حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
تمام کتب میں
28 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 15433 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 4958 --- ‏‏‏‏ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ہمیشہ مغرب والے (یعنی عرب یا شام والے) حق پر غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو گی ۔ “
Terms matched: 3  -  Score: 130  -  1k
حدیث نمبر: 10 --- حکم البانی: صحيح... ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ نصرت الٰہی سے بہرہ ور ہو کر حق پر قائم رہے گا ، مخالفین کی مخالفت اسے (اللہ کے امر یعنی :) قیامت تک کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 3  -  Score: 125  -  1k
حدیث نمبر: 7 --- حکم البانی: حسن صحيح... ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہنے والا ہو گا ، اس کی مخالفت کرنے والا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 3  -  Score: 125  -  1k
حدیث نمبر: 6 --- حکم البانی: صحيح... قرہ بن ایاس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل رہے گی ، اور جو اس کی تائید و مدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 3  -  Score: 125  -  1k
حدیث نمبر: 2192 --- حکم البانی: صحيح ، ابن ماجة ( 6 ) ... قرہ بن ایاس المزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب ملک شام والوں میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی ، میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد سے حاصل رہے گی ، اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس باب میں عبداللہ بن حوالہ ، ابن عمر ، زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمرو ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- محمد بن اسماعیل بخاری نے کہا کہ علی بن مدینی نے کہا : ان سے مراد اہل حدیث ہیں ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 3  -  Score: 125  -  2k
حدیث نمبر: 3641 --- ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا ، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر ہیں گے ۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبل ؓ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں ۔ امیر معاویہ ؓ نے کہا کہ دیکھو یہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں ، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ ؓ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں ۔
Terms matched: 3  -  Score: 125  -  3k
حدیث نمبر: 4952 --- ‏‏‏‏ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، باقی حدیث مروان کی حدیث کی طرح ہے ۔
Terms matched: 3  -  Score: 70  -  1k
حدیث نمبر: 7312 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے انہیں حمید نے خبر دی ، کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے سنا ، وہ خطبہ دے رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے یا (آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے ۔
Terms matched: 3  -  Score: 49  -  3k
حدیث نمبر: 527 --- ‏‏‏‏ حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ میں سعید بن جبیر کے پاس تھا ۔ انہوں نے کہا کہ تم میں سے کس نے اس ستارہ کو دیکھا جو کل رات کو ٹوٹا تھا ۔ میں نے کہا : میں نے دیکھا کہ میں کچھ نماز میں مشغول نہ تھا (اس سے یہ غرض ہے کہ کوئی مجھ کو عابد ، شب بیدار نہ خیال کرے) بلکہ مجھے بچھو نے ڈنگ مارا تھا (تو میں سو نہ سکا ، اور تارہ ٹوٹتے ہوئے دیکھا) ، سیدنا سعید ؓ نے کہا : پھر تو نے کیا کیا ؟ میں نے کہا : منتر کرایا میں نے ۔ انہوں نے کہا : تو نے منتر کیوں کرایا ؟ میں نے کہا : اس حدیث کی وجہ سے جو شعبی رحمہ اللہ نے ہم سے بیان کی انہوں نے کہا : شعبی رحمہ اللہ نے کون سی حدیث بیان کی ؟ میں نے کہا : انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی ؓ سے ، انہوں نے کہا : کہ منتر نہیں فائدہ دیتا مگر نظر کیلئے ، یا ڈنگ کیلئے (یعنی بدنظر کے اثر کو دور کرنے کیلئے یا بچھو اور سانپ وغیرہ کے کاٹے کیلئے مفید ہے) سعید نے کہا جس نے جو سنا اور اس پر عمل کیا تو اچھا کیا لیکن ہم سے تو سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے حدیث بیان کی انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ۔ آپ ﷺ فرماتے تھے : ”میرے سامنے پیغمبروں کی امتیں لائی گئیں ۔ بعض پیغمبر ایسے تھے کہ ان کی امت کے لوگ دس سے بھی کم تھے اور بعض پیغمبر کے ساتھ ایک یا دو ہی آدمی تھے اور بعض پیغمبر کے ساتھ ایک بھی نہ تھا ۔ اتنے میں ایک بڑی امت آئی ۔ میں سمجھا کہ یہ میری امت ہے مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ ہیں اور ان کی امت ہے ، تم آسمان کے کنارے کو دیکھو ، میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے ، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اب دوسرے کنارے کی طرف دیکھو ، دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے ۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ ہے تمہاری امت اور ان لوگوں میں ستر ہزار آدمی ایسے ہیں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے ۔ “ پھر آپ ﷺ کھڑے ہو گئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے تو لوگوں نے گفتگو کی ان لوگوں کے بارے میں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے ۔ بعض نے کہا : شاید وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ، بعض نے کہا : نہیں شاید وہ لوگ ہیں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ، بعض نے کہا : کچھ اور ۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا : ”تم لوگ کس چیز میں بحث کر رہے ہو ؟ “ انہوں نے آپ ﷺ کو خبر دی ۔ تب آ...
