حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 7028 --- مجھ سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کے عہد میں خواب دیکھتے تھے اور اسے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے ، نبی کریم ﷺ اس کی تعبیر دیتے جیسا کہ اللہ چاہتا ۔ میں اس وقت نوعمر تھا اور میرا گھر مسجد تھی یہ میری شادی سے پہلے کی بات ہے ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر تجھ میں کوئی خیر ہوتی تو تو بھی ان لوگوں کی طرح خواب دیکھتا ۔ چنانچہ جب میں ایک رات لیٹا تو میں نے کہا : اے اللہ ! اگر تو میرے اندر کوئی خیر و بھلائی جانتا ہے تو مجھے کوئی خواب دکھا ۔ میں اسی حال میں (سو گیا اور میں نے دیکھا کہ) میرے پاس دو فرشتے آئے ، ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لوہے کا ہتھوڑا تھا اور وہ مجھے جہنم کی طرف لے چلے ۔ میں ان دونوں فرشتوں کے درمیان میں تھا اور اللہ سے دعا کرتا جا رہا تھا کہ اے اللہ ! میں جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں پھر مجھے دکھایا گیا (خواب ہی میں) کہ مجھ سے ایک اور فرشتہ ملا جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ہتھوڑا تھا اور اس نے کہا ڈرو نہیں تم کتنے اچھے آدمی ہو اگر تم نماز زیادہ پڑھتے ۔ چنانچہ وہ مجھے لے کر چلے اور جہنم کے کنارے پر لے جا کر مجھے کھڑا کر دیا تو جہنم ایک گول کنویں کی طرح تھی اور کنویں کے مٹکوں کی طرح اس کے بھی مٹکے تھے اور ہر دو مٹکوں کے درمیان ایک فرشتہ تھا ۔ جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ہتھوڑا تھا اور میں نے اس میں کچھ لوگ دیکھے جنہیں زنجیروں میں لٹکا دیا گیا تھا اور ان کے سر نیچے تھے ۔ (اور پاؤں اوپر) ان میں سے بعض قریش کے لوگوں کو میں نے پہچانا بھی ، پھر وہ مجھے دائیں طرف لے کر چلے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
حدیث نمبر: 6163 --- مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا ، ان سے امام اوزاعی نے ، ان سے زہری نے ، ان سے ابوسلمہ اور ضحاک نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے ۔ بنی تمیم کے ایک شخص ذوالخویصرۃ نے کہا : یا رسول اللہ ! انصاف سے کام لیجئے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، افسوس ! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا ۔ عمر ؓ نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ۔ اس کے کچھ (قبیلہ والے) ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کو معمولی سمجھو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزے کو معمولی سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ۔ تیر کے پھل میں دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا ۔ اس کی لکڑی پر دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا ۔ پھر اس کے دندانوں میں دیکھا جائے اور اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا پھر اس کے پر میں دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا ۔ (یعنی شکار کے جسم کو پار کرنے کا کوئی نشان) تیر لید اور خون کو پار کر کے نکل چکا ہو گا ۔ یہ لوگ اس وقت پیدا ہوں گے جب لوگوں میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔ (ایک خلیفہ پر متفق نہ ہوں گے) ان کی نشانی ان کا ایک مرد (سردار لشکر) ہو گا ۔ جس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہو گا یا (فرمایا) گوشت کے لوتھڑے کی طرح تھل تھل ہل رہا ہو گا ۔ ابوسعید ؓ نے بیان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں علی ؓ کے ساتھ تھا ۔ جب انہوں نے ان خارجیوں سے (نہروان میں) جنگ کی تھی ۔ مقتولین میں تلاش کی گئی تو ایک شخص انہیں صفات کا لایا گیا جو نبی کریم ﷺ نے بیان کی تھیں ۔ اس کا ایک ہاتھ پستان کی طرح کا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
حدیث نمبر: 89 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی (ایک دوسری سند سے) امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ، وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں ، وہ عبداللہ بن عباس ؓ سے ، وہ عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے (پورب کی طرف) بلند گاؤں میں سے ہے ۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم ﷺ کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔ ایک دن وہ آتا ، ایک دن میں آتا ۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ ﷺ کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا ۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا (جب واپس آیا) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور (میرے بارے میں پوچھا کہ) کیا عمر یہاں ہیں ؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا ۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے ۔ (یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے) پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس گیا ، وہ رو رہی تھی ۔ میں نے پوچھا ، کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی ۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ ( ﷺ ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ۔ (یہ افواہ غلط ہے) تب میں نے (تعجب سے) کہا « اللہ اكبر » اللہ بہت بڑا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  5k
