حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
تمام کتب میں
28 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 15433 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 1538 --- حکم البانی: صحيح... صالح بن خوات اس شخص سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع کے دن خوف کی نماز پڑھی (وہ بیان کرتے ہیں) کہ ایک گروہ نے آپ کے ساتھ صف بنائی ، اور دوسرا گروہ دشمن کے بالمقابل رہا ، آپ نے ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ تھے ایک رکعت پڑھائی ، پھر آپ کھڑے رہے ، اور ان لوگوں نے خود سے دوسری رکعت پوری کی ، پھر وہ لوگ لوٹ کر آئے ، اور دشمن کے سامنے صف بستہ ہو گئے ، اور دوسرا گروہ آیا تو آپ نے ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی جو آپ کی نماز سے باقی رہ گئی تھی ، پھر آپ بیٹھے رہے ، اور ان لوگوں نے اپنی دوسری رکعت خود سے پوری کی ، پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 117  -  3k
حدیث نمبر: 942 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے زہری سے پوچھا کیا نبی کریم ﷺ نے صلوۃ خوف پڑھی تھی ؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہمیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے بتلایا کہ میں نجد کی طرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا ۔ دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم نے صفیں باندھیں ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی (تو ہم میں سے) ایک جماعت آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے ۔ پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی ۔ اب دوسری جماعت آئی ۔ ان کے ساتھ بھی آپ ﷺ نے ایک رکوع اور دو سجدے کئے ۔ پھر آپ ﷺ نے سلام پھیر دیا ۔ اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: میدان جنگ میں نماز خوف کی ادائیگی ۔
Terms matched: 2  -  Score: 117  -  3k
حدیث نمبر: 2581 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے ، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے ، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج دو گروہ میں تھیں ۔ ایک میں عائشہ ، حفصہ ، صفیہ اور سودہ رضوان اللہ علیہن اور دوسری میں ام سلمہ اور بقیہ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن تھیں ۔ مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی عائشہ ؓ کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا ۔ جب رسول اللہ ﷺ کی عائشہ ؓ کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجتے ۔ اس پر ام سلمہ ؓ کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ ؓ سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں تاکہ آپ ﷺ لوگوں سے فرما دیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ ﷺ ہوں وہیں بھیجا کرے ۔ چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا لیکن آپ ﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ مجھے آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو ۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا ۔ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا ۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ ﷺ کو اس مسئلہ پر بلواؤ تو سہی ۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا ۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ فرمایا ۔ عائشہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو ۔ عائشہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے ۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا ، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں ۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپ ﷺ کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر ؓ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ ﷺ سے بات چیت کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، میری بیٹی ! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ، اس کے بعد وہ واپس آ گئیں اور ازواج کو اطلاع دی ۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جا...
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  11k
حدیث نمبر: 1949 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر ؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم ذات الرقاع تک پہنچے (رقاع ایک پہاڑی کا نام ہے) تو ہماری یہ چال تھی کہ ہم کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تو اس کو رسول اللہ ﷺ کے لئے چھوڑ دیتے پھر ایک دن ایک مشرک آیا اور رسول اللہ ﷺ کی تلوار ایک درخت میں لٹکی ہوئی تھی اس نے تلوار لے کر میان سے نکال لی اور آپ ﷺ سے کہا کہ کیوں تم مجھ سے ڈرتے ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں ۔ “ اس نے کہا : کون تمہیں میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ مجھے بچا سکتا ہے تیرے ہاتھ سے ۔ “ صحابہ ؓ نے اس کو دھمکایا اور اس نے تلوار میان میں کر لی ۔ اتنے میں اذان ہوئی نماز کی تو آپ ﷺ نے ایک گروہ کے ساتھ دو رکعت پڑھی اور آپ ﷺ کی چار رکعت ہوئی اور سب کی دو دو رکعت ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  3k
