مولانا داود راز رحمہ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 596  
´جس نے وقت نکل جانے کے بعد قضاء نماز لوگوں کے ساتھ جماعت سے پڑھی`
«. . . عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَاءَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ: " مَا صَلَّيْتُهَا، فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ " . . . .»
. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک مرتبہ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ:: 596]

تشریح:
جنگ خندق یا جنگ احزاب 5 ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گو یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ہی سے پڑھی ہو گی۔ اور اسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«(قوله ماكدت) لفظه كاد من افعال المقاربة فاذا قلت كادزيد يقوم فهم منه انه قارب القيام ولم يقم كما تقرر فى النحو والحديث يدل على وجوب قضاءالصلوٰة المتروكة لعذر الاشتغال بالقتال وقد وقع الخلاف فى سبب ترك النبى صلى الله عليه وسلم واصحابه لهذه الصلوٰة فقيل تركوها نسيانا وقيل شغلوا فلم يتمكنوا وهو الاقرب كما قال الحافظ وفي سنن النسائي عن ابي سعيد ان ذلك قبل ان ينزل الله فى صلوٰة الخوف فرجالاً اوركباناً وسياتي الحديث وقد استدل بهذا الحديث على وجوب الترتيب بين الفوائت المقضية والموداة الخ۔» [نيل الاوطار، ج2ص: 31]
یعنی لفظ «كاد» افعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم «كاد زيد يقوم» (یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو) بولو گے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب تو ہوا مگر کھڑا نہ ہو سکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کر سکے۔

حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انہوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ مگر امام شوکانی کی وضاحت اور حدیث کا سیاق وسباق بتلا رہا ہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کر سکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرما رہے ہیں کہ «فتوضاء للصلوٰة وتوضاء نالها» کہ آپ نے بھی وضو کیا اور ہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔

یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ و جہاد کی مشغولیت یا اور کسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاء واجب ہے اور اس میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض۔۔۔ کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اور بعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اور یہی درست معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے۔ اور نسائی میں حضرت سعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نماز ادا کر لی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔
746

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.