الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 122]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت قریب قریب ہے باب قائم فرمایا کہ جب پوچھا جائے کہ کون بڑا عالم ہے تو جواباً مفتی کو یہی فرمانا چاہیے کہ اللہ جانتا ہے لہٰذا حدیث میں موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمانا یہی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے علم کی نسبت اپنے لیے فرمائی، لہٰذا ان کو علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے تھی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی عالم سے جب «اي الناس اعلم» کا سوال کیا جائے تو «انا اعلم» کہنا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ اس کا اس وقت میں «اعلم الناس» ہونا محقق ہو، بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس جواب میں «الله اعلم» کہے۔ چنانچہ حدیث باب سے یہ امر روشن ہے۔‏‏‏‏ [الأبواب والتراجم. ص 57]

سابقہ باب «الخروج فى طلب العلم» میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ذکر فرمائے کہ جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ «هل تعلم احدا اعلم منك؟» کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بڑا کوئی اور عالم ہے؟ اور مذکورہ باب کے تحت یہ الفاظ وارد ہیں «انا اعلم»، لہٰذا یہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي لا مخالفة بينهما» کہ میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص199]

فائدہ نمبر
فتوی کے آداب اور ان مسائل پر کئی پہلو سے گفتگو کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
➊ الشیخ حامد العمادی الدمشقی کی کتاب صلاح العالم بافتاء العالم
➋ فتاویٰ ابن الصلاح
الفتاویٰ المصریۃ للعز بن عبدالسلام
➍ فتاویٰ النووی
➍ فتاوی شمس الدین الرملی

نوٹ:
صلاۃ الرغائب سے متعلق ابن الصلاح اور العز بن عبدالسلام کے درمیان جو اختلاف رائے ہوا تھا وہ بھی تاریخی شہرت کا حامل ہے امام سبکی نے طبقات الشافیعۃ الکبرى میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا۔

فائدہ نمبر
مذکورہ واقعہ سیدنا موسیٰ و خضر علیہما السلام کا ہے بعض لاعلم طبقہ خضر علیہ السلام کو حیات سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں یہ فاسد اور باطل نظریہ قرآن و سنت سے دور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہ! تمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري رقم الحديث 116]
↰ لہٰذا اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بھی کوئی زمین پر زندہ تھا وہ انتقال کر گیا ہے۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے اور آپ کی معیت میں جہاد کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دوران فرمایا تھا۔
«اللهم ان تهلك هذه العصابة لا تعبد فى الارض»
اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو گی۔
↰ یہ جماعت تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ ان کے ناموں کی مع ولدیت و قبیلہ فہرست موجود ہے جو معروف ہے۔ مگر اس میں خضر علیہ السلام کا نام تک نہیں۔

خضر علیہ السلام کی حیات کے دلائل کا تجزیہ:
خضر علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خضر علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ ان کی عمر کو دراز کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دارقطنی نے اس کو «دواد بن جراح عن مقاتل بن سليمان عن الضحاك» کے طریق سے روایت کیا ہے۔
دؤاد بن جراح ضعیف مقاتل متروک ہے ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں سنا۔
↰ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے۔ [الاصابة، ص429]

سيدنا على رضى الله عنه سے ملاقات:
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کعبہ کا غلاف پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا: «يا من لايشغله سمع عن سمع» اس روایت کے آخر میں ہے وہ کہہ رہا تھا جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔
◈ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن ہروی مجہول ہے، دوسرا راوی عبداللہ بن محرز یا محرر متروک ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں نے اس کی حدیث چھوڑ دی تھی۔
◈ ابن مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری اس سے ملاقات ہوئی ہے میرے نزدیک اس سے تو بکری کی مینگنی زیادہ محبوب ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج1، ص140]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خضرعلیہ السلام کی تعزیت:
مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ جمع تھے۔ ایک خوبرو سفید داڑھی والا آدمی داخل ہوا، روایت کے آخری الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص خضر علیہ السلام ہے۔ [المستدرک الحاکم ج3 ص55]
↰ مذکورہ بالا روایت میں عباد بن عبدالصمد ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سخت ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے۔
◈ ابن عدی فرماتے ہیں ضعیف اور غالی شیعہ تھا۔ تفصيل كے لئے ديكهيے: [ميزان الاعتدال، ج2، ص269]
↰ ان روایات کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو خضر علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرتی ہیں مگر وہ تمام روایات ضعیف، منقطع اور ناقابل حجت ہیں۔

فائدہ نمبر
مذکورہ بالا حدیث میں علم کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بطور غرض علم کے، آپ سفر پر نکلے اور کوئی بعید نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علم کے لیے سفر کرنے کے جواز پر اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جیسا کہ سابقہ باب «خروج فى طلب العلم» میں ثابت فرمایا۔ سلف میں ان گنت ایسے واقعات معروف ہیں جن سے طلب علم کے سفر کو اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ چند واقعات نظر قرطاس ہیں:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے آپ نے ایک مہینہ کا مشقت کے ساتھ سفر کیا صرف ایک حدیث کی خاطر۔ [الرحلة للخطيب ص 109، ابن عاصم فى السنة رقم 514]
➋ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (المتوفی80ھ) نے ایک حدیث میں شک کے ازالہ کے لیے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جس کے لیے آپ نے مصر کا سفر طے کیا۔ [حسن المحاضرة فى اخبار المصروالقاهرة، ج1، ص86]
➌ سیدنا عبدللہ بن فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے مدینہ طیبہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ تشریف لے گئے ہیں، جب وہ مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ طائف پہنچے اور ان سے حدیث حاصل کی اور واپس روانہ ہو گئے۔ [المستدرك، ج1 ص257، وقال الذهبي صحيح]
➍ سیدنا سعید المسیب رحمہ اللہ (المتوفی94ھ) کا بیان ہے کہ میں صرف ایک حدیث کے لیے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ [معرفت علوم الحديث، ص8]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی 105ھ) جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے خصوصی شاگرد تھے اور محدث و فقیہ بھی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں چودہ سال سرگردان رہا، آخر اس کا علم ہوا تو اطمینان نصیب ہوا۔ [فتح القدير ج1 ص4]
➏ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث کی خاطر مدینہ سے مصر تک سفر کیا جس کی مسافت ایک ماہ بنتی ہے۔ [مسند حميدي ج1 ص189]
➐ عبید اللہ بن عدی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کے لیے مدینہ طیبہ سے عراق تک کا سفر کیا جو ایک ماہ تک کی مسافت کا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص175]
1171

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.