حدیث نمبر: 3221 --- حکم البانی: صحيح... ابوہریرہ ؓ سے روایت کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” موسیٰ علیہ السلام باحیاء ، پردہ پوش انسان تھے ، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جا سکتا تھا ، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی ، ان لوگوں نے کہا : یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے : یا تو اسے برص ہے ، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں ، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے ۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے ۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ علیہ السلام ایک دن تنہا تھے ، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ کر نہانے لگے ، جب نہا چکے اور اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی اٹھائی ، پتھر کو بلانے اور کہنے لگے « ثوبي حجر ثوبي حجر » ” پتھر : میرا کپڑا دے ، پتھر ! میرا کپڑا دے “ اور یہ کہتے ہوئے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت (ایک گروہ) کے پاس جا پہنچا ، دوسروں نے انہیں (مادر زاد) ننگا اپنی خلقت و بناوٹ میں لوگوں سے اچھا دیکھا ۔ اللہ نے انہیں ان تمام عیبوں اور خرابیوں سے پاک و صاف دکھا دیا جو عیب وہ ان میں بتا رہے تھے “ ۔ آپ نے فرمایا : ” پھر وہ پتھر رک گیا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے ، پھر اپنی لاٹھی سے پتھر کو پیٹنے لگے ۔ تو قسم اللہ کی پتھر پر لاٹھی کی مار سے تین ، چار یا پانچ چوٹ کے نشان تھے ۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اس آیت « يا أيہا الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأہ اللہ مما قالوا وكان عند اللہ وجيہا » ” اے ایمان لانے والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی ، تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا ، وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت و مرتبت والا تھا “ (الاحزاب : ۶۹) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ ؓ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے ، اور اس میں ایک حدیث انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  7k
حدیث نمبر: 6587 --- ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے ، کہا کہ مجھ سے ہلال نے ، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” میں (حوض پر) کھڑا ہوں گا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئے گی اور جب میں انہیں پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ ۔ میں کہوں گا کہ کدھر ؟ وہ کہے گا کہ واللہ جہنم کی طرف ۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں ؟ وہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) واپس لوٹ گئے تھے ۔ پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آئے گا اور جب میں انہیں بھی پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان میں سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ ۔ میں پوچھوں گا کہ کہاں ؟ تو وہ کہے گا ، اللہ کی قسم ! جہنم کی طرف ۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں ؟ فرشتہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے ایک آدمی بھی نہیں بچے گا ۔ ان سب کو دوزخ میں لے جائیں گے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  4k
حدیث نمبر: 473 --- ‏‏‏‏ یزید بن صہیب ابو عثمان فقیر سے روایت ہے ، میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا ۔ اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا) تو ہم نکلے ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے کہ حج کریں ، پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں جب ہم مدینے میں پہنچے دیکھا تو سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو حدیثیں سنا رہے ہیں رسول اللہ ﷺ کی ، انہوں نے یکایک ذکر کیا دوزخیوں کا ۔ میں نے کہا : اے صحابی ، رسول اللہ ﷺ کے ، تم کیا حدیث بیان کرتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ۔ ” (اے رب ہمارے) بے شک تو جس کو جہنم میں لے گیا تو نے اس کو رسوا کیا“ اور فرماتا ہے : ”جہنم کے لوگ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اس میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ “ اب تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، انہوں نے پھر کہا : تو نے محمد ﷺ کا مقام سنا ہے یعنی وہ مقام جو اللہ ان کو قیامت کے روز عنایت فرمائے گا (جس کا بیان اس آیت میں ہے « عسي أن يبعثك ») میں نے کہا : ہاں میں نے سنا ہے انہوں نے کہا : پھر وہی مقام محمود ہے ، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نکالے گا جہنم سے ان لوگوں کو جن کو چاہے گا ۔ (پھر بیان کیا) انہوں نے پل صراط کا حال اور لوگوں کے گزرنے کا اس پل پر سے اور مجھے ڈر ہے ۔ یاد نہ رہا ہو یہ مگر انہوں نے یہ کہا : کہ کچھ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے ۔ اس میں جانے کے بعد اور اس طرح سے نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں ۔ (سیاہ جل بھن کر) پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے ، یہ سن کر ہم لوٹے اور کہا ہم نے ۔ خرابی ہو تمہاری کیا یہ بوڑھا جھوٹ باندھتا ہے رسول اللہ ﷺ پر (یعنی وہ ہر گز جھوٹ نہیں بولتا پھر تمہارا مذہب غلط نکلا) اور ہم سب پھر گئے اپنے مذہب سے مگر ایک شخص نہ پھرا ۔ ایسا ہی کہا ابونعیم (فضل بن دکین) نے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  6k