Terms matched: 2  -  Score: 235  -  9k
حدیث نمبر: 3454 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 894... سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : سیدنا سلمان فارسی ؓ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانی یوں بیان کیا ، وہ کہتے ہیں : میں اصبہان کا ایک فارسی باشندہ تھا ، میرا تعلق ان کی ایک جیی نامی بستی سے تھا ، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا ۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انہوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کر دیا ، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے ۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جدوجہد سے کام لیا ، حتیٰ کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اسے بجھنے نہ دیتا تھا ۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائیداد تھی ، انہوں نے ایک دن ایک عمارت (‏‏‏‏کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا : بیٹا ! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائیداد (‏‏‏‏تک نہیں پہنچ پاؤں گا) ، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ ۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید چند (‏‏‏‏ احکام بھی) صادر کئے تھے ۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا ، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا ، میں نے ان کی آوازیں سنیں وہ نماز ادا کر رہے تھے ۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے ۔ (‏‏‏‏بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا ۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کے دین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا : بخدا ! یہ دین اس (‏‏‏‏مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا : اس دین کی بنیاد کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : شام میں ۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا ، (‏‏‏‏چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انہوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا ۔ میں اس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (‏‏‏‏طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا) ۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا : بیٹا ! آپ کہاں تھے ؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی ؟ میں نے کہا : ابا جان ! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا ، وہ گرجا گھر می...
Terms matched: 2  -  Score: 225  -  49k
حدیث نمبر: 2718 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 894... سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : سیدنا سلمان فارسی ؓ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانی یوں بیان کیا ، وہ کہتے ہیں : میں اصبہان کا ایک فارسی باشندہ تھا ، میرا تعلق ان کی ایک جیی نامی بستی سے تھا ، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا ۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انہوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کر دیا ، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے ۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جدوجہد سے کام لیا ، حتیٰ کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اسے بجھنے نہ دیتا تھا ۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائیداد تھی ، انہوں نے ایک دن ایک عمارت (‏‏‏‏کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا : بیٹا ! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائیداد (‏‏‏‏تک نہیں پہنچ پاؤں گا) ، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ ۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید چند (‏‏‏‏ احکام بھی) صادر کئے تھے ۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا ، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا ، میں نے ان کی آوازیں سنیں وہ نماز ادا کر رہے تھے ۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے ۔ (‏‏‏‏بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا ۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کے دین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا : بخدا ! یہ دین اس (‏‏‏‏مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا : اس دین کی بنیاد کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : شام میں ۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا ، (‏‏‏‏چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انہوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا ۔ میں اس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (‏‏‏‏طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا) ۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا : بیٹا ! آپ کہاں تھے ؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی ؟ میں نے کہا : ابا جان ! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا ، وہ گرجا گھر می...
