حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
تمام کتب میں
28 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 15433 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 7162 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جنت میں کچھ لوگ جائیں گے جن کے دل چڑیوں کے سے ہیں ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  1k
حدیث نمبر: 523 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میری امت میں سے ستر ہزار آدمی جنت میں جائیں گے ان سے بعض کی صورت چاند کی طرح چمکتی ہو گی ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  1k
حدیث نمبر: 521 --- ‏‏‏‏ اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  1k
‏‏‏‏ سورۃ الکہف میں لفظ « مصرفا‏ » بمعنی لوٹنے کی جگہ کے ہے ۔ سورۃ الجن میں لفظ « صرفنا‏ » کا معنی متوجہ کیا ، بھیج دیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  1k
حدیث نمبر: 1570 --- حکم البانی: صحيح... ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطاب ؓ کی اولاد کے پاس تھی ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا جیسے وہ تھی ، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا ، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا : ” جب ایک سو اکیس (۱۲۱) اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک سو انتیس (۱۲۹) تک تین (۳) بنت لبون واجب ہیں ، جب ایک سو تیس (۱۳۰) ہو جائیں تو ایک سو انتالیس (۱۳۹) تک میں دو (۲) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں ، جب ایک سو چالیس (۱۴۰) ہو جائیں تو ایک سو انچاس (۱۴۹) تک دو (۲) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں ، جب ایک سو پچاس (۱۵۰) ہو جائیں تو ایک سو انسٹھ (۱۵۹) تک تین (۳) حقہ ہیں ، جب ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہو جائیں تو ایک سو انہتر (۱۶۹) تک چار (۴) بنت لبون ہیں ، جب ایک سو ستر (۱۷۰) ہو جائیں تو ایک سو اناسی (۱۷۹) تک تین (۳) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں ، جب ایک سو اسی (۱۸۰) ہو جائیں تو ایک سو نو اسی (۱۸۹) تک دو (۲) حقہ اور دو (۲) بنت لبون ہیں ، جب ایک سو نوے (۱۹۰) ہو جائیں تو ایک سو ننانوے (۱۹۹) تک تین (۳) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں ، جب دو سو (۲۰۰) ہو جائیں تو چار (۴) حقے یا پانچ (۵) بنت لبون ، ان میں سے جو بھی پائے جائیں ، لے لیے جائیں گے “ ۔ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں ، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے ، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی ، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصول کرنے والا خود چاہے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 342  -  6k
حدیث نمبر: 2457 --- حکم البانی: صحيح... انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓ نے انہیں یہ لکھ کر دیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے ، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے ، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے ۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے ۔ اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے ، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے ۔ اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے ۔ اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے ، جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو ، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اس میں پچہتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے ، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو اس میں نوے تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں ، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کودانے کے قابل ہو گئی ہوں ، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی ہے ، اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے ۔ اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (مثلاً) جس شخص پر چار برس کی اونٹنی کی زکاۃ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی ، اور وہ اس کے ساتھ میں دو بکریاں بھی دیدے ۔ اگر وہ اسے میسر ہوں ورنہ بیس درہم دے ۔ اور جسے زکاۃ میں تین برس کی اونٹنی دینی ہو ۔ اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے گی ، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم دے یا دو بکریاں واپس دیدے ، اور جسے تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور یہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم دے ، اور جسے زکاۃ میں دو سال کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس صرف تین سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور عامل زکاۃ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے ، اور جسے دو برس کی اونٹنی دینی ہو ، اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی نہ ہو صرف ایک برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول ک...
