حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 1368 --- ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے ‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے ‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا ۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی ۔ میں عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا ۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو عمر ؓ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی پھر ایک اور جنازہ گزرا ، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے ۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہو گئی ۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا ‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے ‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہو گئی ۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں ؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی ، پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں ؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی ۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا ؟ ... حدیث متعلقہ ابواب: مسلمان کے نیک ہونے کی گواہی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 114  -  4k
حدیث نمبر: 4360 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ، ان سے وہیب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ساحل سمندر کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا ۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے ۔ خیر ہم مدینہ سے روانہ ہوئے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ راشن ختم ہو گیا ، جو کچھ بچ رہا تھا وہ ابوعبیدہ ؓ ہمیں روزانہ تھوڑا تھوڑا اسی میں سے کھانے کو دیتے رہے ۔ آخر جب یہ بھی ختم کے قریب پہنچ گیا تو ہمارے حصے میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی ۔ وہب نے کہا میں نے جابر ؓ سے پوچھا کہ ایک کھجور سے کیا ہوتا رہا ہو گا ؟ جابر ؓ نے کہا وہ ایک کھجور ہی غنیمت تھی ۔ جب وہ بھی نہ رہی تو ہم کو اس کی قدر معلوم ہوئی تھی ، آخر ہم سمندر کے کنارے پہنچ گئے ۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی نکل کر پڑی ہے ۔ اس مچھلی کو سارا لشکر اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا ۔ بعد میں ابوعبیدہ ؓ کے حکم سے اس کی پسلی کی دو ہڈیاں کھڑی کی گئیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا وہ ان کے تلے سے نکل گیا اور ہڈیوں کو بالکل نہیں لگا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: جنگ سیف البحر میں زاد راہ کی قلت ۔
Terms matched: 1  -  Score: 112  -  4k
حدیث نمبر: 4302 --- ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ ؓ نے ‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا ۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے ؟ (یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں ۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی ۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو ۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا ۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا ۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا ۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی ۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو اوپر ہو جاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی ۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چوتڑ تو پہلے چھپا دو ۔ آخر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی ، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: مسلمان ہونے کے لیے فتح مکہ کا انتظار ۔ فتح مکہ : ہر قوم جلدی اسلام لانے لگ...
Terms matched: 1  -  Score: 110  -  7k
حدیث نمبر: 4361 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم نے عمرو بن دینار سے جو یاد کیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا ۔ تاکہ ہم قریش کے قافلہ تجارت کی تلاش میں رہیں ۔ ساحل سمندر پر ہم پندرہ دن تک پڑاؤ ڈالے رہے ۔ ہمیں (اس سفر میں) بڑی سخت بھوک اور فاقے کا سامنا کرنا پڑا ، یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم نے ببول کے پتے کھا کر وقت گذارا ۔ اسی لیے اس فوج کا لقب پتوں کی فوج ہو گیا ۔ پھر اتفاق سے سمندر نے ہمارے لیے ایک مچھلی جیسا جانور ساحل پر پھینک دیا ، اس کا نام عنبر تھا ، ہم نے اس کو پندرہ دن تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر (اپنے جسموں پر) ملا ۔ اس سے ہمارے بدن کی طاقت و قوت پھر لوٹ آئی ۔ بعد میں ابوعبیدہ ؓ نے اس کی ایک پسلی نکال کر کھڑی کروائی اور جو لشکر میں سب سے لمبے آدمی تھے ، انہیں اس کے نیچے سے گزارا ۔ سفیان بن عیینہ نے ایک مرتبہ اس طرح بیان کیا کہ ایک پسلی نکال کر کھڑی کر دی اور ایک شخص کو اونٹ پر سوار کرایا وہ اس کے نیچے سے نکل گیا ۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ لشکر کے ایک آدمی نے پہلے تین اونٹ ذبح کئے پھر تین اونٹ ذبح کئے اور جب تیسری مرتبہ تین اونٹ ذبح کئے تو ابوعبیدہ نے انہیں روک دیا کیونکہ اگر سب اونٹ ذبح کر دیتے تو سفر کیسے ہوتا اور عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ ہم کو ابوصالح ذکوان نے خبر دی کہ قیس بن سعد ؓ نے (واپس آ کر) اپنے والد (سعد بن عبادہ ؓ ) سے کہا کہ میں بھی لشکر میں تھا جب لوگوں کو بھوک لگی تو ابوعبیدہ ؓ نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، قیس بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ میں نے ذبح کر دیا کہا کہ پھر بھوکے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، میں نے ذبح کیا ، بیان کیا کہ جب پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، میں نے ذبح کیا ، پھر بھوکے ہوئے تو کہا کہ اونٹ ذبح کرو ، پھر قیس ؓ نے بیان کیا کہ اس مرتبہ مجھے امیر لشکر کی طرف سے منع کر دیا گیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 110  -  7k
حدیث نمبر: 7451 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اے محمد ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر ، زمین کو ایک انگلی پر ، پہاڑوں کو ایک انگلی پر ، درخت اور نہروں کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا ۔ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ اس پر آپ ﷺ ہنس دئیے اور یہ آیت پڑھی « وما قدروا اللہ حق قدرہ » (جو سورۃ الزمر میں ہے) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  3k