حدیث نمبر: 2375 --- ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی ، انہیں زید العابدین علی بن حسین بن علی ؓ نے ، ان سے ان کے والد حسین بن علی ؓ نے کہ علی بن ابی طالب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدر کی لڑائی کے موقع پر مجھے ایک جوان اونٹنی غنیمت میں ملی تھی اور ایک دوسری اونٹنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے عنایت فرمائی تھی ۔ ایک دن ایک انصاری صحابی کے دروازے پر میں ان دونوں کو اس خیال سے باندھے ہوئے تھا کہ ان کی پیٹھ پر اذخر (عرب کی ایک خوشبودار گھاس جسے سنار وغیرہ استعمال کرتے تھے) رکھ کر بیچنے لے جاؤں گا ۔ بنی قینقاع کا ایک سنار بھی میرے ساتھ تھا ۔ اس طرح (خیال یہ تھا کہ) اس کی آمدنی سے فاطمہ ؓ (جن سے میں نکاح کرنے والا تھا ان) کا ولیمہ کروں گا ۔ حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اسی (انصاری کے) گھر میں شراب پی رہے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی ۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا : ” ہاں : اے حمزہ ! اٹھو ، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف “ (بڑھ) حمزہ ؓ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے ۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے ۔ اور ان کی کلیجی نکال لی (ابن جریج نے بیان کیا کہ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا ، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا ۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ علی ؓ نے فرمایا ، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی ۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ ؓ بھی موجود تھے ۔ میں نے آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ تشریف لائے ۔ زید ؓ بھی آپ کے ساتھ ہی تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا ۔ نبی کریم ﷺ جب حمزہ ؓ کے پاس پہنچے اور آپ ﷺ نے خفگی ظاہر فرمائی تو حمزہ نے نظر اٹھا کر کہا ” تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو ۔ “ نبی کریم ﷺ الٹے پاؤں لوٹ کر ان کے پاس سے چلے آئے ۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا قصہ ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  6k
حدیث نمبر: 3208 --- ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوالاحوص نے ، ان سے اعمش نے ، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم سے صادق المصدوق رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل ، اس کا رزق ، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک ، لکھ لے ۔ اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے (یاد رکھ) ایک شخص (زندگی بھر نیک) عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کر دیتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص (زندگی بھر برے) کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کر دیتا ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: روح پھونکے جانے سے قبل رزق و عمر کا تعین ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  4k
حدیث نمبر: 3695 --- ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ایک باغ (بئراریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں ۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو ، وہ ابوبکر ؓ تھے ۔ پھر دوسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو ، وہ عمر ؓ تھے ۔ پھر تیسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی ۔ نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنا دو ، وہ عثمان غنی ؓ تھے ۔ حماد بن سلمہ نے بیان کیا ، ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا ، انہوں نے ابوعثمان سے سنا اور وہ ابوموسیٰ سے اسی طرح بیان کرتے تھے ، لیکن عاصم نے اپنی اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس کے اندر پانی تھا اور آپ اپنے دونوں گھٹنے یا ایک گھٹنہ کھولے ہوئے تھے لیکن جب عثمان ؓ داخل ہوئے تو آپ نے اپنے گھٹنے کو چھپا لیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  4k
حدیث نمبر: 6497 --- ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ان سے زید بن وہب نے ، کہا ہم سے حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو حدیثیں ارشاد فرمائیں ۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں ۔ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے ۔ پھر قرآن شریف سے ، پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی اور اس بےایمانی کا ہلکا نشان پڑ جائے گا ۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہو جائے گا جیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے ، پر اندر کچھ نہیں ہوتا ۔ پھر حال یہ ہو جائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید و فروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہو گا ، کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے ۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند ہے ، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے ۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان (امانت) نہیں ہو گا ۔ “ (حذیفہ ؓ کہتے ہیں) میں نے ایک ایسا وقت بھی گزارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ کس سے خرید و فروخت کرتا ہوں ۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام (بےایمانی سے) روکتا تھا ۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید و فروخت ہی نہیں کرتا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  5k
