حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
‏‏‏‏ اور فضیل بن عیاض (زاہد مشہور) نے حصین بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا ، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے کہا « متكأ‏ » کا معنی « لأترج » اور خود فضیل نے بھی کہا کہ « متكأ‏ » حبشی زبان میں « لأترج » کو کہتے ہیں ۔ اور سفیان بن عیینہ نے ایک شخص (نام نامعلوم) سے روایت کی اس نے مجاہد سے انہوں نے کہا ۔ « متكأ‏ » وہ چیز جو چھری سے کاٹی جائے (میوہ ہو یا ترکاری) ۔ اور قتادہ نے کہا « ذو علم‏ » کا معنی اپنے علم پر عمل کرنے والا ۔ اور سعید بن جبیر نے کہا « صواع » ایک ماپ ہے جس کو « مكوك الفارسي » بھی کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح کا ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں ۔ عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہیں ۔ اور ابن عباس نے کہا « لو لا ان تفندون‏ » اگر تم مجھ کو جاہل نہ کہو ۔ دوسرے لوگوں نے کہا « غيابۃ » وہ چیز جو دوسری چیز کو چھپاوے غائب کر دے اور جب کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو ۔ « وما انت بمؤمن لنا‏ » یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں ۔ « أشدہ » وہ عمر جو زمانہ انحطاط سے پہلے ہو (تیس سے چالیس برس تک) عرب بولا کرتے ہیں ۔ « بلغ أشدہ وبلغوا أشدہم » یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے ۔ بعضوں نے کہا « اشد » ، « شد » کی جمع ہے ۔ « متكأ » مسند ، تکیہ جس پر تو پینے کھانے یا باتیں کرنے کے لیے ٹیکا دے ۔ اور جس نے یہ کہا کہ « متكأ » ، « لأترج » کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا ۔ عربی زبان میں « متكأ » کے معنی « لأترج » کے بالکل نہیں آئے ہیں جب اس شخص سے جو « متكأ » کے معنی « لأترج » کہتا ہے اصل بیان کی گئی کہ « متكأ » مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو وہ اس سے بھی بدتر ایک بات کہنے لگا کہ یہ لفظ « المتك ساكنۃ التاء » ہے ۔ حالانکہ « متك » عربی زبان میں عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں ۔ جہاں عورت کو ختنہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی زبان میں « متكأ » (« متك » والی) کہتے ہیں اور آدمی کو « متكأ » کا پیٹ کہتے ہیں ۔ اگر بالفرض زلیخا نے « لأترج » بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہو گا تو مسند تکیہ کے بعد دیا ہو گا ۔ « شعفہا » یعنی اس کے دل کے « شغاف » (غلاف) میں اس کی محبت سما گئی ہے ۔ بعضوں نے « شعفہا » عین مہملہ سے پڑھا ہے وہ « مشعوف » سے نکلا ہے ۔ « أصب‏ » کا معنی مائل ہو جاؤں گا جھک پڑوں گا ۔ « أضغاث أحلام‏ » پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جا سکے ۔ اصل میں « أضغاث » ، « ضغث » کی جمع ہے ...
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  11k
‏‏‏‏ ابن عباس ؓ نے کہا « ثم لم تكن فتنتہم‏ » کا معنی پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا ۔ « معروشات‏ » کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ (جن کی بیل ہوتی ہے) ۔ « حمولۃ‏ » کا معنی « لدو » یعنی بوجھ لادنے کے جانور ۔ « وللبسنا‏ » کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے ۔ « ينأون‏ » کا معنی دور ہو جاتے ہیں ۔ « تبسل » کا معنی رسوا کیا جائے ۔ « أبسلوا‏ » رسوا کئے گئے ۔ « باسطو أيديہم‏ » میں « بسط » کے معنی مارنا ۔ « استكثرتم‏ » یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا ۔ « وجعلوا للہ من ثمراتہم ومالہم نصيبا » یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا ۔ « اكنۃ » ، « كنان » کی جمع ہے یعنی پردہ ۔ « أما اشتملت‏ » یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو ۔ اور « وما مسفوحا‏ » یعنی بہایا گیا خون ۔ « صدف‏ » کا معنی منہ پھیرا ۔ « أبلسوا‏ » کا معنی ناامید ہوئے ۔ « فاذاہم مبلسون » میں اور « أبسلوا‏ بما كسبوا » میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لیے سپرد کئے گئے ۔ « سرمدا‏ » کا معنی ہمیشہ ۔ « استہوتہ‏ » کا معنی گمراہ کیا ۔ « يمترون‏ » کا معنی شک کرتے ہو ۔ « وقر‏ » کا معنی بوجھ (جس سے کان بہرا ہو) ۔ اور « وقر‏ » بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے ۔ « أساطير‏ » ، « أسطورۃ » اور « إسطارۃ » کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں ۔ « البأساء » ، « بأس » سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز « بؤس‏.‏ » سے بھی آتا ہے اور محتاج ۔ « جہرۃ‏ » کھلم کھلا ۔ « صور » (« يوم ينقخ فى الصور ») میں « صورت » کی جمع جیسے « سور » ، « سورۃ » کی جمع ۔ « ملكوت » سے « ملك » یعنی سلطنت مراد ہے ۔ جیسے « رہبوت » اور « رحموت » مثل ہے « رہبوت » یعنی ڈر ۔ « رحموت » (مہربانی) سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے ۔ « جن‏ عليہ اليل » رات کی اندھیری اس پر چھا گئی ۔ « حسبان » کا معنی « حساب » ۔ کہتے ہیں اللہ پر اس کا « حسبان » یعنی « حساب » ہے اور بعضوں نے کہا « حسبان » سے مراد تیر اور شیطان پر پھینکنے کے حربے ۔ « مستقر » باپ کی پشت ۔ « مستودع‏ » ماں کا پیٹ ۔ « قنو » (خوشہ) گچھہ اس کا تثنیہ « قنوان » اور جمع بھی « قنوان » جیسے « صنو » اور « صنوان‏. » (یعنی جڑ ملے ہوئے درخت) ۔
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  7k
حدیث نمبر: 2691 --- ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا ، اگر آپ عبداللہ بن ابی (منافق) کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا ۔ آپ ﷺ اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہو کر تشریف لے گئے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم پیدل آپ ﷺ کے ہمراہ تھے ۔ جدھر سے آپ ﷺ گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی ۔ جب نبی کریم ﷺ اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئیے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے ۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ عبداللہ (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحابی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی ، چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی ۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی ۔ « وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينہما‏ » ” اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  4k
حدیث نمبر: 3319 --- ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” گروہ انبیاء میں سے ایک نبی ایک درخت کے سائے میں اترے ، وہاں انہیں کسی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ۔ تو انہوں نے حکم دیا ، ان کا سارا سامان درخت کے تلے سے اٹھا لیا گیا ۔ پھر چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوا دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا ، فقط اسی کو جلانا تھا ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 101  -  2k
حدیث نمبر: 3699 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ، کہا ہم سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ مصر والوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا ، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں ۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمر ہیں ۔ اس نے پوچھا ۔ اے ابن عمر ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان ؓ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی ؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے ۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو ابن عمر ؓ نے کہا کہ قریب آ جاؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا ۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے ۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہیں (مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا) اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص (مسلمانوں میں سے) عثمان ؓ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو نبی کریم ﷺ اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے ، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آپ ﷺ نے انہیں (قریش سے باتیں کرنے کے لیے) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہو رہی تھی تو عثمان ؓ مکہ جا چکے تھے ، اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے ۔ اس کے بعد ابن عمر ؓ نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا ، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے سعید نے ، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس ؓ نے ...
