوی و محدث راہویہ بھی پڑھتے ہیں اور نحوی اس کو سیبویہ کے وزن پر راھویہ پڑھتے ہیں۔
۱؎ [تاريخ بغداد: 347/6، 348 - تاريخ ابن عساكر: 409/2، 410 - طبقات الشافعيه: 233/1 - تاريخ ابن خلكان: 113/1 - التهذيب: 216/1]

ولادت::
ابن راہویہ بروایت صحیح 161ھ میں پیدا ہوئے، 166ھ اور 163ھ کی روایتیں بھی ملتی ہیں۔ [سير أعلام النبلاء: 358/11 - كتاب الأنساب: 56/6 - تذكرة الحفاظ: 433/2 - التاريخ الكبير: 379/1 - التاريخ الصغيرذ: 368/1 - الجرح و التعديل: 290/2 - حلية الأولياء: 234/9 - الفهرست، ص: 286 - تهذيب الكمال، ورقة: 80 - الوافي بالوفيات: 386/6 - النجوم الزاهرة: 290/2 - طبقات الحفاظ، ص: 188 - طبقات المفسرين: 102/1 - الرسالة المستطرفة، ص: 65]

خاندان و وطن::
ان کا وطن خراسان کا مشہور شہر مرو تھا لیکن انہوں نے نیشاپور میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی، [الانتقاء لابن عبدالبر، ص: 108] اس لیے مروزی اور نیشاپوری کہلاتے تھے، تمیمی اور حنظلی کی نسبتوں سے ان کا عربی النسل ہونا ظاہر ہوتا ہے۔

مشائخ کرام::
ان کے مشہور مشائخ کے نام یہ ہیں:
ابواسامہ، ابوبکر، بن عیاش، ابومعاویہ، اسباط بن محمد، اسماعیل بن علیہ، بشر بن مفضل، بقیہ بن ولید، جریر بن عبدالحمید رازی، حاتم بن اسمٰعیل، حفص بن غیاث، سفیان بن عیینہ، سلیمان بن نافع عبدی، سوید بن عبدالعزیز، شعیب بن اسحٰق، عبدالرحمٰن بن مہدی، عبدالرزاق بن ہمام، عبدالعزیز دراور دی، عبداللہ بن مبارک، عبداللہ بن وہب، عبدہ بن سلیمان، عبدالوہاب ثقفی، عقاب بن بشیر جزری، عمر بن ہارون، عیسیٰ بن یونس، غندر، فضیل بن عیاض، محمد بن بکر برسانی، محمد بن سلمہ حرانی، معاذ بن ہشام، معتمر بن سلیمان، نضر بن شمیل، وکیع بن جراح، ولید بن مسلم اور یحییٰ بن قاضح وغیرہ۔

امام اسحاق کے تلامذه::
امام اسحاق ابن راہویہ کے تلامذہ کے مختلف طبقات ہیں:
➊ ان کے بعض اساتذہ: بقیہ بن ولید، محمد بن یحییٰ ذہلی اور یحییٰ بن آدم وغیرہ۔
➋ اور معاصرین میں: احمد بن حنبل، اسحاق بن منصور کوسج، محمد بن رافع اور یحییٰ بن معین۔
➌ اور رشتہ داروں میں بیٹے محمد نے بھی استفادہ کیا ہے اور صحاح ستہ کے مصنّفین میں امام ابن ماجہ کے علاوہ سب کو ان سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ بعض اور ممتاز تلامذہ اور منتسبین کے نام حسب ذیل ہیں:
ابراہیم بن ابی طالب، احمد بن سلمہ، اسحاق بن ابراہیم نیشاپوری، جعفر فریابی، حسن بن سفیان، زکریا سجری، ابوالعباس سراج، عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی، عبداللہ بن محمد بن شیرویہ، محمد بن افلح، محمد بن نصر مروزی اور موسیٰ بن ہارون وغیرہ۔ [تاريخ بغداد: 245/6 تا 247 - ابن عساكر: 410/2 - طبقات الشافعية: 232/1 و 233 - التهذيب: 317/1]

