حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 12  
´کافروں سے جہاد کب کیا جائے گا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَق الْإِسْلَام وحسابهم على الله. إِلَّا أَنَّ مُسْلِمًا لَمْ يَذْكُرْ» إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَام " . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز ادا کریں اور زکوۃ دیں۔ جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے جان و مال کو بچا لیا، اسلامی حق کے علاوہ ان کا حساب اللہ کےذمہ ہے . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 12]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 25]،
[صحيح مسلم 129]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کلمہ شہادت «لا اله الا الله محمد رسول الله» کی گواہی دینے کے بعد، نماز اور زکوٰۃ، دین اسلام کے دو انتہائی اہم ارکان ہیں۔ ان ارکان کی ادائیگی کے بعد ہی لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہ سکتے ہیں، ورنہ ان کے خلاف بزور طاقت جہاد کیا جائے گا۔
➋ اسلام کے احکام ظاہر پر مبنی ہیں، اگر کسی شخص نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا اور بظاہر ارکان اسلام پر عمل پیرا ہوا، نواقض اسلام کا ارتکاب نہیں کیا تو اسے دنیا میں اہل اسلام کے تمام حقوق حاصل ہوں گے، اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اگر باطن میں وہ کافر و منافق ہوا تو قیامت کے دن یہ ظاہری اسلام اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ ديكهئے: [مشكوة مترجم ج 1 ص 124 مع فوائد غزنويه، بتصرف يسير]
«امرت» مجھے حکم دیا گیا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے سوا، کوئی حکم دینے والا نہیں ہے۔
➍ اس حدیث میں نماز سے مراد فرض نماز ہے۔ امام مالک و امام شافعی رحمہما اللہ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ جان بوجھ کر، کسی شرعی عذر کے بغیر فرض نماز ترک کرنے والے کو، اس کی حد میں قتل کیا جائے گا۔ جبکہ امام احمد کی طرف منسوب ہے کہ اس تارک نماز کو کفر اور ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور اس آخری قول کے استدلال میں نظر ہے۔ دیکھئے: [مرعاة المفاتيح 59/1]
➎ بحق الاسلام سے مراد تمام وہ امور ہیں، جن کی سزا اسلام میں قتل ہے، مثلاً:
① شادی شدہ زانی کا سنگسار ہونا
② قتل کا بدلہ قتل: قصاص
③ مسلمان کا مرتد ہو جانا، وغیرہ جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➏ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان حاکم کو اجازت ہے کہ وہ مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرے، اور اسی طرح اس پر یہ لازم ہے کہ توحید کے ساتھ ساتھ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ قائم کرے۔
➐ اس حدیث میں مرجیہ فرقے پر رد ہے، جو کہ اعمال کو ایمان میں داخل نہیں سمجھتے۔
«أقاتل الناس» سے مراد «أقاتل المشركين» ہے جیسا کہ صحیح روایت سے واضح ہے۔ دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 92/3، وسنده صحيح، والسنن المجتبيٰ للنسائي 75/7 ح 3971، وعلقه البخاري 393 بعضه]
➒ اس حدیث کے بعد صحیح مسلم میں ہے: «من قال لا الا اله ا الله وكفر بما يعبد من دون الله، حرم ماله و دمه و حسابه على الله» جس شخص نے «لا اله الا الله» کا اقرار کیا اور غیر اللہ کی عبادت سے انکار کیا تو اس کا مال اور خون (بہانا) حرام ہے۔ اس کا حساب اللہ پر ہے۔ [130، 23/37] معلوم ہوا کہ کفر و شرک سے انکار رکن ایمان ہے۔
25

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.