Terms matched: 2  -  Score: 225  -  50k
حدیث نمبر: 3695 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ میں مدت سے آرزو رکھتا تھا کہ سیدنا عمر ؓ سے ان دو بیبیوں کا حال پوچھوں نبی ﷺ کی بیبیوں میں سے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : « إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا » (۶۶-التحریم : ۴) کہ ” اگر تم توبہ کرو اللہ تعالیٰ کی طرف تو تمہارے دل جھک رہے ہیں ۔ “ یہاں تک کہ حج کیا انہوں نے اور میں نے بھی ان کے ساتھ پھر جب ہم ایک راہ میں تھے سیدنا عمر ؓ راہ سے کنارے ہوئے ۔ اور میں بھی ان کے ساتھ کنارے ہوا ۔ پانی کی چھاگل لے کر اور حاجت سے فارغ ہوئے اور پھر میرے پاس آئے ۔ اور میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہوں نے وضو کیا اور میں نے کہا : اے امیرالمؤمنین ! وہ کون سی دو عورتیں ہیں نبی ﷺ کی بیبیوں میں سے جن کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ « إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا » ”اگر توبہ کرو تم اللہ کی طرف تو تمہارے دل جھک رہے ہیں ۔ “ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا : بڑے تعجب کی بات ہے اے ابن عباس ! (یعنی اب تک تم نے یہ کیوں نہ دریافت کیا) زہری نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو ان کا نہ پوچھنا اتنی مدت ناپسند ہوا اور یہ ناپسند ہوا کہ اتنے دن کیوں اس سوال کو چھپا رکھا پھر فرمایا کہ وہ حفصہ اور عائشہ ؓ ن ہیں ، پھر لگے حدیث بیان کرنے اور کہا کہ ہم گروہ قریش کے ایک ایسی قوم تھے کہ عورتوں پر غالب رہتے تھے ، پھر جب مدینہ میں آئے تو ایسے گروہ کو پایا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب تھیں ۔ سو ہماری عورتیں ان کی خصلتیں سیکھنے لگیں اور میرا مکان ان دنوں بنی امیہ کے قبیلہ میں تھا مدینہ کی بلندی پر سو ایک دن میں نے اپنی بیوی پر کچھ غصہ کیا سو وہ مجھے جواب دینے لگی ۔ اور میں نے اس کے جواب دینے کو برا مانا تو وہ بولی کہ تم میرے جواب دینے کو برا مانتے ہو اور اللہ کی قسم ہے کہ نبی ﷺ کی بیبیاں ان کو جواب دیتی ہیں اور ایک ایک ان میں کی آپ ﷺ کو چھوڑ دیتی ہے کہ دن سے رات ہو جاتی ہے ۔ سو میں چلا اور داخل ہوا حفصہ پر اور میں نے کہا : کہ تم جواب دیتی ہو رسول اللہ ﷺ کو ۔ انہوں نے کہا : ہاں اور میں نے کہا : محروم ہوئیں تم میں سے جس نے ایسا کیا اور بڑے نقصان میں آئی کیا تم میں سے ہر ایک ڈرتی اس سے کہ اللہ اس پر غصہ کرے اس کے رسول کے غصہ دلانے سے اور ناگہاں وہ ہلاک ہو جائے (اس سے قوت ایمان سیدنا عمر ؓ کی ...