طلب حدیث کے لیے سفر::
علامہ ابن عساکر اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کے کثرتِ سفر «(فطاف البلاد لطلب الحديث)» (حدیث کی طلب و تحصیل کے لیے مختلف شہروں میں پھرے) کہہ کر ذکر کیا ہے۔ اور خطیب نے لکھا ہے کہ حجاز، عراق، یمن اور شام وغیرہ مراکز حدیث کا سفر کیا اور بغداد میں کئی بار تشریف لائے، عراق کا سفر 23 سال کی عمر میں 184ھ میں کیا تھا۔ [تاريخ ابن عساكر: 2/ ص: 409 - التهذيب: 217/1 - تاريخ بغداد: 345/6 تا 347 - طبقات الشافعيه: 233/1]

علم و فضل کا اعتراف::
اسحاق بن راہویہ بلند پایہ اہلِ علم میں تھے، معاصرین علما اور اساطین فن ان کے فضل و کمال اور علمی عظمت و بلند پائیگی کے انتہائی معترف ہیں۔
امام احمد بن حنبل جو ان کے بڑے مداح اور قدر داں تھے، فرماتے ہیں: خراسان و عراق میں ان کا کوئی ہمسر نہیں، بغداد کے اس پُل کو ان سے زیادہ عظیم و برتر کسی آدمی نے عبورنہیں کیا، گو بعض مسائل میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے اور اہلِ علم کے درمیان تو اختلافات ہوا ہی کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ اسحاق کے صاحبزادے محمد ان کی خدمت میں حصولِ علم کے لیے حاضر ہوئے تو ارشاد ہوا کہ تمہارا اپنے والد سے وابستہ رہنا زیادہ مفید اور بہتر ہے، ان سے زیادہ پر عظمت آ دمی تمہاری آنکھوں نے نہ دیکھا ہوگا۔
محمد اسلم کہتے ہیں کہ اگر امام ثوری زندہ ہوتے تو اسحاق کے علم و فضل سے بے نیاز نہیں رہتے۔
احمد بن سعید رباطی کا قول ہے کہ ابن عیینہ اور حماد بھی ان کے محتاج ہوتے۔
محمد بن یحییٰ صفار نے سنا تو کہا کہ اگر حسن بصری زندہ ہوتے تو اکثر چیزوں میں ان کو اسحاق کی جانب رجوع کرنا پڑتا۔
ابن خزیمہ کا بیان ہے کہ اگر وہ تابعین کے زمانہ میں ہوتے تو وہ لوگ بھی ان کے علم و فضل کے معترف ہوتے۔
نعیم بن حماد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خراسانی اسحاق بن راہویہ کے علم و کمال میں کلام یا نکتہ چینی کرے تو اسے متہم فی الدین سمجھو۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں انھیں شیخ المشرق اور سید الحفاظ کہا ہے۔
سعید بن ذویب فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر اسحاق کے مانند میں نے کوئی آدمی نہیں دیکھا۔
ابویحییٰ شعرانی کا بیان ہے کہ علمی مذاکرہ کے وقت وہ یکتا اور یگانہ معلوم ہوتے تھے۔ [السير للذهبي: 358/1]
یحییٰ بن یحییٰ کا بیان ہے کہ خراسان میں علم کے دو خزانے تھے، ایک محمد بن سلام بیکندی کے پاس، دوسرا اسحاق بن راہویہ کے پاس ہے۔
حسین بن منصور بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں یحییٰ اور اسحاق کے ہمراہ ایک شخص کی عیادت کرنے گیا، جب ہم لوگ اس کے گھر گئے، پاس پہنچے تو اسحاق پیچھے ہو گئے اور یحییٰ سے کہا: پہلے آپ داخل ہوں کیونکہ آپ ہم سے عمر میں بڑے ہیں، انہوں نے کہا: بے شک میں عمر میں بڑا ہوں لیکن علم و فضل میں آپ فائق ہیں، اس لیے پہلے آپ ہی چلیں۔
حافظ ابن عبدالبر رقم طراز ہیں: وہ جلیل القدر علمائے اسلام اور نامور محدثین و حفاظ علماء میں تھے۔ [تاريخ بغداد: 349/6، 350، 351 - تاريخ ابن عساكر: 410/2، 411، 412 - تهذيب التهذيب: 218/1، 219 - طبقات الشافعيه: 334/1، 335 - الانتقاء لابن عبدالبر، ص: 108]