حدیث نمبر: 7435 --- ‏‏‏‏ خالد بن عمیر عدوی سے روایت ہے ، عتبہ بن عروان نے (جو امیر تھے بصرہ کے) ہم کو خطبہ سنایا تو اللہ تعالیٰ کی ثنا کی پھر کہا بعد حمد وصلوۃ کے ۔ معلوم ہو کہ دینا نے خبر دی ختم ہونے کی اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب بچا رکھتا ہے اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں تو اپنے ساتھ نیکی کر کے لے جاؤ اس لیے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر ایک کنارے سے جہنم کے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا ۔ اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا ۔ اللہ کی قسم ! جہنم بھری جائے گی ، کیا تم تعجب کرتے ہو اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ جنت لوگوں کے ہجوم سے بھری ہو گی اور تو نے دیکھا ہوتا میں ساتواں تھا سات شخصوں میں سے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا کچھ نہ تھا سوائے درخت کے پتوں کے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئی (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے) میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے ۔ ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے ۔ اب آج کے رواز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی ، اس بات سے کہ میں اپنے تئیں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بے شک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا یہاں تک کہ آخری انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی تو تم قریب پاؤ گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیا دار ہو جائیں گے) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 116  -  6k
حدیث نمبر: 6830 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے صالح بن کیسان نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا ۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بھی ان میں سے ایک تھے ۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر ؓ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا ۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین ! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر ؓ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی ۔ اس پر عمر ؓ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں ۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! ایسا نہ کیجئے ۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے ، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے ، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے ۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے ، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے ۔ عمر ؓ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا ۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے ۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا ۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا...
Terms matched: 2  -  Score: 115  -  31k
حدیث نمبر: 2253 --- رقم الحديث ترقيم الباني: 900... علقمہ بن وائل کندی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک عورت نماز کے ارادے سے (گھر سے) نکلی ، اسے راستے میں ایک آدمی ملا ، اس نے اسے گرا دیا اور بدکاری کی ۔ وہ چیخ و پکار کرنے لگی ، وہ آدمی چل دیا ۔ (اتنے میں) اس کے پاس سے کوئی دوسرا شخص گزرا ، اس نے اسے بتایا کہ اس آدمی نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے ۔ پھر وہ مہاجرین کے ایک گروہ کے پاس سے گزری اور انہیں بتایا کہ فلاں آدمی نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے ۔ وہ گئے اور اس آدمی کو پکڑ کر اس عورت کے سامنے لے آئے ، اس نے کہا : واقعی یہی آدمی ہے ۔ ۔ ۔ وہ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے ، جب آپ ﷺ نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ایک دوسرا آدمی ، جو درحقیقت مجرم تھا ، اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! اس سے بدکاری کرنے والا (یہ شخص نہیں ہے) بلکہ میں ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تو چلی جا ، اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کر دیا ہے ۔ “ پھر سابقہ آدمی کے بارے میں کلمہ خیر کہا اور (اپنے جرم کا اقرار کرنے والے) زانی آدمی کے بارے میں فرمایا : ”اس کو رجم (سنگسار) کر دو ۔ “ اور فرمایا : ”اس اقرار کرنے والے آدمی نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اتنی توبہ کر لیں تو ان سے قبول کی جائے ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 113  -  4k