Terms matched: 2  -  Score: 218  -  22k
حدیث نمبر: 4622 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ ؓ کے پاس گئیں رمضان المبارک کے مہینہ میں ۔ عبداللہ بن رباح ؓ نے کہا : (جو ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں اس حدیث کو) ہم میں سے ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتا تو ابوہریرہ ؓ اکثر ہم کو بلاتے اپنے مقام پر ، ایک دن میں نے کہا : میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو ابوہریرہ ؓ سے ملا اور کہا : آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا : تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا ۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا : ہاں پھر میں نے ان سب کو بلایا ۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا : اے انصار کے گروہ ! میں تمہارے باب میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں ، پھر انہوں نے ذکر کیا مکہ کے فتح کا ۔ بعد اس کے کہا : رسول اللہ ﷺ آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے تو ایک جانب پر زبیر کو بھیجا اور دوسری جانب پر خالد بن ولید ؓ کو (یعنی ایک کو میمنہ پر اور ایک کو میسرہ پر) اور ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں ۔ وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ ﷺ ایک ٹکڑے میں تھے ۔ آپ ﷺ نے مجھ کو دیکھا تو فرمایا : ”ابوہریرہ ۔ “ ”میں نے کہا : حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”نہ آئے میرے پاس مگر انصاری“ اور فرمایا ”انصار کو پکارو میرے لیے“ کیونکہ آپ ﷺ کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی ۔ آپ ﷺ نے ان کا پاس رکھنا مناسب جانا ۔ پھر وہ سب آپ ﷺ کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھا کیے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو دیدیں گے ہم سے جو مانگا جائے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم دیکھتے ہو قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو ۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر بتلایا (یعنی مارو مکہ کے کافروں کو اور ان میں سے ایک کو نہ چھوڑو) اور فرمایا : ”تم ملو مجھ سے صفا پر ۔ “ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا : پھر ہم چلے جو کوئی ہم میں سے کسی کو مارنا چاہتا (کافروں میں سے) وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا ، یہاں تک کہ ابوسفیان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ قریش کا گروہ تباہ ہو گیا ۔ اب آج سے قریش نہ رہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جو شخص ابو...
Terms matched: 2  -  Score: 211  -  14k
حدیث نمبر: 454 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے ، کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کہا : یا رسول اللہ ! کیا ہم دیکھیں گے اپنے پروردگار کو قیامت کے دن ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہاں دیکھو گے ۔ تم کو کچھ تکلیف ہوتی ہے سورج کو دیکھنے میں دوپہر کے وقت جب کھلا ہوا ہو اور ابر نہ ہو ؟ تم کو کچھ تکلیف ہوتی ہے چاند کے دیکھنے میں چودھویں رات کو جب کھلا ہوا ہو اور ابر نہ ہو ؟ “ انہوں نے کہا نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا ”بس تم کو اتنی ہی تکلیف ہو گی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے میں قیامت کے دن جتنی چاند اور سورج کے دیکھنے میں ہوتی ہے جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا ہر ایک گروہ ساتھ ہو جائے اپنے اپنے معبود کے پھر جتنے لوگ سوا اللہ کے اور کسی کو پوجتے تھے جیسے بتوں کو اور تھانوں کو ، ان میں سے کوئی نہ بچے گا ، سب کے سب آگ میں گریں گے اور باقی رہ جائیں گے وہی لوگ جو اللہ کو پوجتے تھے نیک ہوں یا بد مسلمانوں میں سے اور کچھ اہل کتاب میں سے ، پھر یہودی بلائے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا تم کس کو پوجتے تھے ؟ وہ کہیں گے : ہم پوجتے تھے عزیر علیہ السلام کو جو اللہ کے بیٹے ہیں ان کو جواب ملے گا ۔ تم جھوٹے تھے اللہ جل جلالہ نے نہ کوئی بی بی کی ، نہ اس کا بیٹا ہوا ۔ اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے : اے رب ہمارے ! ہم پیاسے ہیں ۔ ہم کو پانی پلا ۔ حکم ہوگا جاؤ پیو ، پھر وہ ہانک دیئے جائیں گے جہنم کی طرف ، ان کو ایسا معلوم ہو گا جیسے سراب اور وہ شعلے ایسے مار رہا ہو گا ۔ گویا ایک کو ایک کھا رہا ہے وہ سب گر پڑیں گے آگ میں بعد اس کے نصاریٰ بلائے جائیں گے اور ان سے سوال ہو گا تم کس کو پوجتے تھے ؟ وہ کہیں گے : ہم پوجتے تھے مسیح علیہ السلام کو جو اللہ کے بیٹے ہیں ، ان کو جواب ملے گا تم جھوٹے تھے ۔ اللہ جل جلالہ کی نہ کوئی بیوی ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے ۔ پھر ان سے کہا جائے گا اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے اے رب ! ہم پیاسے ہیں ہم کو پانی پلا ۔ حکم ہو گا جاؤ پھر وہ سب ہانکے جائیں گے جہنم کی طرف گویا وہ سراب ہو گا ۔ اور لپٹ کے مارے وہ آپ ہی آپ ایک ایک کو کھاتا ہو گا ۔ پھر وہ سب گر پڑیں گے جہنم میں یہاں تک کہ جب کوئی باقی نہ رہے گا ۔ سوا ان لوگوں کے جو اللہ کو پوجتے تھے نیک ہوں یا بد ، اس وقت مالک سارے جہان کا ان کے پاس آئے گا ۔ ایک ایسی صورت میں جو مشابہ نہ ہو گی اس صورت سے جس کو وہ...