Terms matched: 1  -  Score: 316  -  11k
حدیث نمبر: 1799 --- حکم البانی: حسن... ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ، اور چار میں کچھ نہیں ہے ، جب پانچ اونٹ ہو جائیں تو نو تک ایک بکری ہے ، جب دس ہو جائیں تو چودہ تک دو بکریاں ہیں ، اور جب پندرہ ہو جائیں تو ۱۹ تک تین بکریاں ہیں ، اور جب بیس ہو جائیں تو ۲۴ تک چار بکریاں ہیں ، اور جب پچیس ہو جائیں تو ۳۵ تک بنت مخاض (ایک سال کی اونٹنی) ہے ، اور اگر ایک سال کی اونٹنی نہ ہو تو ایک ابن لبون (دو سال کا ایک اونٹ) ہے ، اور اگر ۳۵ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو ۴۵ تک بنت لبون (دو سال کی ایک اونٹنی) ہے ، اور اگر ۴۵ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو ساٹھ تک حقہ (تین سال کی ایک اونٹنی) ہے ، اور اگر ۶۰ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو ۷۵ تک جذعہ (چار سال کی ایک اونٹنی) ہے ، اور اگر ۷۵ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو ۹۰ تک دو بنت لبون (دو سال کی دو اونٹنیاں) ہیں ، اور اگر ۹۰ سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو ۱۲۰ تک دو حقہ (تین سال کی دو اونٹنیاں) ہیں ، پھر ہر پچاس میں ایک حقہ (تین سال کی ایک اونٹنی) ، اور ہر چالیس میں بنت لبون (دو سال کی ایک اونٹنی) ہے “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 314  -  4k
حدیث نمبر: 2449 --- حکم البانی: صحيح... انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓ نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں ، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے ، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے ، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے : پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے ، اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے ، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے ، اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے ، اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو چھیالیس سے ساٹھ اونٹ تک میں تین برس کی اونٹنی (یعنی جو ان اونٹنی جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو) ہے ، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اکسٹھ سے پچہتر اونٹوں تک میں چار برس کی اونٹنی ہے ، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو چھہتر سے نوے اونٹوں تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں ، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس اونٹوں تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کے کودانے کے قابل ہو گئی ہوں ۔ اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی ایک اونٹنی ۔ اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے ، اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (یعنی زکاۃ کے لائق اونٹ نہ ہو ، اس سے بڑا یا چھوٹا ہو) مثلاً جس شخص پر چار برس کی اونٹنی لازم ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو ، تین برس کی اونٹنی ہو ۔ تو تین برس کی اونٹنی ہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور وہ ساتھ میں دو بکریاں بھی دے ۔ اگر اسے بکریاں دینے میں آسانی و سہولت ہو ، اور اگر دو بکریاں نہ دے سکتا ہو تو بیس درہم دے ۔ اور جس شخص کو تین برس کی اونٹنی دینی پڑ رہی ہو ، اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی نہ ہو ، چار برس کی اونٹنی ہو تو چار برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی ۔ اور عامل صدقہ (یعنی زکاۃ وصول کرنے والا) اسے بیس درہم واپس کرے گا ۔ یا اسے بکریاں دینے میں آسانی ہو تو دو بکریاں دے ۔ اور جس کو تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور تین برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے ، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں اور دے ، اگر یہ اس کے لیے آسان ہو ،...
Terms matched: 1  -  Score: 307  -  13k
حدیث نمبر: 7511 --- ‏‏‏‏ سیدنا صہیب ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا ۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں میرے پاس کوئی لڑکا بھیج میں اس کو جادو سکھلاؤں ۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا ، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا ۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا (نصرانی درویش یعنی پادری تارک الدنیا) وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھتا اور اس کا کلام سنتا ۔ اس کو بھلا معلوم ہوتا ۔ جب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو مارتا ۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا ۔ راہب نے کہا : جب تو جادوگر سے ڈرے تو یہ کہہ دیا کر میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھ کو روک رکھا تھا ۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ ناگاہ ایک بڑے قد کے جانور پر گزرا جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک دیا تھا ۔ لڑکے نے کہا کہ آج دریافت کرتا ہوں جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے ۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا : الہیٰ ! اگر راہب کا طریقہ تجھ کو پسند ہو جادوگر کے طریقہ سے تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ چلیں پھریں ۔ پھر اس کو مارا اس پتھر سے وہ جانور مر گیا اور لوگ چلنے پھرنے لگے ۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا ۔ وہ بولا : بیٹا ! تو مجھ سے بڑھ گیا مقرر تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو قریب آزمایا جائے گا پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا ۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا ۔ یہ حال بادشاہ کے ایک مصاحب نے سنا وہ اندھا ہو گیا تھا وہ بہت سے تحفے لے کر لڑکے کے پاس آیا اور کہنے لگا : یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھ کو اچھا کر دے ۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو اچھا نہیں کرتا ، اچھا کرنا تو اللہ کا کام ہے ۔ اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں وہ تجھ کو اچھا کر دے گا ۔ وہ مصاحب اللہ پر ایمان لایا ۔ اللہ نے اس کو اچھا کر دیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے کہا : تیری آنکھ کس نے روشن کی ؟ مصاحب بولا : میرے مالک نے ۔ بادشاہ نے کہا : میرے سوا تیرا کون م...