حدیث نمبر: 2736 --- ‏‏‏‏ حبیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوالعباس سے اور انہوں نے سنا سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے عبداللہ ! تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات جاگتے ہو اور تم جب ایسا کرو گے تو آنکھیں بھر بھرا آئیں گی اور ضعیف ہو جائیں گی اور جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے تو روزہ ہی نہیں رکھا اور ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا گویا پورے ماہ کا روزہ رکھنا ہے ۔ “ (یعنی ثواب کی راہ سے) تو میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا صوم داؤدی رکھا کرو اور وہ یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے ، ایک دن افطار کرتے تھے اور پھر بھی جب دشمن کے آگے ہوتے تو کبھی نہ بھاگتے ۔ “ (یعنی اتنی قوت پر بھی ہمیشہ روزہ نہ رکھتے تھے جیسے تم نے اختیار کیا ہے) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 113  -  3k
حدیث نمبر: 6395 --- ‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ہجو کرو قریش کی کیونکہ ہجو ان کو زیادہ ناگوار ہے تیروں کی بوچھاڑ سے ۔ “ پھر آپ ﷺ نے ایک شخص کو بھیجا ابن رواحہ کے پاس اور فرمایا : ”ہجو کر قریش کی ۔ “ اس نے ہجو کی لیکن آپ ﷺ کو پسند نہ آئی ، پھر کعب بن مالک ؓ کے پاس بھیجا ، پھر حسان بن ثابت ؓ کے پاس بھیجا ۔ جب حسان ؓ آپ ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : تم کو آ گیا وہ وقت کہ تم نے بلا بھیجا اس شیر کو جو اپنی دم سے مارتا ہے (یعنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعرگوئی کے شیر ہیں) ، پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا : قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں کافروں کو اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑےکو پھاڑ ڈالتے ہیں اپنی زبان سے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے حسان ! جلدی مت کر کیونکہ ابوبکر قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی میں ہے تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے ۔ “ پھر سیدنا حسان ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کے پاس آئے بعد اس کے لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! سیدنا ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ، قسم اس کی جس نے آپ ﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے ۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے سیدنا حسان ؓ سے : ” روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا ۔ “ اور سیدہ عائشہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : ” حسان ؓ نے قریش کی ہجو کی تو تسکین دی مؤمنوں کے دلوں کو اور تباہ کر دیا کافروں کی عزتوں کو ۔ “ ، حسان ؓ نے کہا : (شعروں کا ترجمہ یہ ہے) ۔ 1 - تو نے برائی کی محمد ﷺ کی ، میں نے اس کا جواب دیا ، اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا 2- تو نے برائی کی محمد ﷺ کی ، جو نیک ہیں پرہیزگار ہیں ، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، وفاداری ان کی خصلت ہے ۔ 3- میرے ماں باپ اور میری آبرو محمد ﷺ کی آبرو بچانے کے لیے قربان ہیں ۔ 4- میں اپنی جان کو کھوؤں اگرتم نہ دیکھو اس کو کہ اڑا دے گا غبار کو کداء کے دونوں جانب سے (کداء ایک گھاٹی ہے مکہ کے دروازہ پر) 5- ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اپنی قوت اور طاق...
Terms matched: 2  -  Score: 112  -  10k
حدیث نمبر: 2729 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ میں کہتا ہوں کہ میں ساری رات جاگا کروں گا اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا جب تک زندہ رہوں گا ۔ (سبحان اللہ ! کیا شوق تھا عبادت کا اور جوانی میں یہ شوق یہ تاثیر تھی نبی ﷺ کی صحبت و خدمت کی) پس فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ”تم نے ایسا کہا ۔ “ میں نے عرض کی : ہاں یا رسول اللہ ! میں نے ایسا ہی کہا ہے ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے اس لیے تم روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو اور رات کو نماز بھی پڑھو اور سوئے بھی رہو اور ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو اس لیے کہ ہر نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے تو یہ گویا ہمیشہ کے روزے ہوئے ۔ “ (اس لیے کہ تین دہائے تیس ہو گئے) تب میں نے عرض کی : کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو ۔ “ پھر میں نے عرض کی : کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں یا رسول اللہ ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور یہ روزہ ہے سیدنا داؤد علیہ السلام کا ۔ “ (یعنی ان کی عادت یہی تھی اور یہ سب روزوں سے عمدہ ہے اور معتدل) میں نے پھر عرض کی : کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”ان روزوں سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے ۔ “ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں : کہ اگر میں یہ فرمان رسول اللہ ﷺ کا کہ تین روزے ہر ماہ میں رکھ لیا کرو قبول کر لیتا تو یہ مجھے اپنے گھر بار مال و متاع سے بھی زیادہ پیارا معلوم ہوتا (اور یہ فرمانا ان کا ایام پیری میں تھا کہ جب ضعف محسوس ہوا) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 111  -  5k