حدیث نمبر: 5148 --- ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے کہ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے ایک خاتون سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر (سونے کے مہر پر) نکاح کیا ۔ پھر نبی کریم ﷺ شادی کی خوشی ان میں دیکھی تو ان سے پوچھا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے برابر نکاح کیا ہے اور قتادہ ؓ نے انس ؓ سے یہ روایت اس طرح نقل کی ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے ایک عورت سے ۔ ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر نکاح کیا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  2k
حدیث نمبر: 7414 --- ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا اس نے یحییٰ بن سعید سے سنا ، انہوں نے سفیان سے ، انہوں نے کہا ہم سے منصور اور سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے عبیدہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے محمد ! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روک لے گا اور زمین کو بھی ایک انگلی پر اور پہاڑوں کو ایک انگلی پر اور درختوں کو ایک انگلی پر اور مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھر فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مسکرا دئیے یہاں تک کہ آپ کے آگے کے دندان مبارک دکھائی دینے لگے ۔ پھر سورۃ الانعام کی یہ آیت پڑھی « وما قدروا اللہ حق قدرہ‏ » ۔ یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ اس روایت میں فضیل بن عیاض نے منصور سے اضافہ کیا ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے عبیدہ نے ، ان سے عبداللہ ؓ نے کہ پھر نبی کریم ﷺ اس پر تعجب کی وجہ سے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہنس دیئے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  4k
حدیث نمبر: 4102 --- مجھ سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ، کہا ہم کو حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی ، کہا ہم کو سعید بن میناء نے خبر دی ، کہا میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم ﷺ انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں ۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے ؟ میرا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ انتہائی بھوکے ہیں ۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے ۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا ۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا ۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں ۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں رکھ دیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا ۔ چنانچہ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم نے ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کر لیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے ۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں ۔ آپ ﷺ نے بہت بلند آواز سے فرمایا کہ اے اہل خندق ! جابر ( ؓ ) نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے ۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو ۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور تب آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا ۔ میں اپنے گھر آیا ۔ ادھر آپ ﷺ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں ۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے عرض کر دیا تھا ۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ ﷺ نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی ۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا ۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (شکم سیر ہو کر) کھایا اور کھانا بچ بھی گ...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  8k
حدیث نمبر: 3472 --- ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ایک شخص نے دوسرے شخص سے مکان خریدا اور مکان کے خریدار کو اس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سے وہ مکان اس نے خریدا تھا اس سے اس نے کہا بھائی گھڑا لے جا ۔ کیونکہ میں نے تم سے گھر خریدا ہے سونا نہیں خریدا تھا ۔ لیکن پہلے مالک نے کہا کہ میں نے گھر کو ان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جو اس کے اندر موجود ہوں ۔ یہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے ۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے ؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرے ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے ۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور سونا انہیں پر خرچ کر دو اور خیرات بھی کر دو ۔ “ ... حدیث متعلقہ ابواب: خرید و فروخت میں دیانت کی اعلیٰ مثال ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  3k
حدیث نمبر: 4905 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک غزوہ (غزوہ تبوک) میں تھے ۔ سفیان نے ایک مرتبہ (بجائے غزوہ کے) جیش (لشکر) کا لفظ کہا ۔ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی ۔ انصاری نے کہا کہ اے انصاریو ! دوڑو اور مہاجر نے کہا اے مہاجرین ! دوڑو ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے سنا اور فرمایا کیا قصہ ہے ؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات سے مار دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں ۔ عبداللہ بن ابی نے بھی یہ بات سنی تو کہا اچھا اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ۔ خدا کی قسم ! جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا ۔ اس کی خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچ گئی ۔ عمر ؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کر دوں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ( ﷺ ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں ۔ جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو انصار کی تعداد سے ان کی تعداد کم تھی ۔ لیکن بعد میں ان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی ۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی ، عمرو نے بیان کیا کہ میں نے جابر ؓ سے سنا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  5k