حدیث نمبر: 7086 --- ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا ، ان سے حذیفہ نے بیان کیا کہا ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو احادیث فرمائی تھیں جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی دوسری کا انتظار ہے ۔ ہم سے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں نازل ہوئی تھی پھر لوگوں نے اسے قرآن سے سیکھا ، پھر سنت سے سیکھا اور نبی کریم ﷺ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق فرمایا تھا کہ ایک شخص ایک نیند سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال دی جائے گی اور اس کا نشان ایک دھبے جتنا باقی رہ جائے گا ، پھر وہ ایک نیند سوئے گا اور پھر امانت نکالی جائے گی تو اس کے دل میں آبلے کی طرح اس کا نشان باقی رہ جائے گا ، جیسے تم نے کوئی چنگاری اپنے پاؤں پر گرا لی ہو اور اس کی وجہ سے آبلہ پڑ جائے ، تم اس میں سوجن دیکھو گے لیکن اندر کچھ نہیں ہو گا اور لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی امانت ادا کرنے والا نہیں ہو گا ۔ پھر کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ کس قدر عقلمند ، کتنا خوش طبع ، کتنا دلاور آدمی ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا اور مجھ پر ایک زمانہ گزر گیا اور میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ تم میں سے کس کے ساتھ میں لین دین کرتا ہوں اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے میرے حق کے ادا کرنے پر مجبور کرتا اور اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کے حاکم لوگ اس کو دباتے ایمانداری پر مجبور کرتے ۔ لیکن آج کل تو میں صرف فلاں فلاں لوگوں سے ہی لین دین کرتا ہوں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  5k
حدیث نمبر: 140 --- ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے روایت کیا ، انہوں نے کہا مجھ کو ابوسلمہ الخزاعی منصور بن سلمہ نے خبر دی ، انہوں نے کہا ہم کو ابن بلال یعنی سلیمان نے زید بن اسلم کے واسطے سے خبر دی ، انہوں نے عطاء بن یسار سے سنا ، انہوں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کیا کہ (ایک مرتبہ) انہوں نے (یعنی ابن عباس ؓ نے) وضو کیا تو اپنا چہرہ دھویا (اس طرح کہ پہلے) پانی کے ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا ۔ پھر پانی کا ایک اور چلو لیا ، پھر اس کو اس طرح کیا (یعنی) دوسرے ہاتھ کو ملایا ۔ پھر اس سے اپنا چہرہ دھویا ۔ پھر پانی کا دوسرا چلو لیا اور اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا ۔ پھر پانی کا ایک اور چلو لے کر اس سے اپنا بایاں ہاتھ دھویا ۔ اس کے بعد اپنے سر کا مسح کیا ۔ پھر پانی کا چلو لے کر داہنے پاؤں پر ڈالا اور اسے دھویا ۔ پھر دوسرے چلو سے اپنا پاؤں دھویا ۔ یعنی بایاں پاؤں اس کے بعد کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: چند چلو پانی سے وضو کرنا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 121  -  4k
‏‏‏‏ اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا ، اسی طرح بھول چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک (بعضوں نے یہاں لفظ « واشك » نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی « لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا‏ » اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کر رہا تھا ۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور علی ؓ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے (ان کے گوشت کے کباب بنائے) نبی کریم ﷺ نے ان کو ملامت کرنی شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں ۔ انہوں نے (نشہ کی حالت میں) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو ؟ نبی کریم ﷺ نے پہچان لیا کہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں ، آپ نکل کر چلے آئے ، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے ۔ اور عثمان ؓ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی (اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا) ۔ اور ابن عباس ؓ نے کہا نشے اور زبردستی کی طلاق نہیں پڑے گی (اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا) ۔ اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی ؓ نے کہا اگر طلاق کا وسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی ۔ اور عطاء بن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے (« انت طالق ») کہا اس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی ۔ اور نافع نے ابن عمر ؓ سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیا حکم ہے ۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑ جائے گی ۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا (اسے عبدالرزاق نے نکالا) ۔ اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں ۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہا تھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی (یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا (وہ جانے اس کا کام جانے) ۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا (اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا) اگ...