شرفِ امامت::
اسحاق بن راہویہ کا شمار ان ائمہ میں ہوتا ہے جو صاحبِ مذہب، فقیہ و مجتہد تھے، مگر اب ان کا فقہی اور اجتہادی مذہب مٹ چکا ہے، لیکن ایک زمانہ میں یہ بھی مسلمانوں کا معمول بہ مسلک رہا ہے۔
امام احمد اور امام نسائی ان کے متعلق فرماتے ہیں: «اِمَامٌ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ»، یعنی مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام یہ بھی ہیں۔
ایک مرتبہ امام احمد سے ان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے امام ہیں، ہمارے نزدیک شافعی، حمیدی اور اسحاق تینوں امام ہیں۔
محمد بن یحییٰ ذہلی کا بیان ہے کہ ایک دن بغداد کے مقام رصافہ میں ائمہ محدثین امام احمد اور یحییٰ بن معین وغیرہ جمع تھے لیکن مجلسِ صدارت پر اسحاق بن راہویہ رونق افروز تھے اور وہی اس مجلس کے خطیب بھی تھے۔
محمد بن نصر فرماتے ہیں: وہ ہمارے اور ہمارے مشائخ کے شیخ تھے۔
فضل شعرانی کہتے ہیں: وہ بلاشک و شبہ خراسان کے امام تھے۔
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: «أَحَدُ الْاَعْلَامِ وَعُلَمَاءِ الْإِسْلَامِ.»
علامہ ابن سبکی تحریر فرماتے ہیں: «أَحَدُ أَئِمَّةِ الدِّيْنِ وَاَعْلَامِ الْمُسْلِمِيْنَ وَهُدَاةِ الْمُؤْمِنِيْنَ.» دوسرے مؤرخین نے بھی ان کو «أَحَدُ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ أَحَدٌ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَعَلَمًا مِنْ أَعْلَامِ الدِّيْنِ.» امامِ مشرق اور عالم نیشاپور وغیرہ لکھا ہے۔ [حواله مذكوره اختلاف صفحات و تاريخ ابن خلكان: 112/1 - البداية: 317/10 - ميزان الاعتدال: 86/1 - العبر: 446/1 - مرأة الجنان: 121/2 و شذرات الذهب: 89/2]

علم حدیث میں کمال و امتیاز::
علم حدیث سے ان کو خاص تعلق تھا اور وہ اکابر محدثین اور نامور حفاظ میں شمار کیے جاتے ہیں، خلیلی کا بیان ہے کہ وہ شہنشاہِ حدیث تھے۔ حدیثوں کے نشر و اشاعت، درس و مذاکرہ، حفظ و ضبط اور حزم و احتیاط کے لیے ان کی ذات بڑی اہمیت اور شہرت رکھتی ہے، ذیل میں ان کی چند خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