حدیث نمبر: 2483 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (رجب 7 ھ میں) ساحل بحر کی طرف ایک لشکر بھیجا ۔ اور اس کا امیر ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا ۔ فوجیوں کی تعداد تین سو تھی اور میں بھی ان میں شریک تھا ۔ ہم نکلے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہو گیا ۔ ابوعبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ تمام فوجی اپنے توشے (جو کچھ بھی باقی رہ گئے ہوں) ایک جگہ جمع کر دیں ۔ سب کچھ جمع کرنے کے بعد کھجوروں کے کل دو تھیلے ہو سکے اور روزانہ ہمیں اسی میں سے تھوڑی تھوڑی کھجور کھانے کے لیے ملنے لگی ۔ جب اس کا بھی اکثر حصہ ختم ہو گیا تو ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی رہی ۔ میں (وہب بن کیسان) نے جابر ؓ سے کہا بھلا ایک کھجور سے کیا ہوتا ہو گا ؟ انہوں نے بتلایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ بھی ختم ہو گئی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آخر ہم سمندر تک پہنچ گئے ۔ اتفاق سے سمندر میں ہمیں ایک ایسی مچھلی مل گئی جو (اپنے جسم میں) پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی تھی ۔ سارا لشکر اس مچھلی کو اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا ۔ پھر ابوعبیدہ ؓ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد اونٹوں کو ان کے تلے سے چلنے کا حکم دیا ۔ اور وہ ان پسلیوں کے نیچے سے ہو کر گزرے ، لیکن اونٹ نے ان کو چھوا تک نہیں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  5k
حدیث نمبر: 4811 --- ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے عبیدہ سلمانی نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ نبی کریم ﷺ اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے ۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا ۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی « وما قدروا اللہ حق قدرہ والأرض جميعا قبضتہ يوم القيامۃ والسموات مطويات بيمينہ سبحانہ وتعالى عما يشركون‏ » ” اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے ، وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  4k
حدیث نمبر: 3983 --- مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حسین بن عبدالرحمٰن سے سنا ‘ انہوں نے سعد بن عبیدہ سے ‘ انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے کہ علی ؓ نے کہا مجھے ‘ ابومرثد ؓ اور زبیر ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر بھیجا ۔ ہم سب شہسوار تھے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھے چلے جاؤ ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی ‘ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پا لیا ۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط دے دو ۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا ۔ لیکن ہم نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے ۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا ہم اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ عمر ؓ نے کہا کہ اس نے (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ حاطب ؓ بولے : اللہ کی قسم ! یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں ۔ آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات (مہاجرین) ہیں ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی ہے اور تم لوگوں کو چاہئے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہو ۔ عمر ؓ نے پھر عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں ۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرما چکا ہے کہ ” تم جو...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  8k
حدیث نمبر: 2439 --- ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو نضر نے خبر دی ، کہا کہ ہم کو اسرائیل نے خبر دی ابواسحاق سے کہ مجھے براء بن عازب ؓ نے ابوبکر ؓ سے خبر دی (دوسری سند) ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ابواسحاق سے ، اور انہوں نے ابوبکر ؓ سے کہ (ہجرت کر کے مدینہ جاتے وقت) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو ؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا ۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا ، جسے میں جانتا تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے ؟ اس نے کہا ، ہاں ضرور ! چنانچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا ۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا ۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد و غبار سے صاف کرنے کے لیے کہا ۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا ۔ اس نے ویسا ہی کیا ۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کر لیا ۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا ۔ رسول اللہ ﷺ کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا ۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا ۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا ۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا پھر دودھ لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے ۔ یا رسول اللہ ! پی لیجئے ، آپ ﷺ نے اسے پیا ، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  5k
