مولانا داود راز رحمہ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 49  
´شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے `
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يُخْبِرُ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ:" إِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَإِنَّهُ تَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمُ، الْتَمِسُوهَا فِي السَّبْعِ وَالتِّسْعِ وَالْخَمْسِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے (وہ کون سی رات ہے) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ (تو اب ایسا کرو کہ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 49]

تشریح:
اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔

شب قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہر سال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام بار بار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبوی میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشر حدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد 5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی و عبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔

خشیت ربانی کا یہ عالم تھا کہ احتساب قیامت کے ذکر پر چیخ مار کر بےہوش ہو جاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بےہوش ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تو نے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہو گا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشاد ہو گا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہو جائے، وہ ہو گیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ کہے گا کہ الٰہ العالمین میں تو تیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہو گا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع و جری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہو گیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے انہیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ [ترمذی، ابواب الزہد]

شوق عبادت، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گزار دیتے۔ آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا تو فرمایا کہ اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آ گئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد محبت تھی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شاندار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ [مسلم، جلد: 2]

قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جا کر کہا کہ تو نے «ربا» حلال کر دیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہو گی۔

لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یا تو یہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہگزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یا یہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہو گیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کر کے کہا، واہ واہ! ابوہریرہ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھا کر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے تو سواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحاً خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آ رہی ہے۔

بڑے مہمان نواز اور سیر چشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے تو غرور سے حالت اور ہو جاتی ہے مگر اللہ نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھا دیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ (رضی اللہ عنہ)
769

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.