Terms matched: 1  -  Score: 279  -  18k
حدیث نمبر: 2661 --- ہم سے ابوربیع ، سلیمان بن داؤد نے بیان کیا ، امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث کے بعض مطالب مجھ کو امام احمد بن یونس نے سمجھائے ، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا ، ان سے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے وہ قصہ بیان کیا جب تہمت لگانے والوں نے ان پر پر تہمت لگائی لیکن اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اس سے بری قرار دیا ۔ زہری نے بیان کیا (کہ زہری سے بیان کرنے والے ، جن کا سند میں زہری کے بعد ذکر ہے) تمام راویوں نے عائشہ ؓ کی اس حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا تھا ، بعض راویوں کو بعض دوسرے راویوں سے حدیث زیادہ یاد تھی اور وہ بیان بھی زیادہ بہتر طریقہ پر کر سکتے تھے ۔ بہرحال ان سب راویوں سے میں نے یہ حدیث پوری طرح محفوظ کر لی تھی جسے وہ عائشہ ؓ سے بیان کرتے تھے ۔ ان راویوں میں ہر ایک کی روایت سے دوسرے راوی کی تصدیق ہوتی تھی ۔ ان کا بیان تھا کہ عائشہ ؓ نے کہا رسول اللہ ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے ۔ جس کے نام کا قرعہ نکلتا ، سفر میں وہی آپ ﷺ کے ساتھ جاتی ۔ چنانچہ ایک غزوہ کے موقع پر ، جس میں آپ ﷺ بھی شرکت کر رہے تھے ، آپ ﷺ نے قرعہ ڈلوایا اور میرا نام نکلا ۔ اب میں آپ ﷺ کے ساتھ تھی ۔ یہ واقعہ پردے کی آیت کے نازل ہونے کے بعد کا ہے ۔ خیر میں ایک ہودج میں سوار رہتی تھی ، اسی میں بیٹھے بیٹھے مجھ کو اتارا جاتا تھا ۔ اس طرح ہم چلتے رہے ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا ۔ میں یہ حکم سنتے ہی اٹھی اور لشکر سے آگے بڑھ گئی ۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو کجاوے کے پاس آ گئی ۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو میرا ظفار کے کالے نگینوں کا ہار موجود نہیں تھا ۔ اس لیے میں وہاں دوبارہ پہنچی (جہاں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی) اور میں نے ہار کو تلاش کیا ۔ اس تلاش میں دیر ہو گئی ۔ اس عرصے میں وہ اصحاب جو مجھے سوار کراتے تھے ، آئے اور میرا ہودج اٹھا کر میرے اونٹ پر رکھ دیا ۔ وہ یہی سمجھے کہ میں اس میں بیٹھی ہوں ۔ ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ، بھاری بھر کم نہیں ۔ گوشت ان میں زیادہ نہیں رہتا تھا کیونکہ بہت معمولی غذا ...
Terms matched: 1  -  Score: 268  -  44k
حدیث نمبر: 2954 --- حکم البانی: ( قول عدي بن حاتم : أتيت ... الحديث ) حسن ، ( قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال فذكر الحديث بطوله ) صحيح ( قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال فذكر الحديث بطوله ) تخريج الطحاوية ( 811 ) ... عدی بن حاتم ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے ، لوگوں نے کہا : یہ عدی بن حاتم ہیں ، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا ، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا ۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ ” مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا “ ۔ عدی کہتے ہیں : آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے ، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی ، ان دونوں نے عرض کیا : ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے ۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی ۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے اپنے گھر آ گئے ۔ ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا ، جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا ، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی ، پھر فرمایا : ” (بتاؤ) تمہیں « لا إلہ إلا اللہ » کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے ؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو ؟ “ میں نے کہا : نہیں ، آپ نے کچھ دیر باتیں کیں ، پھر فرمایا : ” اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو ؟ “ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا : ” یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں “ ، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا ، پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا : تو میں ایک انصاری صحابی کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا ، پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا ۔ ایک شام میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے (ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی ، پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا ۔ آپ نے فرمایا : ” (صدقہ) دو اگرچہ ایک صاع...