حدیث نمبر: 3917 --- ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا ، کہا کہ ان سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم بن یوسف نے ، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے ، ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب ؓ سے حدیث سنی وہ بیان کرتے تھے کہ ابوبکر ؓ نے عازب ؓ سے ایک پالان خریدا اور میں ان کے ساتھ اٹھا کر پہنچانے لایا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ سے عازب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سفر ہجرت کا حال پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ چونکہ ہماری نگرانی ہو رہی تھی (یعنی کفار ہماری تاک میں تھے) اس لیے ہم (غار سے) رات کے وقت باہر آئے اور پوری رات اور دن بھر بہت تیزی کے ساتھ چلتے رہے ، جب دوپہر ہوئی تو ہمیں ایک چٹان دکھائی دی ۔ ہم اس کے قریب پہنچے تو اس کی آڑ میں تھوڑا سا سایہ بھی موجود تھا ۔ ابوبکر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک چمڑا بچھا دیا جو میرے ساتھ تھا ۔ آپ اس پر لیٹ گئے ، اور میں قرب و جوار کی گرد جھاڑنے لگا ۔ اتفاق سے ایک چرواہا نظر پڑا جو اپنی بکریوں کے تھوڑے سے ریوڑ کے ساتھ اسی چٹان کی طرف آ رہا تھا اس کا مقصد اس چٹان سے وہی تھا جس کے لیے ہم یہاں آئے تھے (یعنی سایہ حاصل کرنا) میں نے اس سے پوچھا لڑکے تو کس کا غلام ہے ؟ اس نے بتایا کہ فلاں کا ہوں ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی بکریوں سے کچھ دودھ نکال سکتے ہو اس نے کہا کہ ہاں پھر وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری لایا تو میں نے اس سے کہا کہ پہلے اس کا تھن جھاڑ لو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر اس نے کچھ دودھ دوہا ۔ میرے ساتھ پانی کا ایک چھاگل تھا ۔ اس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا ۔ یہ پانی میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ساتھ لے رکھا تھا ۔ وہ پانی میں نے اس دودھ پر اتنا ڈالا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو میں اسے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا دودھ نوش فرمایئے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے اسے نوش فرمایا جس سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی ۔ اس کے بعد ہم نے پھر کوچ شروع کیا اور ڈھونڈنے والے لوگ ہماری تلاش میں تھے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  6k
حدیث نمبر: 2097 --- ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا ، ان سے وہب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ (ذات الرقاع یا تبوک) میں تھا ۔ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا ۔ اتنے میں میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا جابر ! میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! حاضر ہوں ۔ فرمایا کیا بات ہوئی ؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا ہے ، چلتا ہی نہیں اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں ۔ پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیرھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے (یعنی ہانکنے لگے) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا ۔ چنانچہ میں سوار ہو گیا ۔ اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ ﷺ کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ، جابر تو نے شادی بھی کر لی ہے ؟ میں نے عرض کی جی ہاں ! دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے ۔ فرمایا ، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی ۔ (جابر بھی کنوارے تھے) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں ۔ (اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں ، جو انہیں جمع رکھے ۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا ۔ اس کے بعد فرمایا ، کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! چنانچہ آپ ﷺ نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا ، رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گئے تھے ۔ اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا ۔ پھر ہم مسجد آئے تو نبی کریم ﷺ مسجد کے دروازہ پر ملے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ، کیا ابھی آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فرمایا ، پھر اپنا اونٹ چھوڑ دے اور مسجد میں جا کے دو رکعت نماز پڑھ ۔ میں اندر گیا اور نماز پڑھی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے ۔ انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی تول دی ۔ میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ ۔ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے واپس کریں گے ۔ حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  8k
حدیث نمبر: 2333 --- ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ، ان سے ابوضمرہ نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ بارش نے ان کو آ لیا ۔ تینوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی ، اچانک اوپر سے ایک چٹان غار کے سامنے آ گری ، اور انہیں (غار کے اندر) بالکل بند کر دیا ۔ اب ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ تم لوگ اب اپنے ایسے کاموں کو یاد کرو ۔ جنہیں تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اسی کام کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو ٹال دے ، چنانچہ ایک شخص نے دعا شروع کی ۔ اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے ۔ میں ان کے لیے (جانور) چرایا کرتا تھا ۔ پھر جب واپس ہوتا تو دودھ دوہتا ۔ سب سے پہلے ، اپنی اولاد سے بھی پہلے ، میں والدین ہی کو دودھ پلاتا تھا ۔ ایک دن دیر ہو گئی اور رات گئے گھر واپس آیا ، اس وقت میرے ماں باپ سو چکے تھے ۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور (اس کا پیالہ لے کر) میں ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا ۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں ۔ لیکن اپنے بچوں کو بھی (والدین سے پہلے) پلانا مجھے پسند نہیں تھا ۔ بچے صبح تک میرے قدموں پر پڑے تڑپتے رہے ۔ پس اگر تیرے نزدیک بھی میرا یہ عمل صرف تیری رضا کے لیے تھا تو (غار سے اس چٹان کو ہٹا کر) ہمارے لیے اتنا راستہ بنا دے کہ آسمان نظر آ سکے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنا دیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا ۔ دوسرے نے کہا اے اللہ ! میری ایک چچازاد بہن تھی ۔ مرد عورتوں سے جس طرح کی انتہائی محبت کر سکتے ہیں ، مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی ۔ میں نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا لیکن وہ سو دینار دینے کی صورت راضی ہوئی ۔ میں نے کوشش کی اور وہ رقم جمع کی ۔ پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا ، تو اس نے مجھ سے کہا ، اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور اس کی مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ ۔ میں یہ سنتے ہی دور ہو گیا ، اگر میرا یہ عمل تیرے علم میں بھی تیری رضا ہی کے لیے تھا تو (اس غار سے) پتھر کو ہٹا دے ۔ پس غار کا منہ کچھ اور کھلا ۔ اب تیسرا بولا کہ اے اللہ ! میں نے ایک مزدور تین فرق چاول کی مزدوری پر مقرر کیا تھا جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو مج...
