حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 3560 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو ۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آپ ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا ۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑتا تو آپ ﷺ اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: رسول اللہ آسان طریقہ کو پسند کرتے تھے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 48  -  3k
حدیث نمبر: 4971 --- ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی « وأنذر عشيرتك الأقربين‏ » ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں ۔ “ تو رسول اللہ ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا : یاصباحاہ ! قریش نے کہا یہ کون ہے ، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے ، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے ۔ یہ سن کر ابولہب بولا ، تو تباہ ہو ، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا ؟ پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئی « تبت يدا أبي لہب وتب‏ » الخ یعنی ” دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا ۔ “ اعمش نے یوں پڑھا « وقد تب » جس دن یہ حدیث روایت کی ۔
Terms matched: 2  -  Score: 48  -  4k
حدیث نمبر: 3245 --- ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند روشن ہوتا ہے ۔ نہ اس میں تھوکیں گے نہ ان کی ناک سے کوئی آلائش آئے گی اور نہ پیشاب ، پاخانہ کریں گے ۔ ان کے برتن سونے کے ہوں گے ۔ کنگھے سونے چاندی کے ہوں گے ۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود کا ہو گا ۔ پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہو گا اور ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی ۔ جن کا حسن ایسا ہو گا کہ پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا ۔ نہ جنتیوں میں آپس میں کوئی اختلاف ہو گا اور نہ بغض و عناد ، ان کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہا کریں گے ۔ “ ... حدیث متعلقہ ابواب: جنتیوں کو بول و براز کی حاجت نہ ہو گی ۔
Terms matched: 2  -  Score: 48  -  3k
حدیث نمبر: 3743 --- ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ ؓ شام میں تشریف لے گئے اور مسجد میں جا کر یہ دعا کی ۔ اے اللہ ! مجھے ایک نیک ساتھی عطا فرما ، چنانچہ آپ کو ابودرداء ؓ کی صحبت نصیب ہوئی ۔ ابودرداء ؓ نے دریافت کیا : تمہارا تعلق کہاں سے ہے ؟ عرض کیا کہ کوفہ سے ، اس پر انہوں نے کہا : کیا تمہارے یہاں نبی کریم ﷺ کے راز دار نہیں ہیں کہ ان رازوں کو ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ؟ (ان کی مراد ابوحذیفہ ؓ سے تھی) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں موجود ہیں ، پھر انہوں نے کہا کیا تم میں وہ شخص نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ دی تھی ۔ ان کی مراد عمار ؓ سے تھی ۔ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں وہ بھی موجود ہیں ، اس کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ آیت « والليل إذا يغشى * والنہار إذا تجلى‏ » کی قرآت کس طرح کرتے تھے ؟ میں نے کہا کہ وہ (« وما خلق » کے حذف کے ساتھ) « والذكر والأنثى‏ » پڑھا کرتے تھے ۔ اس پر انہوں نے کہا یہ شام والے ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ اس آیت کی تلاوت کو جس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا اس سے مجھے ہٹا دیں ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ۔
Terms matched: 2  -  Score: 48  -  4k
حدیث نمبر: 31 --- ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انہوں نے اسے واصل احدب سے ، انہوں نے معرور سے ، کہا میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا ۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر ! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی ، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے ۔ (یاد رکھو) ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں ۔ اللہ نے (اپنی کسی مصلحت کی بنا پر) انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: غلاموں سے ایسا کام نہ کرانا جو ان پر شاق ہو ۔
Terms matched: 2  -  Score: 38  -  4k
حدیث نمبر: 3331 --- ہم سے ابوکریب اور موسیٰ بن حزام نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے حسین بن علی نے بیان کیا ، ان سے زائدہ نے ، ان سے میسرہ اشجعی نے ، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی ۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو ، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔ “
Terms matched: 2  -  Score: 38  -  3k