Terms matched: 2  -  Score: 88  -  8k
حدیث نمبر: 3246 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے ابولزناد نے بیان کیا ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند ہوتا ہے ۔ جو گروہ اس کے بعد داخل ہو گا ان کے چہرے سب سے زیادہ چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے ۔ ان کے دل ایک ہوں گے کہ کوئی بھی اختلاف ان میں آپس میں نہ ہو گا اور نہ ایک دوسرے سے بغض و حسد ہو گا ۔ ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی ، ان کی خوبصورتی ایسی ہو گی کہ ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا ۔ وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں گے نہ ان کو کوئی بیماری ہو گی ، نہ ان کی ناک میں کوئی آلائش آئے گی اور نہ تھوک آئے گا ۔ ان کے برتن سونے اور چاندی کے اور کنگھے سونے کے ہوں گے اور ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن « ألوۃ » کا ہو گا ، ابوالیمان نے بیان کیا کہ « ألوۃ » سے عود ہندی مراد ہے ۔ اور ان کا پسینہ مشک جیسا ہو گا ۔ مجاہد نے کہا کہ « إبكار » سے مراد اول فجر ہے ۔ اور « العشي » سے مراد سورج کا اتنا ڈھل جانا کہ وہ غروب ہوتا نظر آنے لگے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  4k
حدیث نمبر: 2047 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، ان سے شعیب نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ ؓ نے کہا ، تم لوگ کہتے ہو کہ ابوہریرہ ( ؓ ) تو رسول اللہ ﷺ سے احادیث بہت زیادہ بیان کرتا ہے ، اور یہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین و انصار ابوہریرہ ( ؓ ) کی طرح کیوں حدیث نہیں بیان کرتے ؟ اصل وجہ یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازار کی خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ اور میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد پھر برابر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتا ، اس لیے جب یہ بھائی غیر حاضر ہوتے تو میں اس وقت بھی حاضر رہتا اور میں (وہ باتیں آپ سے سن کر) یاد کر لیتا جسے ان حضرات کو (اپنے کاروبار کی مشغولیت کی وجہ سے یا تو سننے کا موقعہ نہیں ملتا تھا یا) وہ بھول جایا کرتے تھے ۔ اسی طرح میرے بھائی انصار اپنے اموال (کھیتوں اور باغوں) میں مشغول رہتے ، لیکن میں صفہ میں مقیم مسکینوں میں سے ایک مسکین آدمی تھا ۔ جب یہ حضرات انصار بھولتے تو میں اسے یاد رکھتا ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو کوئی اپنا کپڑا پھیلائے اور اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک اپنی یہ گفتگو نہ پوری کر لوں ، پھر (جب میری گفتگو پوری ہو جائے تو) اس کپڑے کو سمیٹ لے تو وہ میری باتوں کو (اپنے دل و دماغ میں ہمیشہ) یاد رکھے گا ، چنانچہ میں نے اپنا کمبل اپنے سامنے پھیلا دیا ، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اپنا مقالہ مبارک ختم فرمایا ، تو میں نے اسے سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے بعد پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث نہیں بھولا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  6k
حدیث نمبر: 2543 --- ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے عمارہ بن قعقاع ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی ، انہیں مغیرہ نے ، انہیں حارث نے ، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے ، (تیسری سند) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی ، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ (وصول ہو کر آئی) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے ۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ ؓ کے پاس تھی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: بنو تمیم سے محبت کی تین وجوہات ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  4k
حدیث نمبر: 7283 --- ہم سے ابوکریب محمد بن علاء نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا ، ان سے برید نے ، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” میری اور جس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے : اے قوم ! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگ دھڑنگ تم کو ڈرانے والا ہوں ، پس بچاؤ کی صورت کرو تو اس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ چلے گئے ۔ اس لیے نجات پا گئے لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی پر موجود رہے ، پھر صبح سویرے ہی دشمن کے لشکر نے انہیں آ لیا اور انہیں مارا اور ان کو برباد کر دیا ۔ تو یہ مثال ہے اس کی جو میری اطاعت کریں اور جو دعوت میں لایا ہوں اس کی پیروی کریں اور اس کی مثال ہے جو میری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلائیں ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: کتاب و سنت کی پیروی سے ہٹنے کا نتیجہ گمراہی ہے ۔ کتاب و سنت کی پیروی سے ہٹنے کا نتیجہ گمراہی ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  4k
حدیث نمبر: 4330 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن یحییٰ نے ، ان سے عباد بن تمیم نے ، ان سے عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا ۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو نبی کریم ﷺ نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا ۔ آپ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا : اے انصاریو ! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا ۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کیا چیز مانع رہی ؟ بیان کیا کہ آپ ﷺ کے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے ، لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے جاؤ ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا ۔ لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں رہیں گے میں تو انصار کی گھاٹی اور وادی میں رہوں گا ۔ انصار استر کی طرح ہیں جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے یعنی ابرہ کی طرح ہیں ۔ تم لوگ (انصار) دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی ۔ تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  6k