Terms matched: 1  -  Score: 120  -  11k
حدیث نمبر: 4727 --- مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی ۔ ابن عباس ؓ نے کہا ، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے ۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا ، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے پروردگار ! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو ۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو ۔ بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے ۔ مچھلی ساتھ تھی ۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے ، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا ، جسے ” حیات “ کہا جاتا تھا ۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی ۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا « قال لفتاہ آتنا غداءنا‏ » کہ ” ہمارا ناشتہ لاؤ “ الآیۃ ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے ۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا « أرأيت إذ أوينا إلى الصخرۃ فإني نسيت الحوت‏ » ” آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا “ الآیۃ ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے ۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے ۔ مچھلی تو پا...
Terms matched: 1  -  Score: 120  -  17k
حدیث نمبر: 7 --- ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی ، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی ۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی ۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ ﷺ نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا ۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا ۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء) بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا ۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے ؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں ۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو) میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو ۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد ﷺ کے) حالات پوچھتا ہوں ۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا ، (ابوسفیان کا قول ہے کہ) اللہ کی قسم ! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ ﷺ کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا ۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں ۔ کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی ؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگا ، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ پھر اس نے کہا ، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے ؟ میں نے کہا نہیں کمزوروں نے ۔ پھر کہنے لگا ، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے (نبوت) سے پہلے کبھی (کسی بھی موقع پر) اس نے جھوٹ بولا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ اور اب ہماری اس سے (صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے ۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے ۔ (ابوسفیان کہتے ہیں) میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں ش...
Terms matched: 1  -  Score: 119  -  29k
حدیث نمبر: 2217 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، ابراہیم علیہ السلام نے سارہ ؓ کے ساتھ (نمرود کے ملک سے) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا (یہ فرمایا کہ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا ۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں ۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے ۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ ؓ کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا ، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں ۔ اللہ کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ ؓ کو بادشاہ کے یہاں بھیجا ، یا بادشاہ سارہ ؓ کے پاس گیا ۔ اس وقت سارہ ؓ وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی تھیں ۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ ” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول (ابراہیم علیہ السلام) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے ، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر ۔ “ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا ۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا ، کہ سارہ ؓ نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے ۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور سارہ ؓ کی طرف بڑھا ۔ سارہ ؓ وضو کر کے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں ” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر (ابراہیم علیہ السلام) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر ۔ “ چنانچہ وہ پھر تھرایا ، کانپا اور اس کے پاؤں زمین میں دھنس گئے ۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ ؓ سے کہ سارہ ؓ نے پھر وہی دعا کی کہ ” اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے ۔ “ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا ۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شی...