Terms matched: 2  -  Score: 203  -  25k
حدیث نمبر: 1942 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خوف کے وقت ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے تھا پھر یہ گروہ چلا گیا اور دشمن کے آگے گروہ اول کی جگہ کھڑا ہوا اور گروہ اول آیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکعت ادا کی ۔ پھر نبی ﷺ نے سلام پھیرا اور ہر گروہ نے ایک ایک رکعت اپنی الگ الگ ادا کر لی ۔
Terms matched: 2  -  Score: 200  -  2k
حدیث نمبر: 5669 --- حکم البانی: صحيح موقوف... عبدالرحمٰن بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان ؓ کو کہتے ہوئے سنا : شراب سے بچو ، کیونکہ یہ برائیوں کی جڑ ہے ، تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں ایک شخص تھا جو بہت عبادت گزار تھا ، اسے ایک بدکار عورت نے پھانس لیا ، اس نے اس کے پاس ایک لونڈی بھیجی اور اس سے کہلا بھیجا کہ ہم تمہیں گواہی دینے کے لیے بلا رہے ہیں ، چنانچہ وہ اس کی لونڈی کے ساتھ گیا ، وہ جب ایک دروازے میں داخل ہو جاتا (لونڈی) اسے بند کرنا شروع کر دیتی یہاں تک کہ وہ ایک حسین و جمیل عورت کے پاس پہنچا ، اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور شراب کا ایک برتن ، وہ بولی : اللہ کی قسم ! میں نے تمہیں گواہی کے لیے نہیں بلایا ہے ، بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ تم مجھ سے صحبت کرو ، یا پھر ایک گلاس یہ شراب پیو ، یا اس لڑکے کو قتل کر دو ، وہ بولا : مجھے ایک گلاس شراب پلا دو ، چنانچہ اس نے ایک گلاس پلائی ، وہ بولا : اور دو ، اور وہ وہاں سے نہیں ہٹا یہاں تک کہ اس عورت سے صحبت کر لی اور اس بچے کا خون بھی کر دیا ، لہٰذا تم لوگ شراب سے بچو ، اللہ کی قسم ! ایمان اور شراب کا ہمیشہ پینا ، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ، البتہ ان میں سے ایک دوسرے کو نکال دے گا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 191  -  4k
حدیث نمبر: 2746 --- ‏‏‏‏ ابوقتادہ ؓ نے روایت کی کہ ایک شخص آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اور عرض کیا کہ آپ کیونکر رکھتے ہیں روزہ ؟ اس پر آپ ﷺ غصہ ہو گئے (یعنی اس لیے کہ یہ سوال بے موقع تھا ۔ اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیونکر رکھوں) پھر جب سیدنا عمر ؓ نے آپ ﷺ کا غصہ دیکھا تو عرض کرنے لگے : « رَضِينَا بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ غَضَبِ اللَّہِ وَغَضَبِ رَسُولِہِہم » ”راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر ، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے ۔ “ غرض سیدنا عمر ؓ بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ غصہ آپ ﷺ کا تھم گیا پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا ۔ “ پھر کہا جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ایسی طاقت کس کو ہے ۔ یعنی اگر طاقت ہو تو خوب ہے پھر کہا : جو ایک دن روزہ رکھے ایک دن افطار کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہ روزہ ہے داؤد علیہ السلام کا ، پھر کہا : جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو ۔ “ یعنی یہ خوب ہے اگر طاقت ہو پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تین روزے ہر ماہ میں اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک یہ ہمیشہ کا روزہ ہے یعنی ثواب میں اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورے کے روزہ سے امید رکھتا ہوں ایک سال اگلے کا کفارہ ہو جائے ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 185  -  6k
حدیث نمبر: 2240 --- حکم البانی: صحيح ، الصحيحة ( 481 ) ، تخريج فضائل الشام ( 25 ) ... نواس بن سمعان کلابی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا ، تو آپ نے (اس کی حقارت اور اس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دوران گفتگو) آواز کو بلند اور پست کیا حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے ، پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے واپس آ گئے ، (جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا : ” کیا معاملہ ہے ؟ “ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے (اس کی حقارت اور سنگینی بیان کرتے ہوئے) اپنی آواز کو بلند اور پست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے ۔ آپ نے فرمایا : ” دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں ، اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود ہوں تو میں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا ، اور اگر وہ نکلے اور میں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا ، اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (جانشیں) ہے ، دجال گھونگھریالے بالوں والا جوان ہو گا ، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہو گی تو ان میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ، پس تم میں سے جو شخص اسے پا لے اسے چاہیئے کہ وہ سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا ، اللہ کے بندو ! ثابت قدم رہنا “ ۔ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہو گی ؟ آپ نے فرمایا : ” چالیس دن ، ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا ، ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہو گا ، ایک دن ہفتہ کے برابر ہو گا اور باقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے “ ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابر ہو گا کیا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہو گی ؟ آپ نے فرمایا : ” نہیں بلکہ اس کا اندازہ کر کے پڑھنا “ ۔ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے (اور وہ بارش کو نہایت تیزی سے پورے علاقے میں پھیلا دیتی ہے) ، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا ، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اور اس کی بات رد کر دیں گے ، ...
Terms matched: 2  -  Score: 179  -  20k
حدیث نمبر: 2468 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ عمر ؓ سے نبی کریم ﷺ کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا ہے « إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما‏ » ” اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں ۔ “ پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا ۔ عمر ؓ راستے سے قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں بھی ان کے ساتھ (پانی کا ایک) چھاگل لے کر گیا ۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے ۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا ۔ اور انہوں نے وضو کیا ، پھر میں نے پوچھا ، یا امیرالمؤمنین ! نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ « إن تتوبا إلى اللہ‏ » ” تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو “ انہوں نے فرمایا ، ابن عباس ! تم پر حیرت ہے ۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ ( ؓ ) ہیں ۔ پھر عمر ؓ میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے ۔ آپ نے بتلایا کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا ۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا ۔ ہم دونوں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی ۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں ۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا ۔ (اور ان کو سناتا) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے ۔ ہم قریش کے لوگ (مکہ میں) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے ۔ لیکن جب ہم (ہجرت کر کے) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں ۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا ۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے ۔ قسم اللہ کی ! نبی کریم ﷺ کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں ۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہو گا وہ بہت بڑے نقصان...
Terms matched: 2  -  Score: 177  -  27k
حدیث نمبر: 1554 --- حکم البانی: صحيح... سہل بن ابی حثمہ ؓ نماز خوف کے سلسلہ میں کہتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو گا ، اور اس کے لشکر میں سے ایک گروہ اس کے ساتھ کھڑا ہو گا ، اور ایک گروہ دشمن کے سامنے رہے گا ، ان کے چہرے دشمن کی طرف ہوں گے ، پھر امام ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھے گا ، اور ایک رکوع اور دو سجدے وہ خود سے اپنی جگہوں پر کریں گے ، اور ان لوگوں کی جگہ میں چلے جائیں گے ، پھر وہ لوگ آئیں گے ، تو امام ان کے ساتھ (بھی) ایک رکوع اور دو سجدے کرے گا ، تو (اس طرح) اس کی دو رکعتیں ہوں گی ، اور ان لوگوں کی ایک ہو گی ، تو پھر یہ لوگ ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے کریں گے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 173  -  2k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 Next >>


Search took 0.221 seconds