حفظ و ضبط::
اسحاق بن راہویہ کا حافظہ غیر معمولی اور یاد داشت حیرت انگیز تھی، ابن حبان، خطیب بغدادی اور ابن عساکر وغیرہ نے حافظہ میں ان کی جامعیت کا اعتراف کیا ہے۔ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ اگر اسحاق تابعین کے عہد میں ہوتے تو وہ لوگ بھی ان کے حافظہ کے معترف ہوتے۔
قتیبہ بن سعید کا بیان ہے کہ خراسان کے نامور حفاظ میں اسحاق بن راہویہ اور ان کے بعد امام دارمی اور امام بخاری تھے۔
ابویحییٰ شعرانی کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہاتھ میں کبھی کتاب نہیں دیکھی، وہ ہمیشہ یاد داشت سے حدیثیں بیان کرتے تھے، ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی کوئی چیز قلمبند نہیں کی، جب بھی مجھے کوئی حدیث بیان کی گئی میں نے اسے یاد کرلیا، میں نے کسی محدث سے کوئی حدیث کبھی دوبارہ بیان کرنے کے لیے نہیں کہا، یہ کہنے کے بعد انھوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں کو اس پرتعجب ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! یہ حیرت کی بات ہی ہے، انھوں نے کہا: جس چیز کو میں ایک مرتبہ سن لیتا ہوں وہ مجھے یاد ہو جاتی ہے، ستر ہزار سے زیادہ حدیثیں ہر وقت میری نگاہ کے سامنے رہتی ہیں اور میں ان کے متعلق بتا سکتا ہوں کہ وہ کتاب میں کس جگہ ہیں؟ ابوداؤد خفاف کی روایت کے مطابق انھوں نے ایک لاکھ حدیثوں کے متعلق کہا کہ وہ میری نظر کے سامنے ہیں، میں ان کا تذکرہ کرسکتا ہوں۔ ایک دفعہ انھوں نے گیارہ ہزار حدیثیں زبانی املا کرائیں اور پھر جب دوبارہ کتاب سے ان کی قرأت کی تو ایک لفظ کی بھی کمی یا بیشی نہیں نکلی۔
احمد بن سلمہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پوری مسند کا زبانی املا کرایا۔
ابوحاتم رازی نے ابوزرعہ سے اسحاق بن راہویہ کے حفظ اسانید و متون کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ ان سے بڑا کوئی حافظِ حدیث نہیں دیکھا گیا۔
احمد بن سلمہ نے ابوحاتم کو بتایا کہ انھوں نے یاد داشت سے اپنی تفسیر کا املا کرایا ہے تو ابوحاتم نے کہا کہ یہ اور زیادہ حیرت انگیز بات ہے کیوں کہ مسند حدیثوں کا ضبط تفسیر کے اسناد و الفاظ کے ضبط کے مقابلہ میں آسان ہے۔
امیرِ خراسان عبداللہ بن طاہر نے ایک مرتبہ ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، انھوں نے فرمایا کہ اس کے متعلق سنت یہ ہے اور یہی اہلِ سنت کا قول ہے لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کی رائے اس سے مختلف ہے، ابراہیم بن ابی صالح وہاں موجود تھے۔ بولے: امیر المومنین! اسحاق غلط کہتے ہیں، امام ابوحنیفہ کا مسلک اس سے مختلف نہیں ہے، انھوں نے جواب دیا کہ مجھ کو یہ مسئلہ یاد ہے، فلاں کتاب کا فلاں جز لایئے، کتاب لائی گئی اور ابن طاہر نے اس کو الٹنا شروع کیا تو امام اسحاق نے کہا: امیر المومنین! گیارہویں ورق کی نویں سطر میں ملاحظہ فرمایئے، چنانچہ اس کے اندر وہ مسئلہ امام اسحاق کے بیان کے عین مطابق نکلا، امیر نے کہا: ہم کو معلوم تھا کہ آپ کو مسائل از بر ہیں، لیکن حافظہ کا یہ مشاہدہ ہمارے لیے یقیناً حیرت انگیز ہے۔ [تاريخ بغداد: 350/6 تا 354 - تاريخ ابن عساكر: 413/2 و 414 - طبقات الشافعيه: 234/1، 235 - تهذيب التهذيب: 217/1 - ميزان الاعتدال: 187/1 - ابن خلكان: 113/1]

