مولانا داود راز رحمہ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 12  
´ہر مسلمان کو سلام کرنا`
«. . . أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ . . .»
. . . ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 12]

تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «توكل الطعام» کی بجائے «تطعم الطعام» فرمایا۔ اس لیے کہ «اطعام» میں کھانا کھلانا، پانی پلانا، کسی چیز کا چکھانا اور کسی کی ضیافت کرنا اور علاوہ ازیں کچھ بطور عطا بخشش کرنا وغیرہ یہ سب داخل ہیں۔ ہر مسلمان کو سلام کرنا خواہ وہ آشنا ہو یا بیگانہ، یہ اس لیے کہ جملہ مومنین باہمی طور پر بھائی بھائی ہیں، وہ کہیں کے بھی باشندے ہوں، کسی قوم سے ان کا تعلق ہو مگر اسلامی رشتہ اور کلمہ توحید کے تعلق سے سب بھائی بھائی ہیں۔ «اطعام» «طعام» مکارم مالیہ سے اور اسلام مکارم بدنیہ سے متعلق ہیں۔ گویا مالی وبدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس لیے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عبادات داخل اسلام ہیں اور اسلام و ایمان نتائج کے اعتبارسے ایک ہی چیز ہے اور یہ کہ جس میں جس قدربھی مکارم اخلاق بدنی و مالی ہوں گے، اس کا ایمان و اسلام اتنا ہی ترقی یافتہ ہو گا۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ان کا یہ قول سراسر ناقابل التفات ہے۔

اس روایت کی سند میں جس قدر راوی واقع ہوئے ہیں وہ سب مصری ہیں اور سب جلیل القدر ائمہ اسلام ہیں۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اسی کتاب الایمان میں آگے چل کر ایک اور جگہ لائے ہیں۔ اور باب الاستیذان میں بھی اس کو نقل کیا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کو کتاب الایمان میں نقل کیا ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے باب الادب میں اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب الاطعمہ میں۔

غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا اسلام میں ایک مہتم بالشان نیکی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں جنتی لوگوں کے ذکرمیں ہے «ويطعمون الطعام على حبه مسكينا و يتيما و اسيرا» [الدهر: 8] نیک بندے وہ ہیں جو اللہ کی محبت کے لیے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں بھوک و تنگ دستی کا اتنا مقابلہ کیا جائے کہ کوئی بھی انسان بھوک کا شکار نہ ہو سکے اور سلامتی وامن کو اتنا وسیع کیا جائے کہ بدامنی کا ایک معمولی سا خدشہ بھی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام کا یہ مشن خلفائے راشدین کے زمانہ خیرمیں پورا ہوا اور اب بھی جب اللہ کو منظور ہو گا یہ مشن پورا ہو گا۔ تاہم جزوی طور پر ہر مسلمان کے مذہبی فرائض میں سے ہے کہ بھوکوں کی خبر لے اور بدامنی کے خلاف ہر وقت جہاد کرتا رہے۔ یہی اسلام کی حقیقی غرض و غایت ہے۔
❀ اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی ٭ یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
693

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.