حدیث نمبر: 3610 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے اور آپ ﷺ (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! انصاف سے کام لیجئے ۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ” افسوس ! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا ۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے ۔ “ عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو ۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے ۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا ۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے ۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا ۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا ۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا ۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے ۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا ۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے ۔ ابو سعید خدری ؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب ؓ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی ؓ کے ساتھ تھا ۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ ﷺ نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا ۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ ﷺ کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 103  -  7k
حدیث نمبر: 4100 --- ‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ، میں نے جہاد کیا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو آپ ﷺ مجھ سے ملے (راہ میں) اور میری سواری میں ایک اونٹ تھا پانی کا ، وہ تھک گیا تھا اور بالکل چل نہ سکتا تھا ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : ” تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے ؟ “ میں نے عرض کیا : وہ بیمار ہے ، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ پیچھے ہٹے اور اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی پھر وہ ہمیشہ سب اونٹوں کے آگے ہی چلتا رہا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اب تیرا اونٹ کیسا ہے ؟ “ میں نے کہا : اچھا ہے ، آپ ﷺ کی دعا کی برکت سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے ہاتھ بیچتا ہے ۔ “ مجھے شرم آئی اور ہمارے پاس اور کوئی اونٹ پانی لانے کے لیے نہ تھا ۔ آخر میں نے کہا : بیچتا ہوں ۔ پھر میں نے اس اونٹ کو آپ ﷺ کے ہاتھ بیچ ڈالا اس شرط سے کہ میں اس پر سواری کروں گا مدینے تک ۔ پھر میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! میں نوشہ ہوں (یعنی ابھی میرا نکاح ہوا ہے) مجھے اجازت دیجئے (لوگوں سے پہلے مدینہ جانے کی) آپ ﷺ نے اجازت دی میں لوگوں سے آگے بڑھ کر مدینہ آ پہنچا ۔ وہاں میرے ماموں ملے ۔ اونٹ کا حال پوچھا میں نے سب حال بیان کیا ۔ انہوں نے مجھ کو ملامت کی (کہ ایک ہی اونٹ تھا تیرے پاس اور گھر والے بہت ہیں اس کو بھی تو نے بیچ ڈالا ۔ اور اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ کریم کو جابر ؓ کا فائدہ منظور ہے) سیدنا جابر ؓ نے کہا : جب میں نے آپ ﷺ سے اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو نے کنواری سے شادی کی یا نکاحی سے ؟ “ میں نے کہا : نکاحی سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” کنواری سے کیوں نہ کی ؟ وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اس سے کھیلتا ۔ “ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میرا باپ مر گیا یا شہید ہو گیا میری کئی بہنیں چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں شادی کر کے اور ایک لڑکی لاؤں ان کے برابر جو نہ ان کو ادب سکھائے اور نہ ان کو دبائے ۔ اس لیے میں نے ایک نکاحی سے شادی کی تاکہ ان کو دابے اور تمیز سکھائے ۔ سیدنا جابر ؓ نے کہا پھر جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے ، میں اونٹ صبح ہی لے گیا ۔ آپ ﷺ نے اس کی قیمت مجھ کو دی اور اونٹ بھی پھیر دیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  7k
حدیث نمبر: 3591 --- حکم البانی: صحيح... سلمہ بن نفیل کندی ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اس وقت ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! لوگوں نے گھوڑوں کی اہمیت اور قدر و قیمت ہی گھٹا دی ، ہتھیار اتار کر رکھ دیے اور کہتے ہیں : اب کوئی جہاد نہیں رہا ، لڑائی موقوف ہو چکی ہے ۔ یہ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور (پورے طور پر متوجہ ہو کر) فرمایا : ” غلط اور جھوٹ کہتے ہیں ، (صحیح معنوں میں) لڑائی کا وقت تو اب آیا ہے ، میری امت میں سے تو ایک امت (ایک جماعت) حق کی خاطر ہمیشہ برسرپیکار رہے گی اور اللہ تعالیٰ کچھ قوموں کے دلوں کو ان کی خاطر کجی میں مبتلا رکھے گا اور انہیں (اہل حق کو) ان ہی (گمراہ لوگوں) کے ذریعہ روزی ملے گی ، یہ سلسلہ قیامت ہونے تک چلتا رہے گا ، جب تک اللہ کا وعدہ (متقیوں کے لیے جنت اور مشرکوں و کافروں کے لیے جہنم) پورا نہ ہو جائے گا ، قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی (خیر) بندھی ہوئی ہے اور مجھے بذریعہ وحی یہ بات بتا دی گئی ہے کہ جلد ہی میرا انتقال ہو جائے گا اور تم لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر میری اتباع (کا دعویٰ) کرو گے اور حال یہ ہو گا کہ سب (اپنے متعلق حق پر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود) ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوں گے اور مسلمانوں کے گھر کا آنگن (جہاں وہ پڑاؤ کر سکیں ، ٹھہر سکیں ، کشادگی سے رہ سکیں) شام ہو گا “ ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  5k