Terms matched: 1  -  Score: 252  -  12k
حدیث نمبر: 1641 --- حکم البانی: ضعيف... انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی اکرم ﷺ کے پاس مانگنے کے لیے آیا ، آپ نے پوچھا : ” کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ “ ، بولا : کیوں نہیں ، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ دونوں میرے پاس لے آؤ “ ، چنانچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا ، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا : ” یہ دونوں کون خریدے گا ؟ “ ، ایک آدمی بولا : انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں ، آپ ﷺ نے پوچھا : ” ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے ؟ “ ، دو بار یا تین بار ، تو ایک شخص بولا : میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں ، آپ ﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا : ” ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ “ ، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا : ” جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں “ ، چنانچہ وہ شخص گیا ، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا ، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا ، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو ، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے : ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو ، خاک میں لوٹتا ہو ، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو ، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 251  -  6k
حدیث نمبر: 3465 --- ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا ، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی ، انہیں عبیداللہ بن عمر نے ، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا ۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا ۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی ۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا ۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا ۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی ۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے ۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا ۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا ۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا ۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے ۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا ۔ پس اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو ، تو غار کا منہ کھول دے ۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا ۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے ۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں ، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور ...
Terms matched: 1  -  Score: 239  -  10k
حدیث نمبر: 4678 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابن اکوع ؓ سے روایت ہے ، جب ہم حدیبیہ میں پہنچے سو ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہو روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو آئے ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنویں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی ایسا کم پانی تھا کنویں میں) پھر رسول اللہ ﷺ کنویں کے مینڈھ پر بیٹھے تو آپ ﷺ نے دعا کی یا تھوکا کنویں میں وہ اس وقت ابل آیا ۔ پھر ہم نے جانوروں کو پانی پلایا اور خود بھی پیا ۔ بعد اس کے نبی ﷺ نے ہم کو بلایا بیعت کے لیے درخت کی جڑ میں (اسی درخت کو شجرۂ رضوان کہتے ہیں اور اس درخت کا ذکر قرآن شریف میں ہے ۔ « إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـہَ يَدُ اللَّـہِ فَوْقَ أَيْدِيہِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاہَدَ عَلَيْہُ اللَّـہَ فَسَيُؤْتِيہِ أَجْرًا عَظِيمًا » (۴۸/الفتح : ۱۰) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں آپ ﷺ سے بیعت کی ۔ پھر آپ ﷺ بیعت لیتے رہے لیتے رہے ، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے ۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے سلمہ بیعت کر ۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں تو آپ سے اول ہی بیعت کر چکا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر سہی“ اور آپ ﷺ نے مجھے نہتا (بے ہتھیار) دیکھا تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی ، پھر آپ ﷺ بیعت لینے لگے ، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے ، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے سلمہ ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا ۔ “ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کی بیعت کر چکا اول لوگوں میں ، پھر بیچ کے لوگوں میں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر سہی“ ، غرض میں نے تیسری بار آپ ﷺ سے بیعت کی ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے سلمہ ! تیری وہ بڑی ڈھال یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی ۔ “ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا چچا عامر مجھے ملا ، وہ نہتا تھا میں نے وہ پھر اس کو دے دی ۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : ”تیری مثال اس اگلے شخص کی سی ہوئی جس نے دعا کی تھی یا اللہ ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں ۔ “ پھر مشرکوں نے صلح کے پیام بھیجے یہاں تک کہ ہر ایک طرف کے آدمی دوسری طرف جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی ، سلمہ نے کہا : میں طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا ، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا ، ان کی پیٹھ کھجاتا ، ان کی خدمت کرتا ، انہی کے ساتھ کھ...