ثقاہت::
اس غیر معمولی حفظ کے ساتھ اسی درجہ کی ثقاہت بھی تھی، ابوحاتم فرماتے ہیں کہ کثیر الحفظ ہونے کے باوجود امام اسحاق کا ضبط و اتقان اور غلطیوں سے محفوظ و مصئون رہنا حیرت انگیز ہے۔
خطیب بغدادی وغیرہ لکھتے ہیں کہ وہ حفظ و ثقاہت دونوں کے جامع تھے۔
علامہ ذہبی نے ان کو ثقہ و حجت بتایا ہے۔
ابن حبان نے ان کا ثقات میں ذکر کیا ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ و مامون تھے۔
امام دارمی کا بیان ہے کہ اسحاق اپنے صدق کی وجہ سے اہلِ مغرب و مشرق کے سردار بن گئے تھے۔
امام احمد کو ان کے صدق و ثقاہت پر اتنا اعتماد تھا کہ ایک دفعہ انھوں نے ان سے کوئی حدیث پوچھی، جب امام اسحاق نے اسے بیان کیا تو ایک شخص نے اعتراضاً کہا کہ وکیع نے یہی روایت اس سے مختلف طریقہ پر بیان کی ہے، امام احمد نے برافروختہ ہو کر کہا: خاموش رہو۔ جب ابویعقوب امیر المومنین فی الحدیث کوئی روایت بیان کریں تو اسے بلا تأمل قبول کر لینا چا ہیے۔ [تاريخ بغداد: 350/6، 353 - تاريخ ابن عساكر: 412/2، 413 - طبقات الشافعيه: 234/1 - التهذيب: 217/1]

حزم و احتیاط::
اس حفظ کے ساتھ اتنے محتاط تھے کہ بچپن میں انھوں نے عبداللہ بن مبارک سے حدیثیں سنی تھیں مگر ان کو روایت نہیں کرتے تھے کہ احتیاط کے خلاف ہے۔ [تاريخ بغداد: 345/6 - تاريخ ابن عساكر: 410/2]

حفاظت و اشاعتِ حدیث::
ان کی ذات سے حدیثِ نبوی کی بڑی اشاعت اور سنتِ نبوی کا بڑا احیا ہوا، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اسحاق بن راہویہ نے سنتوں کا دفاع اور مخالفینِ حدیث کا قلع قمع کیا۔
وہب بن جریر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ اسحاق، صدقہ اور یعمر کو ان کی اسلامی خدمات کا صلہ عطا فرمائے، ان لوگوں نے مشرق کی سرزمین میں حدیثوں کی اشاعت اور سنتِ نبوی کا احیا کیا۔

فقہ و اجتہاد::
حدیث کی طرح فقہ و اجتہاد کے بھی ماہر تھے، ابواسحاق شیرازی، حاکم صاحبِ مستدرک اور خطیب نے ان کو فقہ و اجتہاد میں جامع اور اکابرِ فقہا میں شمار کیا ہے، حافظ ابن کثیر نے «أحد المجتهدين من الانام» اور ابن حبان نے نامور ممتاز فقہا میں ان کا شمار کیا ہے، ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل سے ان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اسحاق کے مانند کون ہو سکتا ہے، ایسے ہی لوگوں سے مسائل دریافت کرنا چاہیے، ہم لوگ بھی ان سے فتوے پوچھتے ہیں۔ [تاريخ بغداد: 349/6، 350، 351 - تاريخ ابن عساكر: 411/2، 412 - البداية و النهاية: 317/10]
غرض فقہی حیثیت سے بھی ان کا پایہ بہت بلند تھا اور وہ مسلمہ امام اور صاحبِ مذہب فقہا میں ہیں اور متعدد علما نے ان کا محدث کے بجائے فقیہ و مجتہد ہی کی حیثیت سے ذکر کیا ہے، کتب خلاف میں ان کے اقوال و فتاویٰ اور فقہی و اجتہادی تخریجات موجود ہیں، امام ترمذی نے اپنی سنن میں اور ابن رشد مالکی نے اپنی کتاب «بداية المجتهد» میں اکثر امام احمد کے ساتھ اسحاق کے اقوال بھی نقل کیے ہیں، ایک زمانہ تک مسلمانوں میں اسحاق کا مذہب رائج رہا۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ محمد بن اسحاق امام الائمہ کے لقب سے موسوم کیے جاتے تھے، ان کے متبعين ان کے مذہب کی پیروی کرتے تھے، وہ مقلد کے بجائے خود امام مستقل اور صاحبِ مذہب تھے، بیہقی نے یحییٰ بن محمد عنبری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اصحاب حدیث کے پانچ طبقے ہیں: (1) مالکیہ۔ (2) شافعیہ۔ (3) حنبلیہ۔ (4) راہویہ اور (5) خزیمیہ۔ [اعلام الموقعين، ص: 362]