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  10k
حدیث نمبر: 240 --- ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا مجھے میرے باپ (عثمان) نے شعبہ سے خبر دی ، انہوں نے ابواسحاق سے ، انہوں نے عمرو بن میمون سے ، انہوں نے عبداللہ سے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبہ شریف میں سجدہ میں تھے ۔ (ایک دوسری سند سے) ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے ، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا ، وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں ۔ ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد ﷺ سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے ۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا ۔ کاش ! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ ﷺ سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ یہاں تک کہ فاطمہ ؓ آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا ، تب آپ ﷺ نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا ۔ یا اللہ ! تو قریش کو پکڑ لے ، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ ﷺ نے انہیں بددعا دی ۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے ۔ ابوجہل ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو ۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ ﷺ نے نام لیے تھے ، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: ابوجہل ، عتبہ اور شیبہ کا انجام ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  7k
حدیث نمبر: 7046 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے ، ان سے ابن عباس ؓ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ہے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے میں دیکھتا ہوں کہ لوگ انہیں اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں ۔ کوئی زیادہ اور کوئی کم اور ایک رسی ہے جو زمین سے آسمان تک لٹکی ہوئی ہے ۔ میں نے دیکھا کہ پہلے آپ ﷺ نے آ کر اسے پکڑ اور اوپر چڑھ گئے پھر ایک دوسرے صاحب نے بھی اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چڑھ گئے پھر ایک تیسرے صاحب نے پکڑا اور وہ بھی چڑھ گئے پھر چوتھے صاحب نے پکڑا اور وہ بھی اس کے ذریعہ چڑھ گئے ۔ پھر وہ رسی ٹوٹ گئی ، پھر جڑ گئی ۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ۔ مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی تعبیر بیان کر دوں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیان کرو ۔ انہوں نے کہا سایہ سے مراد دین اسلام ہے اور شہد اور گھی ٹپک رہا تھا وہ قرآن مجید کی شیرینی ہے اور بعض قرآن کو زیادہ حاصل کرنے والے ہیں ، بعض کم اور آسمان سے زمین تک کی رسی سے مراد وہ سچا طریق ہے جس پر آپ ﷺ قائم ہیں ، آپ ﷺ اسے پکڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اس کے ذریعہ اللہ آپ کو اٹھا لے گا پھر آپ کے بعد ایک دوسرے صاحب آپ کے خلیفہ اول اسے پکڑیں گے وہ بھی مرتے دم تک اس پر قائم رہیں گے ۔ پھر تیسرے صاحب پکڑیں گے ان کا بھی یہی حال ہو گا ۔ پھر چوتھے صاحب پکڑیں گے تو ان کا معاملہ خلافت کا کٹ جائے گا وہ بھی اوپر چڑھ جائیں گے ۔ یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے کیا میں نے جو تعبیر دی ہے وہ غلط ہے یا صحیح ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بعض حصہ کی صحیح تعبیر دی ہے اور بعض کی غلط ۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا : پس واللہ ! آپ میری غلطی کو ظاہر فرما دیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قسم نہ کھاؤ ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  6k
حدیث نمبر: 4131 --- ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ‘ ان سے قاسم بن محمد نے ‘ ان سے صالح بن خوات نے ‘ ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ (نماز خوف میں) امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہو گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو گی ۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت دشمن کے مقابلہ پر کھڑی ہو گی ۔ انہیں کی طرف منہ کیے ہوئے ۔ امام اپنے ساتھ والی جماعت کو پہلے ایک رکعت نماز پڑھائے گا (ایک رکعت پڑھنے کے بعد پھر) یہ جماعت کھڑی ہو جائے گی اور خود (امام کے بغیر) اسی جگہ ایک رکوع اور دو سجدے کر کے دشمن کے مقابلہ پر جا کر کھڑی ہو جائے گی ۔ جہاں دوسری جماعت پہلے سے موجود تھی ۔ اس کے بعد امام دوسری جماعت کو ایک رکعت نماز پڑھائے گا ۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں پوری ہو جائیں گی اور یہ دوسری جماعت ایک رکوع اور دو سجدے خود کرے گی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 109  -  3k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 Next >>


Search took 0.189 seconds