حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 46  
´اسلام کے بعض اوصاف`
«. . . ‏‏‏‏عَن عَمْرو بن عبسة قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - [21] - فَقُلْتُ يَا رَسُول الله من تبعك عَلَى هَذَا الْأَمْرِ قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ قُلْتُ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ طِيبُ الْكَلَامِ وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ قُلْتُ مَا الْإِيمَانُ قَالَ الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ قَالَ قُلْتُ أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ قَالَ قُلْتُ أَيُّ الْإِيمَانِ أَفْضَلُ قَالَ خُلُقٌ حَسَنٌ قَالَ قُلْتُ أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ قَالَ طُولُ الْقُنُوتِ قَالَ قُلْتُ أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ قَالَ أَنْ تَهْجُرَ مَا كره رَبك عز وَجل قَالَ قلت فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ مَنْ عُقِرَ جَوَادُهُ وَأُهْرِيقَ دَمُهُ قَالَ قُلْتُ أَيُّ السَّاعَاتِ أَفْضَلُ قَالَ جَوف اللَّيْل الآخر . . .»
. . . سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! شروع اسلام میں آپ کے ساتھ اس امر دین پر کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آزاد (ابوبکر) اور ایک غلام (بلال)۔ پھر میں نے عرض کیا۔ اسلام کیا ہے (یعنی اسلام کی کیا نشانی ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاکیزہ کلام اور لوگوں کو کھانا کھلانا۔ میں نے کہا: ایمان کیا ہے (یعنی ایمان کی کیا نشانی ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر کرنا اور سخاوت کرنا یعنی بری باتوں سے بچنا۔ اور اطاعت الہیٰ پر مستعد رہنا۔ (اس کے بعد) میں نے دریافت کیا کہ کون سا اسلام افضل ہے (یعنی مسلمانوں میں کون مسلمان سب سے بہتر ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ و سالم رہیں۔ میں نے کہا: ایمان کی سب سے بہتر بات کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خلق۔ میں نے کہا: نماز میں سب سے اچھی چیز کیا ہے؟ فرمایا: دیر تک کھڑا رہنا۔ میں نے کہا: کون سی ہجرت بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کی ناپسندیدہ چیزوں کو چھوڑ دو۔ میں نے عرض کیا کون سا مجاہد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا گھوڑا جنگ میں مارا جائے اور خود اس کا بھی خون گرا دیا جائے۔ (یعنی وہ شہید ہو جائے۔) میں نے کہا: رات دن میں کون سی گھڑی بہتر ہے (یعنی کون سا وقت سب وقتوں سے بہتر ہے)؟ آپ نے فرمایا: آدھی رات کا آخری حصہ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 46]

تحقیق وتخریج:
اس کی سند ضعیف ہے۔
اسے امام احمد کے علاوہ ابن ماجہ [2794 مختصراً جداً] اور عبد بن حمید [المنتخب: 300 مطولاً] نے «حجاج بن دينار عن محمد بن ذكوان عن شهر بن حوشب عن عمرو بن عبسه» (رضی اللہ عنہ) کی سند سے روایت کیا ہے۔
یہ سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ محمد بن ذکوان المصری الازدی: ضعیف ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 5871]
➋ یہ سند منقطع ہے۔ ابوحاتم الرازی نے فرمایا کہ شہر بن حوشب نے عمرو بن عبسہ سے (کچھ) نہیں سنا۔ [كتاب المراسل لابن ابي حاتم ص89]
یہی بات ابوزرعہ الرازی نے بھی فرمائی ہے۔

تنبیہ:
➊ راقم الحروف نے «تسهيل الحاجة فى تحقيق سنن ابن ماجه» میں ابن ماجہ والی مختصر روایت «أي الجهاد أفضل؟ قال: من أهريق دمه وعقر جواده» کو شواہد کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ [سهيل الحاجة قلمي ص22 ح2794] کیونکہ سنن ابی داود [1449] میں اس متن کا ایک حسن (لذاتہ) شاہد ہے۔

تنبیہ:
➋ سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسلام کے ابتدائی دور میں آئے اور اسلام قبول کر کے چلے گئے تھے، پھر اسلام کے غلبے اور جہاد کی برکات کے بعد مدینہ تشریف لائے۔ محمد بن ذکوان راوی نے اپنے ضعف کی وجہ سے روایت کا متن گڈمڈ کر دیا ہے، جس میں بالکل ابتدائی دور میں جہاد اور نماز وغیر کا ذکر کر دیا ہے۔

تنبیہ:
➌ جس روایت کا ضعیف ہونا ثابت ہو جائے تو پھر اس کے فوائد وفقہ الحدیث لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
28

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.