فقہی اصول اور بنیادیں::
فقہ و حدیث میں امام احمد بن حنبل اور اسحاق کا نام ساتھ لیا جاتا ہے، دونوں بزرگوں کی فقہ و اجتہاد کا دارومدار حدیث پر ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے رسالہ الانصاف میں لکھا ہے کہ ان کے مسائل کی بنیاد احادیث اور اقوالِ صحابہ پر زیادہ ہے۔
ابوحاتم سے پوچھا گیا کہ آپ کا میلان ان دونوں کی جانب زیادہ ہے، فرمایا: مجھے ان سے زیادہ پُرعظمت شخص نظر نہیں آتا، ان دونوں نے احادیث قلمبند کیں، ان کا مذاکرہ کیا اور ان پر تصنیفات کیں۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں «وفرع على السنن» یعنی ان کی فقہی تفریعات سنن و احادیث پر مبنی ہوتی ہیں لیکن امام احمد کے برخلاف ان کا میلان امام مالک کی طرف زیادہ ہے جن کا اصل ماخذ اہلِ مدینہ کے اقوال ہوتے ہیں اور امام احمد زیادہ تر آثار و روایات پر اعتماد کرتے ہیں۔
فقہ و اجتہاد میں ان کے کمال کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے امام شافعی جیسے عظیم المرتبت امام و مجتہد سے دو مرتبہ مناظرہ کیا۔
اور صالح بن احمد روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مناظرہ کے موقع پر میرے والد بھی موجود تھے، ان کا بیان ہے کہ اسحاق امام شافعی کے مقابلہ میں غالب نظر آ رہے تھے۔ [تاريخ ابن عساكر: 411/2، 412 - تهذيب التهذيب: 219/1 - تاريخ بغداد: 351/6]

عقیدہ و کلام::
اسحاق بن راہویہ اتباعِ سنت اور طریقۂ سلف کی پیروی میں نہایت متشدد تھے، اس لیے کلام و عقائد کے غیر ضروری مسائل میں بحث و تدقیق اور غور و خوض ناپسند کرتے تھے، ان کے زمانہ میں خلق قرآن کا معرکۃ الآراء مسئلہ پیش آیا، وہ بھی قرآن کو الله تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق سمجھتے تھے، احمد بن سعید رباعی کا شعر ہے:
«لم يجعل القرآن خلقا كما ...... قــد قـالـه زنـديـق نـاقــه»
اسحاق بن راہویہ نے فاسق اور زندیق شخص کی طرح قرآن کو الله تعالیٰ کی مخلوق قرارنہیں دیا۔ [تاريخ ابن عساكر: 212/2 - طبقات الشافعيه: 225/1]

زہد و ورع::
امام ابن راہویہ کے زہد و ورع کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ حدیث و فقہ اور حفظ و صدق کی طرح ورع و تقویٰ کے بھی جامع تھے، محمد بن اسلم طوسی نے ان کی وفات کے وقت فرمایا: میں نے ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾» [الفاطر: 28] یعنی اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ [تاريخ بغداد: 345/6۔ تاريخ ابن عساكر: 412/2]

وفات::
مشہور روایت کے مطابق انھوں نے 77 سال کی عمر میں بروز یکشنبہ 14 یا 15 شعبان 238ھ کو انتقال کیا، 237ھ بھی روایت کی گئی ہے، ایک شاعر کا مرثیہ کا شعر ہے:
«يـا هــــدة مـا هـــددنـا لـيـلــة الأحــد ...... فى نصف شعبان لا تنسى مدى الأبد»
جس سانحۂ عظیم سے ہم لوگ اتوار کی رات میں 15 شعبان کو دوچار ہوئے، اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ [تاريخ بغداد: 355/6 - تاريخ ابن عساكر: 414/2]

اولاد::
آپ کی اولاد میں تین صاحبزادوں کا نام ضمناً ملتا ہے:
➊ ابولحسن علی
➋ محمد،
➌ یعقوب۔