Terms matched: 1  -  Score: 236  -  49k
حدیث نمبر: 1151 --- حکم البانی: صحيح ، الإرواء ( 2154 ) ... عقبہ بن حارث ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا : میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ، میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے ، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے ۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا ، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا ۔ میں نے عرض کیا : وہ جھوٹی ہے ۔ آپ نے فرمایا : ” یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ۔ اپنی بیوی اپنے سے علاحدہ کر دو “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- عقبہ بن حارث ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس حدیث کو کئی اور بھی لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے اور ابن ابی ملیکہ نے عقبہ بن حارث سے روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عبید بن ابی مریم کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ، نیز اس میں « دعہا عنك » ” اسے اپنے سے علاحدہ کر دو “ ، کا ذکر بھی نہیں ہے ۔ اس باب میں ابن عمر ؓ سے بھی روایت ہے ، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے ۔ انہوں نے رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت کو درست قرار دیا ہے ، ۴- ابن عباس ؓ کہتے ہیں : رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت جائز ہے ۔ لیکن اس سے قسم بھی لی جائے گی ۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ، ۵- اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک عورت کی گواہی درست نہیں جب تک کہ وہ ایک سے زائد نہ ہوں ۔ یہ شافعی کا قول ہے ، ۶- وکیع کہتے ہیں : ایک عورت کی گواہی فیصلے میں درست نہیں ۔ اور اگر ایک عورت کی گواہی سن کر وہ بیوی سے علاحدگی اختیار کر لے تو یہ عین تقویٰ ہے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 235  -  6k
حدیث نمبر: 4074 --- حکم البانی: ضعيف السند صحيح المتن دون الجمل التالية منعني القيلولة من الفرح وقرة العين فأحببت أن أنشر عليكم فرح نبيكم , ما أنا بمخبرتكم شيئا ولا سائلتكم , يظهر الحزن شديد التشكي , بين عمان , فزفر ثلاث زفرات , إلى هذا ينتهي فرحي... فاطمہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی ، اور منبر پر تشریف لے گئے ، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے ، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی ، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے ، آپ ﷺ نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا : ” اللہ کی قسم ! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے ، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے ، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کر سکا ، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں) ، سنو ! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے ، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے ، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی ، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے ، انہوں نے اس سے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں ، ان لوگوں نے کہا : تو ہمیں کچھ بتا ، اس نے کہا : (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی ، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی) ، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاؤ ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے ، کہا : ٹھیک ہے ، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے ، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا (رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے ، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بے چین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا : تم کہاں سے آئے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : شام سے ، اس نے پوچھا : عرب کا کیا حال ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم عرب لوگ ہیں ، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو ؟ اس نے پوچھا : اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا ؟ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے ، اس نے قوم سے دشمنی کی ، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ...
Terms matched: 1  -  Score: 233  -  10k
حدیث نمبر: 1231 --- حکم البانی: صحيح ، المشكاة ( 2868 ) ، الإرواء ( 5 / 149 ) ، أحاديث البيوع... ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو ، ابن عمر اور ابن مسعود ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، ۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے : میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو ، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو ، ۵- شافعی کہتے ہیں : ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے : میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو ۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا ، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 231  -  4k