حدیث نمبر: 3427 --- اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور دونوں کے ساتھ دونوں کے بچے تھے ۔ اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور ایک عورت کے بچے کو اٹھا لے گیا ۔ ان دونوں میں سے ایک عورت نے کہا بھیڑیا تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے اور دوسری نے کہا کہ تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے ۔ دونوں داؤد علیہ السلام کے یہاں اپنا مقدمہ لے گئیں ۔ آپ نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ اس کے بعد وہ دونوں سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے یہاں آئیں اور انہیں اس جھگڑے کی خبر دی ۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا چھری لاؤ ۔ اس بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان بانٹ دوں ۔ چھوٹی عورت نے یہ سن کر کہا : اللہ آپ پر رحم فرمائے ایسا نہ کیجئے ، میں نے مان لیا کہ اسی بڑی کا لڑکا ہے ۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اس چھوٹی کے حق میں فیصلہ کیا ۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ میں نے « سكين » کا لفظ اسی دن سنا ، ورنہ ہم ہمیشہ (چھری کے لیے) « مديۃ‏. » کا لفظ بولا کرتے تھے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: بچے کی ملکیت کا جھگڑا ، سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  4k
حدیث نمبر: 3473 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے محمد بن منکدر اور عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابوالنضر نے ، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا اور انہوں نے (عامر نے) اپنے والد (سعد بن ابی وقاص ؓ ) کو اسامہ بن زید ؓ سے یہ پوچھتے سنا تھا کہ طاعون کے بارے میں آپ نے نبی کریم ﷺ سے کیا سنا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا ۔ اس لیے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو ۔ ابوالنضر نے کہا یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: طاعون زدہ علاقے میں نہ جانا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  3k
حدیث نمبر: 7014 --- مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ازہر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عون نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا ، ان سے معاذ نے بیان کیا ، ان سے ابن عون نے بیان کیا ، ان سے محمد نے ، ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن سلام ؓ نے بیان کیا کہ میں نے (خواب) دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے بیچ میں ایک ستون ہے جس کے اوپر کے سرے پر ایک حلقہ ہے ۔ کہا گیا کہ اس پر چڑھ جاؤ ۔ میں نے کہا کہ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا ۔ پھر میرے پاس خادم آیا اور اس نے میرے کپڑے چڑھا دئیے پھر میں اوپر چڑھ گیا اور میں نے حلقہ پکڑ لیا ، ابھی میں اسے پکڑے ہی ہوئے تھا کہ آنکھ کھل گئی ۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ باغ اسلام کا باغ تھا اور وہ ستون اسلام کا ستون تھا اور وہ حلقہ « عروۃ الوثقى » تھا ، تم ہمیشہ اسلام پر مضبوطی سے جمے رہو گے یہاں تک کہ تمہاری وفات ہو جائے گی ۔
Terms matched: 2  -  Score: 83  -  4k
‏‏‏‏ ابن عباس ؓ نے کہا سورۃ الطارق میں جو « لما عليہا حافظ‏ » کے الفاظ ہیں ، یہاں « لما » « إلا » کے معنے میں ہے ۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے ، (سورۃ البلد میں جو) « في كبد‏ » کا لفظ آیا ہے « كبد‏ » کے معنی سختی کے ہیں ۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو « ريشا » کا لفظ آیا ہے « رياش » اس کی جمع ہے یعنی مال ۔ یہ ابن عباس ؓ کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا ، « رياش » اور « ريش » کا ایک ہی معنی ہے ۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو « تمنون‏ » کا لفظ آیا ہے اس کے معنی « نطفۃ » کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو ۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) « إنہ على رجعہ لقادر‏ » مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا ، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) « كل شىء خلقہ » کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے ۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے ، سورج چاند کا جوڑ ہے ۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے ۔ سورۃ التین میں ہے « في أحسن تقويم‏ » یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا ۔ « أسفل سافلين‏ إلا من آمن » یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا ۔ (سورۃ العصر میں) « في خسر‏ » کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا ۔ (فرمایا « الا الذين امنوا ») سورۃ والصافات میں « لازب‏ » کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ « ننشئكم‏‏ في ما لا تعلمون » یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں ۔ (سورۃ البقرہ میں) « نسبح بحمدك‏ » یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں ۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے « فتلقى آدم من ربہ كلمات‏ » » وہ کلمات یہ ہیں « ربنا ظلمنا أنفسنا‏ » اسی سورۃ میں « فأزلہما‏ » کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا ۔ (اسی سورۃ میں ہے) « لم يتسنہ‏ » یعنی بگڑا تک نہیں ۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) « آسن » یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ « مسنون » ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار ۔ (اسی سورۃ میں) « حمإ‏ » کا لفظ ہے جو « حمأۃ » کی جمع ہے یعنی بدبودار کی...