حدیث نمبر: 3319 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” گروہ انبیاء میں سے ایک نبی ایک درخت کے سائے میں اترے ، وہاں انہیں کسی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ۔ تو انہوں نے حکم دیا ، ان کا سارا سامان درخت کے تلے سے اٹھا لیا گیا ۔ پھر چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوا دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا ، فقط اسی کو جلانا تھا ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  2k
حدیث نمبر: 3238 --- حکم البانی: صحيح... ثابت بن یزید انصاری ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑے اور انہیں بھونا ، اور اس میں سے کھایا ، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا ، آپ ﷺ نے ایک لکڑی لی ، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا : ” بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا ایک جانور بن گیا ، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو “ ، میں نے عرض کیا : لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے ، پھر آپ ﷺ نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا ۔ ... (ص/ح)
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  2k
حدیث نمبر: 2456 --- ‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید خدری ؓ نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اور آپ ﷺ کچھ بانٹ رہے تھے کہ ذوالخویصرہ آیا ایک شخص بنی تمیم کا اور اس نے کہا کہ اے رسول اللہ کے ! عدل کرو ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” خرابی ہے تیری جب میں عدل نہ کروں گا تو کون کرے گا ؟ اور تو بالکل بدنصیب اور محروم ہو گیا اگر میں نے عدل نہ کیا ۔ “ اس پر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے کہ اس کی گردن مار وں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جانے دو اس لیے کہ اس کے چند یار ہوں گے کہ تم حقیر سمجھو گے اپنی نماز کو ان کی نماز کے آگے ، اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے آگے ، قرآن پڑھیں گے کہ گلوں سے نہ اترے گا اسلام سے ایسے نکل جائیں گے کہ جیسے تیر شکار سے کہ دیکھتا ہے تیر انداز اس کے پیکان کو تو اس میں کچھ بھرا نہیں ہے ، پھر دیکھتا ہے اس کی پیکان کی جڑ کو تو اس میں کچھ نہیں ، پھر دیکھتا ہے اس کی لکڑی کو تو اس میں بھی کچھ نہیں ، پھر دیکھتا ہے اس کے پر کو تو اس میں بھی کچھ نہیں اور تیر اس شکار کی بیٹ اور خون سے نکل گیا اور نشانی اس گروہ کی یہ ہے کہ ان میں ایک کالا آدمی ہے کہ ایک شانہ اس کا عورت کے پستان کا سا ہو گا یا فرمایا جیسے گوشت کا لوتھڑا تلتھلاتا ہوا اور وہ گروہ اس وقت نکلے گا جب لوگوں میں پھوٹ ہو گی ۔ “ سیدنا ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سنا ہے یہ رسول اللہ ﷺ سے اور گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ ان سے لڑے اور میں آپ ؓ کے ساتھ تھا اور آپ ؓ نے حکم فرمایا اس کے ڈھونڈنے کا اور وہ ملا اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے پاس لایا گیا اور میں نے اس کو دیکھا کہ جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی تھا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  5k
حدیث نمبر: 2448 --- ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے کچھ مال بانٹا اور ایک شخص نے کہا کہ یہ تقسیم ایسی ہے کہ اللہ کی رضا مندی اس سے مقصود نہیں پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے آ کر چپکے سے کہہ دیا اور آپ ﷺ بہت غصہ ہوئے اور چہرہ آپ کا لال ہو گیا اور میں نے آرزو کی کہ کاش اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو خوب ہوتا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” موسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ ستایا اور انہوں نے صبر کیا (موسیٰ علیہ السلام پردہ میں چھپ کر نہاتے تھے جاہلوں نے کہا : ان کے انثیین بڑے ہیں ایک بار پتھر پر کپڑے رکھ دئیے وہ بھاگا ۔ آپ اس کے پیچھے دوڑے لوگوں نے دیکھ لیا کہ کچھ عیب نہیں اور جب ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا ان کا جنازہ آسمان پر ملائکہ لے گئے ۔ جاہلوں نے کہا : انہوں نے ان کو حسد سے مار ڈالا آخر وہ ایک تخت پر آسمان سے ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مجھے نہیں مارا ۔ غرض اس طرح ہمیشہ جاہل لوگ انبیاء ، علماء کو بدنام کرتے چلے آئے ہیں خدام حدیث اور وارثان علم رسول ﷺ ہمیشہ صبر کرتے رہے ہیں) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  4k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 Next >>


Search took 0.212 seconds