تصانیف::
علمائے طبقات و تراجم نے ان کو صاحبِ تصانیف کثیرہ لکھا ہے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ضائع ہو گئیں، جن تصنيفات کے نام معلوم ہو سکے ہیں وہ یہ ہیں:
(1) کتاب السنن فی الفقہ [الفهرست، ص: 321] اس کے نام سے موضوع ظاہر ہے۔
(2) کتاب التفسیر: علامہ سیوطی نے عہدِ تابعین کے بعد کی جن تفسیروں کو اہم اور اقوالِ صحابہ و تابعین کی جامع قرار دیا ہے، ان میں سفیان بن عیینہ اور وکیع بن جراح وغیرہ کی تفسیروں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا ہے [الاتقان: 190/2] اس کو وہ خود باقاعده مرتب و مکمل بھی کر چکے تھے اور اس کا املا بھی کرایا تھا۔
(3) مسند: یہ ان کی سب سے اہم اور مشہور تصنیف اور 6 جلدوں پر مشتمل ہے [تاریخ ابن خلکان: 113/1] حاکم نیشاپوری نے دوسرے دور کی مسانید میں امام احمد کی مسند کے ساتھ اس کا نام بھی شمار کیا ہے [المدخل في اصول الحديث، ص: 4] اس کی ترتیب و تکمیل سے بھی وہ اپنی زندگی میں فارغ ہو چکے تھے اور اپنے شاگردوں کو زبانی اور پڑھ کر اس کا املا بھی کرایا تھا، علامہ سیوطی فرماتے ہیں:
«وإسحاق يخرج امثل ما ورد عن ذالك الصحابي فيما ذكره الرازي.» [تدریب الراوی، ص: 57]
ابوزرعہ رازی کا بیان ہے کہ اسحاق ان ہی روایتوں کی تخریج کرتے تھے جو اس صحابی کی سب سے بہتر اور اچھی روایت ہوتی تھی۔
اس مسند کا ایک قلمی نسخہ علامہ سیوطی کے قلم کا لکھا ہوا جرمنی کے کتب خانہ میں موجود ہے، علامہ ذہبی نے اس کے رجال کے نقد میں ایک مستقل کتاب لکھی تھی، اس کو بھی سیوطی نے اس نسخہ کے حاشیے میں درج کیا ہے۔ [مقدمه تحفة الأحوذی، ص: 165]
صحیح بخاری سے قبل لکھی گئی کتب احادیث میں مؤطا امام مالک، مسند ابی داؤد الطیالسی اور مسند حمیدی کے بعد مسند اسحاق بن راھویہ کا مرتبہ ہے اور اس کے بعد پھر مسند احمد ہے۔ اس میں موضوع اور واھی سند سے کوئی روایت نہیں ہے، صرف صحیح، حسن اور ضعیف روایات ہیں۔ یہ مسند سوائے جلد ششم کے مرورِ زمانہ کے ساتھ ضائع ہوگئی۔ ابن حجر نے اس کی چھ جلدوں کا تذکرہ کیا ہے۔ [المطالب العالية لابن حجر: 3/1، تذكرة ذيل: 334]
محفوظ مخطوط کا آغاز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات سے ہوتا ہے اور آخر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں۔ [تذكرة: 705/2 - العبر: 129/2]
یہ چھٹی جلد ہے، اس مطبوعہ جزء میں روایات کی تعداد (980) ہے۔ صرف مسند ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی تعدادِ احادیث 543 ہے۔
(مسند اسحاق بن راہویہ) الدكتور عبدالغفور بن عبدالحق البلوشی کی تحقیق کے ساتھ پانچ اجزاء (3 جلدوں) میں مکتبۃ الایمان، المدینہ المنورہ سے 1991ء بمطابق 1412ھ میں چھپی۔
(مسند اسحاق بن راہویہ، مسند ابن عباس) محمد مختار ضرار المفتی کی تحقیق کے ساتھ ایک جلد میں دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، سے 2002ء بمطابق 1423ھ میں چھپی۔


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.