الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 129  
´نماز ظہر کا وقت ایک مثل تک`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: وقت الظهر إذا زالت الشمس وكان ظل الرجل . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور نماز عصر کے وقت کے آغاز تک رہتا ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 129]

لغوی تشریح:
«كِتَابُ الصَّلَاةِ» صلاۃ کے لغوی معنی دعا کے ہیں اور اصطلاح شرع میں معروف عبادت کو کہتے ہیں۔
«بَابُ الْمَوَاقِيتِ» «مَوَاقِيت»، میقات کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ وقے محدود ہے جو کسی کام کے لیے مقرر کیا ہو، بلحاظ زمان یا مکان۔ یہاں اس سے مراد نمازوں کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ کا مقرر و متعین فرمایا ہوا وقت ہے۔
«إِذَا زَالَت الشَّمْسُ» جب سورج زوال پذیر ہو، یعنی آسمان کے عین درمیان سے مغرب کی جانب ڈھل جائے۔
«وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ» اور انسان کا سایہ اپنے قد کے برابر ہو، یعنی ظہر کا وقت تب تک رہتا ہے جب تک کہ ہر چیز کا سایہ اصل، چیز کے قد کے برابر ہو جائے۔
«مَالَمْ يَحْضُرُ الْعَصر» جب تک نماز عصر کا وقت نہ ہو جائے، یعنی آدمی کا اصلی سایہ اس کے قد کے برابر ہونے کے ساتھ عصر کا وقت شروع نہ ہو جائے۔
«اَلشَّفَقُ» غروب آفتاب کے بعد افق آسمان پر جو سرخی نمودار ہوتی ہے۔
«إِلَيٰ نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ» یہاں لفظ «اَلْأَوْسَطِ» «نِصْفِ اللَّيْلِ» کی صفت بن رہا ہے اور اس سے مراد رات کا پہلا نصف ہے۔ اس پہلے نصف حصے کو اوسط (درمیانے) سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ رات کو دو حصوں میں تقسیم کریں تو پہلا نصف حصہ رات کے وسط اور درمیان پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا رات کے پہلے نصف حصے تک نماز عشاء کا وقت رہتا ہے۔
«نَقِيَّةٌ» «فعلية» کے وزن پر صاف ستھرا کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی ایسا صاف شفاف جس میں زرد رنگ کی آمیزش نہ ہو۔
«مُرْتَفِعَةٌ» آسمان میں بلند وبالا ہو اور مغرب کی جانب مائل نہ ہو۔ حدیث بالا میں نماز کی ادائیگی کے اوقات بیان کیے گئے ہیں۔ نماز عشاء کا آخری وقت کون سا ہے؟ اس میں مختلف آراء ہیں۔ جمہور علماء کہتے ہیں کہ یہ طلوع فجر تک ہے۔ اور اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے اس سے مراد مختار وقت ہے اور بعض کا یہ بھی قول ہے کہ آدھی رات کو عشاء کی نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ظہر کا وقت ایک مثل تک ثابت ہوتا ہے، اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ائمہ ثلاثہ: امام شافعی، امام مالک، امام احمد کے علاوہ امام ابویوسف اور امام زفر رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ایک روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بھی اسی طرح ہے لیکن ان کی طرف جو مشہور روایت منسوب ہے وہ دو مثل کی ہے۔
➋ علمائے احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس روایت کو قبول کیا ہے مگر کسی صحیح مرفوع حدیث سے دو مثل تک ظہر کا وقت ثابت نہیں۔
➌ بہتر یہی ہے کہ نماز ظہر ایک مثل کے درمیان ہی میں ادا کر لی جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد قاضی ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی فیصلہ ہے۔
➍ اس حدیث میں مذکور ایک مسئلہ شفق کا بھی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد افق آسمان پر نمودار ہونے والی سرخی کے فوراً بعد جو سفیدی ظاہر ہوتی ہے شفق سے وہ مراد ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب شمس سے ساتھ افق آسمان پر نمایاں ہوتی ہے۔ قرین قیاس بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔
➎ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دو سینگوں میں طلوع ہوتا ہے اور وہ آفتاب پرستوں کا مخصوص وقت ہے۔ اسی طرح عین غروب شمس کے وقت بھی نماز شروع نہیں کرنی چاہیے۔
➏ اس حدیث سے اوقات صلوات خمسہ بھی معلوم ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے اول اور آخر وقت یہی ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے۔
➐ رہا یہ مسئلہ کہ دھوپ کے زردی مائل ہو جانے کے بعد عصر کا وقت اور آدھی رات کے بعد عشاء کا وقت رہتا بھی ہے یا نہیں؟ اس حدیث سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ مختار وقت نہیں رہتا۔ سورج کے زرد ہونے کے بعد نماز پڑھنے والے کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بریدہ بن حصیب نام ہے۔ بریدہ اور حصیب دونوں تصغیر کے ساتھ ہیں۔ قبیلہ اسلم سے ہونے کی وجہ سے اسلمی کہلائے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے دوران میں اس قبیلے کے پاس سے گزرے تو اس موقع پر جو تقریباً 80 آدمی مسلمان ہوئے ان میں یہ بھی شامل تھے۔ غزوہ احد کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بصرہ کی طرف چلے گئے تھے، پھر وہاں سے خراسان کی جانب جہاد کے لیے نکل گئے اور مرہ میں قیام پذیر ہوئے۔ وہیں 62 یا 63 ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور تدفین عمل میں آئی۔
(سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) ان سے مراد عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زبید اور عدن پر عامل مقرر ہوئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ کوفہ اور بصرہ کے والی مقرر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں تستر فتح ہوا اور دیگر بہت سے شہر بھی انہوں نے فتح کیے۔ 42 ہجری میں وفات پائی۔ اس کے علاوہ بھی سنِ وفات منقول ہے۔
398

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.