Terms matched: 1  -  Score: 118  -  8k
حدیث نمبر: 5807 --- ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں زہری نے ، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ابوبکر ؓ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ کیونکہ مجھے بھی امید ہے کہ مجھے (ہجرت کی) اجازت دی جائے گی ۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا : کیا آپ کو بھی امید ہے ؟ میرا باپ آپ پر قربان ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ۔ چنانچہ ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہنے کے خیال سے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے پتے کھلا کر چار مہینے تک انہیں خوب تیار کرتے رہے ۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ ؓ نے کہا ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر ؓ سے کہا رسول اللہ ﷺ سر ڈھکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ اس وقت عموماً نبی کریم ﷺ ہمارے یہاں تشریف نہیں لاتے تھے ۔ ابوبکر ؓ نے کہا میرے ماں باپ نبی کریم ﷺ پر قربان ہوں ، نبی کریم ﷺ ایسے وقت کسی وجہ ہی سے تشریف لا سکتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے مکان پر پہنچ کر اجازت چاہی اور ابوبکر صدیق ؓ نے انہیں اجازت دی ۔ نبی کریم ﷺ اندر تشریف لائے اور اندر داخل ہوتے ہی ابوبکر ؓ سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس اس وقت ہیں انہیں اٹھا دو ۔ ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو یا رسول اللہ ! یہ سب آپ کے گھر ہی کے افراد ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔ ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی پھر یا رسول اللہ ! مجھے رفاقت کا شرف حاصل رہے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔ عرض کی یا رسول اللہ ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لیکن قیمت سے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے بہت جلدی جلدی سامان سفر تیار کیا اور سفر کا ناشتہ ایک تھیلے میں رکھا ۔ اسماء بنت ابی بکر ؓ نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے تھیلہ کے منہ کو باندھا ۔ اسی وجہ سے انہیں ” ذات النطاق “ (پٹکے والی) کہنے لگے ۔ پھر نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ ثور نامی پہاڑ کی ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور تین دن تک اسی میں ٹھہرے رہے ۔ عبداللہ بن ابی بکر ؓ رات آپ حضرات کے پاس ہی گزارتے تھے ۔ وہ نوجوان ذہین اور سمجھدار تھے ۔ صبح تڑکے میں وہاں سے چل دیتے تھے اور صبح ہوتے ہوتے مکہ کے قریش میں پہنچ جاتے تھ...
Terms matched: 1  -  Score: 118  -  9k
‏‏‏‏ ابن عباس ؓ نے کہا « كباسط كفيہ‏ » یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتا ہے جیسے پیاسا آدمی پانی کا تصور کر کے دور سے پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اس کو نہ لے سکے ۔ دوسرے لوگوں نے کہا « سخر‏ا » کے معنی تابعدار کیا ، مسخر کیا ۔ « متجاورات‏ » ایک دوسرے سے ملے ہوئے ، قریب قریب ۔ « المثلات‏ » ، « مثلۃ » کی جمع ہے یعنی جوڑا اور مشابہ ۔ اور دوسری آیت میں ہے « إلا مثل أيام الذين خلوا‏ » مگر مشابہ دنوں ان لوگوں کے جو پہلے گزر گئے « بمقدار‏ » یعنی اندازے سے ، جوڑ سے ۔ « معقبات‏ » نگہبان فرشتے جو ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں ، اسی سے « عقيب‏.‏ » کا لفظ نکلا ہے ۔ عرب لوگ کہتے ہیں « عقبت في إثرہ » یعنی میں اس کے نشان قدم پر پیچھے پیچھے گیا ۔ « المحال » عذاب ۔ « كباسط كفيہ إلى الماء‏ » جو دونوں ہاتھ بڑھا کر پانی لینا چاہے ۔ « رابيا‏ » ، « ربا » ، « يربو‏.‏ » سے نکلا ہے یعنی بڑھنے والا یا اوپر تیرنے والا ۔ « المتاع » جس چیز سے تو فائدہ اٹھائے اس کو کام میں لائے ۔ « جفاء‏ » ، « أجفأت القدر » سے نکلا ہے یعنی ہانڈی نے جوش مارا جھاگ اوپر آ گیا پھر جب ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے تو پھین جھاگ بیکار سوکھ کر فنا ہو جاتاہے ۔ حق باطل سے اسی طرح جدا ہو جاتا ہے ۔ « المہاد‏ » بچھونا ۔ « يدرءون‏ » دھکیلتے ہیں ، دفع کرتے ہیں یہ « درأتہ » سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کو دور کیا ، دفع کر دیا ۔ « سلام عليكم‏ » یعنی فرشتے مسلمانوں کو کہتے جائیں گے تم سلامت رہو ۔ « وإليہ متاب‏ » میں اسی کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔ « أفلم ييأس‏ » کیا انہوں نے نہیں جانا ۔ « قارعۃ‏ » آفت ، مصیبت ۔ « فأمليت‏ » میں نے ڈھیلا چھوڑا ، مہلت دی یہ لفظ « ملي » اور « ملاوۃ » سے نکلا ہے ۔ اسی سے نکلا ہے جو جبرائیل کی حدیث میں ہے ۔ « فلبثت مليا » (یا قرآن میں ہے) « واہجرنى مليا » اور کشادہ لمبی زمین کو « ملا » کہتے ہیں ۔ « أشق‏ » ، « افعل التفصيل » کا صیغہ ہے مشقت سے یعنی بہت سخت ۔ « معقب‏ لا معقب‏ لحكمہ » میں یعنی نہیں بدلنے والا اور مجاہد نے کہا « متجاورات‏ » کا معنی یہ ہے کہ بعضے قطعے عمدہ قابل زراعت ہیں بعض خراب شور کھارے ہیں ۔ « صنوان‏ » وہ کھجور کے درخت جن کی جڑ ملی ہوئی ہو (ایک ہی جڑ پر کھڑے ہوں) ۔ « غير صنوان‏ » الگ الگ جڑ پر سب ہی ایک پانی سے اگتے ہیں (ایک ہی ہوا سے ایک ہی زمین میں) آدمیوں کی ب...
Terms matched: 1  -  Score: 118  -  9k
حدیث نمبر: 3813 --- ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ازہر سمان نے بیان کیا ، ان سے ابوعوانہ نے ، ان سے محمد نے اور ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع و خضوع کے آثار ظاہر تھے لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنتی لوگوں میں سے ہیں ، پھر انہوں نے دو رکعت نماز مختصر طریقہ پر پڑھی اور باہر نکل گئے میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کیا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے کہا کہ یہ بزرگ جنت والوں میں سے ہیں ، اس پر انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! کسی کے لیے ایسی بات زبان سے نکالنا مناسب نہیں ہے جسے وہ نہ جانتا ہو اور میں تمہیں بتاؤں گا کہ ایسا کیوں ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ، میں نے ایک خواب دیکھا اور نبی کریم ﷺ سے اسے بیان کیا میں نے خواب یہ دیکھا تھا کہ جیسے میں ایک باغ میں ہوں ، پھر انہوں نے اس کی وسعت اور اس کے سبزہ زاروں کا ذکر کیا اس باغ کے درمیان میں ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں ہے اور اوپر کا آسمان پر اور اس کی چوٹی پر ایک گھنا درخت ہے « العروۃ » مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے اتنے میں ایک خادم آیا اور پیچھے سے میرے کپڑے اس نے اٹھائے تو میں چڑھ گیا اور جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے اس گھنے درخت کو پکڑ لیا مجھ سے کہا گیا کہ اس درخت کو پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے ، ابھی میں اسے اپنے ہاتھ سے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ۔ یہ خواب جب میں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو باغ تم نے دیکھا ہے ، وہ تو اسلام ہے اور اس میں ستون اسلام کا ستون ہے اور « العروۃ » (گھنا درخت) « عروۃ الوثقى » ہے اس لیے تم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہو گے ۔ یہ بزرگ عبداللہ بن سلام تھے اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا ان سے معاذ نے بیان کیا ان سے ابن عون نے بیان کیا ان سے محمد نے ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا عبداللہ بن سلام ؓ سے انہوں نے « منصف‏. » (خادم) کے بجائے « وصيف » کا لفظ ذکر کیا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا ایک عمدہ خواب ۔
Terms matched: 1  -  Score: 115  -  7k
حدیث نمبر: 6207 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے سلیمان نے بیان کیا ، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی شہاب نے بیان کیا ، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں اسامہ بن زید ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کا بنا ہوا ایک کپڑا بچھا ہوا تھا ، اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے ۔ نبی کریم ﷺ بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے ، یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے یہ دونوں روانہ ہوئے اور راستے میں ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا ۔ عبداللہ نے ابھی تک اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے ۔ بتوں کی پرستش کرنے والے کچھ مشرکین بھی تھے اور کچھ یہودی بھی تھے ۔ مسلمان شرکاء میں عبداللہ بن رواحہ بھی تھے ۔ جب مجلس پر (نبی کریم ﷺ کی) سواری کا غبار اڑ کر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر ناک پر رکھ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اڑاؤ ، اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے (قریب پہنچنے کے بعد) انہیں سلام کیا اور کھڑے ہو گئے ۔ پھر سواری سے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور قرآن مجید کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں ۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ بھلے آدمی جو کلام تم نے پڑھا اس سے بہتر کلام نہیں ہو سکتا ۔ اگرچہ واقعی یہ حق ہے مگر ہماری مجلسوں میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف نہ دیا کرو ۔ جو تمہارے پاس جائے بس اس کو یہ قصے سنا دیا کرو ۔ عبداللہ بن رواحہ ؓ نے عرض کیا : ضرور ، یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں بھی تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں ۔ اس معاملہ پر مسلمانوں ، مشرکوں اور یہودیوں کا جھگڑا ہو گیا اور قریب تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھا دیں ۔ لیکن نبی کریم ﷺ انہیں خاموش کرتے رہے آخر جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر بیٹھے اور روانہ ہوئے ۔ جب سعد بن عبادہ کے یہاں پہنچے تو ان سے فرمایا کہ اے سعد ! تم نے نہیں سنا آج ابوحباب نے کس طرح باتیں کی ہیں ۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں سعد بن عبادہ ؓ بولے ، میرا باپ آپ پر صدقے ہو ، یا رسو...
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  12k
حدیث نمبر: 2872 --- ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا ، ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا ۔ کوئی اونٹنی اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی یا حمید نے یوں کہا وہ پیچھے رہ جانے کے قریب نہ ہوتی پھر ایک دیہاتی ایک نوجوان ایک قوی اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی سے ان کا اونٹ آگے نکل گیا ۔ مسلمانوں پر یہ بڑا شاق گزرا لیکن جب نبی کریم ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ برحق ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے (کبھی کبھی) اسے وہ گراتا بھی ہے ۔ موسیٰ نے حماد سے اس کی روایت طول کے ساتھ کی ہے ، حماد نے ثابت سے ، انہوں نے انس ؓ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: اللہ دنیوی بلندی کو پست بھی کر دیتا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  3k
حدیث نمبر: 1398 --- ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا ‘ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان پڑتے ہیں ۔ اس لیے ہم آپ ﷺ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے پرامن ہو جاتے ہیں) آپ ﷺ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلا دیجئیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا ۔ نماز قائم کرنا ‘ پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے (کا حکم دیتا ہوں) اور میں تمہیں کدو کے تونبی سے اور حنتم (سبز رنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) فقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں ۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے ۔ « الإيمان باللہ شہادۃ أن لا إلہ إلا اللہ » یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب « لا إلہ إلا اللہ » کی گواہی دینا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  5k
حدیث نمبر: 775 --- ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ میں نے ابووائل شقیق بن مسلم سے سنا کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے رات ایک رکعت میں مفصل کی سورۃ پڑھی ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اسی طرح (جلدی جلدی) پڑھی جیسے شعر پڑھے جاتے ہیں ۔ میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم ﷺ ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے ۔ آپ نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا ۔ ہر رکعت کے لیے دو دو سورتیں ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: ایک رکعت میں دو سورتوں کا پڑھنا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  2k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 Next >>


Search took 0.180 seconds