Terms matched: 2  -  Score: 74  -  9k
حدیث نمبر: 4589 --- مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے غندر اور عبدالرحمٰن نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عدی نے ، ان سے عبداللہ بن یزید نے اور ان سے زید بن ثابت ؓ نے آیت « فما لكم في المنافقين فئتين‏ » ” اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہو گئے ہو ۔ “ کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگ منافقین جو (اوپر سے) نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ، جنگ احد میں (آپ چھوڑ کر) واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو گئیں ۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ (یا رسول اللہ !) ان (منافقین) سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے ۔ اس پر یہ آیت اتری « فما لكم في المنافقين فئتين‏ » کہ ” تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو ۔ “ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مدینہ « طيبۃ » ہے ۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 73  -  4k
حدیث نمبر: 43 --- ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ہشام کے واسطے سے نقل کیا ، وہ کہتے ہیں مجھے میرے باپ (عروہ) نے عائشہ ؓ سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ان کے پاس آئے ، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی ، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ، فلاں عورت اور اس کی نماز (کے اشتیاق اور پابندی) کا ذکر کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ٹھہر جاؤ (سن لو کہ) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے ۔ اللہ کی قسم ! (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا ، مگر تم (عمل کرتے کرتے) اکتا جاؤ گے ، اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے ۔ (اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے) ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: دینی کام جو ہمیشہ کیا جائے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 73  -  3k
حدیث نمبر: 4553 --- ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے ، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، ان سے امام زہری نے بیان کیا ، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی ، کہا کہ مجھ سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان ؓ نے منہ در منہ بیان کیا ، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صلح (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی ، میں (سفر تجارت پر شام میں) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم ﷺ کا خط ہرقل کے پاس پہنچا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی ؓ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا ۔ ابوسفیان ؓ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں ۔ ابوسفیان ؓ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا ۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا ۔ اس نے پوچھا ، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ؟ ابوسفیان ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں ۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا ۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا ، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ، اگر یہ (یعنی ابوسفیان ؓ ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا ۔ ابوسفیان ؓ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم ! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (نبی کریم ﷺ کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا ۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں ؟ ابوسفیان ؓ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے ۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے ؟ بیان کیا کہ میں نے کہا ، نہیں ۔ اس نے پوچھا ، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی ؟ میں ن...
Terms matched: 2  -  Score: 72  -  25k
حدیث نمبر: 4566 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں اسامہ بن زید ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا ۔ آپ ﷺ بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے ۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) بھی موجود تھا ، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے ۔ مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے ، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے ۔ سواری کی (ٹاپوں سے گرد اڑی اور) مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ ، اتنے میں رسول اللہ ﷺ بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا ، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا ، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے ، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہو سکتا ۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا ، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں ، اپنے گھر بیٹھیں ، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں ۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا ، ضرور یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مسلمان ، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کر دیا اور آخر سب لوگ خاموش ہو گئے ، پھر آپ ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے ۔ نبی کریم ﷺ نے سعد بن عبادہ ؓ سے بھی اس کا ذکر کیا کہ سعد ! تم نے نہیں سنا ، ابوحباب ، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی ، کیا کہہ رہا تھا ؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں ۔ سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کر دیں ۔ اس ذات کی قسم ! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق ...
Terms matched: 2  -  Score: 71  -  12k
حدیث نمبر: 1977 --- ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو ابوعاصم نے خبر دی ، انہیں ابن جریج نے ، انہوں نے عطاء سے سنا ، انہیں ابوعباس شاعر نے خبر دی ، انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں ۔ اب یا نبی کریم ﷺ نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے اور ایک بھی نہیں چھوڑتا اور (رات بھر) نماز پڑھتا رہتا ہے ؟ روزہ بھی رکھ اور بے روزہ بھی رہ ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیونکہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے ، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ عبداللہ ؓ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھا کر ۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح ؟ فرمایا کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے ۔ اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے ۔ اس پر عبداللہ ؓ نے عرض کی ، اے اللہ کے نبی ! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیر جاؤں ۔ عطاء نے کہا کہ مجھے یاد نہیں (اس حدیث میں) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا ! (البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں ، دو مرتبہ (آپ ﷺ نے یہی فرمایا) ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 67  -  5k
حدیث نمبر: 2506 --- ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی ، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر ؓ نے اور (ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت) طاؤس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز (عمرہ) نہ ملاتے ہوئے (مکہ میں) داخل ہوئے ۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ ﷺ کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کر ڈالا ۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ (عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی ۔ اس پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا ۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر ؓ نے کہا کہ کچھ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو ۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا ۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا ۔ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم (حج کے ایام میں عمرہ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ جابر ؓ نے کہا کہ علی بن ابی طالب ؓ (یمن سے) آئے ۔ اب عطاء اور طاؤس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے علی ؓ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا ۔ « لبيك بما أہل بہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم‏.‏ » اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے « لبيك بحجۃ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم » کہا تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں (جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 66  -  6k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 Next >>


Search took 0.183 seconds