حدیث نمبر: 3864 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 2845... سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”بنواسرائیل کے ایک آدمی نے کسی سے ایک ہزار دینار ادھار لینے کا سوال کیا ۔ اس نے کہا : کوئی گواہ لاؤ ، جسے میں تجھ پر گواہ بنا سکوں ۔ اس نے کہا : اللہ ہی بطور گواہ کافی ہے ۔ اس نے کہا : تو پھر کوئی کفیل لاؤ ۔ اس نے کہا : اللہ ہی بطور کفیل کافی ہے ۔ اس نے کہا : تو نے سچ کہا ہے ۔ پس اس نے اسے ایک مقررہ وقت تک ایک ہزار دینار قرضہ دے دیا ۔ وہ آدمی سمندر کی طرف روانہ ہو گیا اور اپنی ضرورت پوری کی ۔ جب مقررہ وقت آ پہنچا تو اس نے کوئی سواری تلاش کی ، لیکن نہ مل سکی ۔ سو اس نے ایک لکڑی لی اور اس میں کھدائی کر کے ایک ہزار دینار رکھ دیا اور ان کے مالک کی طرف ایک خط لکھا اور (‏‏‏‏لوہے وغیرہ کے ذریعے اس سوراخ کو) بند کر دیا ، پھر وہ لکڑی لے کر سمندر کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی سے ایک ہزار دینار اھار لیا تھا ، جب اس نے مجھ سے شاہد اور کفیل کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ ہی بطور کفیل کافی ہے ۔ وہ (‏‏‏‏تیری کفالت پر) راضی ہو گیا تھا اور اب میں نے سواری تلاش تو کی تاکہ اس کا حق اس تک پہنچا دوں ، لیکن سواری نہیں مل رہی ۔ اب میں اس مال کو تیرے سپرد کرتا ہوں ۔ پھر اس نے وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی ۔ ا‏‏‏‏دھر ادھار دینے والا آدمی اس غرض سے نکلا کہ شاید (‏‏‏‏کوئی سوار) کسی سواری پر سوار ہو کر (‏‏‏‏میرا قرضہ چکانے کے لیے) میرا مال لے کر آ رہا ہو ۔ اچانک (‏‏‏‏اسے سمندر کے کنارے پر) ایک لکڑی نظر آئی جس میں اس کا مال تھا ۔ اس نے ایندھن کا کام لینے کے لیے وہ لکڑی اٹھا لی ، جب اسے توڑا تو اسے مال اور خط موصول ہوا ، اس نے وہ لے لیا ۔ بعد میں قرضہ لینے والا آدمی (‏‏‏‏ایک ہزار دینار لے کر) خود بھی پہنچ گیا اور کہا : مجھے کوئی سواری نہیں مل سکی تھی (‏‏‏‏لہٰذا اب یہ قرضہ چکانے آیا ہوں) ۔ قرضہ دینے والے نے کہا : اللہ تعالیٰ نے مجھ تک وہ چیزیں پہنچا دی ، جو تو نے لکڑی میں بھیجی تھی ۔ سو وہ کامیاب ہو کر واپس پلٹ گیا ۔ “ ‏‏‏‏
Terms matched: 1  -  Score: 228  -  7k
حدیث نمبر: 3159 --- ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے ، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے ، کہا ہم سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا ، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر ہر دو نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ کفار سے جنگ کے لیے عمر ؓ نے فوجوں کو (فارس کے) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا ۔ (جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا) تو ہرمزان (شوستر کا حاکم) اسلام لے آیا ۔ عمر ؓ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان (ممالک فارس وغیرہ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں (کہ پہلے ان تین مقاموں فارس ، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے) اس نے کہا جی ہاں ! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے ، دو بازو ہیں ۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بےکار رہ جاتا ہے ۔ پس سر تو کسریٰ ہے ، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس ! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں ۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں عمر ؓ نے (جہاد کے لیے) بلایا اور نعمان بن مقرن ؓ کو ہمارا امیر مقرر کیا ۔ جب ہم دشمن کی سر زمین (نہاوند) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا ۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص (معاملات پر) گفتگو کرے ۔ مغیرہ بن شعبہ ؓ نے (مسلمانوں کی نمائندگی کی اور) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں ، انہیں بیان کرو ۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون ؟ مغیرہ ؓ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں ، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے ۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے ، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے ۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی ۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے ۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے ، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے ۔ ہماری طر...
Terms matched: 1  -  Score: 227  -  10k
حدیث نمبر: 1701 --- حکم البانی: صحيح... سوید بن غفلہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا ، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا ، ان دونوں نے کہا : اسے پھینک دو ، میں نے کہا : نہیں ، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا ، پھر میں نے حج کیا ، میرا گزر مدینے سے ہوا ، میں نے ابی بن کعب ؓ سے پوچھا ، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی ، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے ، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے فرمایا : ” ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ “ ، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا ، پھر آپ کے پاس آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” ایک سال اور پہچان کراؤ “ ، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی ، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” ایک سال پھر پہچان کراؤ “ ، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا ، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے عرض کیا : مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی ، اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا “ ۔ شعبہ کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے « عرفہا » تین بار کہا تھا یا ایک بار ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 1  -  Score: 224  -  4k
Result Pages: << Previous 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 Next >>


Search took 0.206 seconds