حدیث نمبر: 7139 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ محمد بن جبیر بن مطعم بیان کرتے تھے کہ میں قریش کے ایک وفد کے ساتھ معاویہ ؓ کے پاس تھا کہ انہیں معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ عنقریب قبیلہ قحطان کا ایک بادشاہ ہو گا ۔ معاویہ ؓ اس پر غصہ ہوئے اور کھڑے ہو کر اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کی پھر فرمایا ، امابعد ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو نہ کتاب اللہ میں ہے اور اور نہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے ، یہ تم میں سے جاہل لوگ ہیں ۔ پس تم ایسے خیالات سے بچتے رہو جو تمہیں گمراہ کر دیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ امر (خلافت) قریش میں رہے گا ۔ کوئی بھی ان سے اگر دشمنی کرے گا تو اللہ اسے رسوا کر دے گا لیکن اس وقت تک جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے ۔ اس روایت کی متابعت نعیم نے ابن مبارک سے کی ہے ، ان سے معمر نے ، ان سے زہری نے اور ان سے محمد بن جبیر نے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 38  -  4k
حدیث نمبر: 7440 --- اور حجاج بن منہال نے بیان کیا ، کہا ہم سے حمام بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” قیامت کے دن مومنوں کو (گرم میدان میں) روک دیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ غمگین ہو جائیں گے اور (صلاح کر کے) کہیں گے کہ کاش کوئی ہمارے رب سے ہماری شفاعت کرتا کہ ہمیں اس حالت سے نجات ملتی ۔ چنانچہ وہ مل کر آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کو جنت میں مقام عطا کیا ، آپ کو سجدہ کرنے کا فرشتوں کو حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے ۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں تاکہ ہمیں اس حالت سے نجات دے ۔ بیان کیا کہ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں وہ اپنی اس غلطی کو یاد کریں گے جو باوجود رکنے کے درخت کھا لینے کی وجہ سے ان سے ہوئی تھی اور کہیں گے کہ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا ۔ چنانچہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہ فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں اور اپنی اس غلطی کو یاد کریں گے جو بغیر علم کے اللہ رب العزت سے سوال کر کے (اپنے بیٹے کی بخشش کے لیے) انہوں نے کی تھی اور کہیں گے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے خلیل ہیں ۔ بیان کیا کہ ہم سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہی عذر کریں گے کہ میں اس لائق نہیں اور وہ ان تین باتوں کو یاد کریں گے جن میں آپ نے بظاہر غلط بیانی کی تھی اور کہیں گے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ وہ ایسے بندے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توریت دی اور ان سے بات کی اور ان کو نزدیک کر کے ان سے سرگوشی کی ۔ بیان کیا کہ پھر لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں اور وہ غلطی یاد کریں گے جو ایک شخص کو قتل کر کے انہوں نے کی تھی ۔ (وہ کہیں گے) البتہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے ، اس کے رسول ، اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ۔ وہ فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ ۔ وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے ۔ چنانچہ ...
Terms matched: 2  -  Score: 31  -  13k
حدیث نمبر: 4665 --- مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا ، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا ، ان سے ابن جریج نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس اور ابن زبیر ؓ کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا ۔ میں صبح کو ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں ، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہو گی ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا : معاذاللہ ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں ۔ اللہ کی قسم ! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں ۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کر لو ۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے ، ان کے والد نبی کریم ﷺ کے حواری تھے ، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی ۔ ان کے نانا صاحب غار تھے ، اشارہ ابوبکر صدیق ؓ کی طرف تھا ۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء ؓ ۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں ، مراد عائشہ ؓ سے تھی ۔ ان کی پھوپھی نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں ، مراد خدیجہ ؓ سے تھی ۔ ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم ﷺ کی پھوپھی ان کی دادی ہیں ، اشارہ صفیہ ؓ کی طرف تھا ۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہئے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں ۔ لیکن عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو تویت ، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے ۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد ، بنو تویت ، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی ۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر ؓ نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 25  -  7k
حدیث نمبر: 6713 --- ہم سے منذر بن الولید الجارودی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوقتیبہ ، سلم شعیری نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے ، ان سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر ؓ رمضان کا فطرانہ نبی کریم ﷺ ہی کے پہلے مد کے وزن سے دیتے تھے اور قسم کا کفارہ بھی نبی کریم ﷺ کے مد سے ہی دیتے تھے ۔ ابوقتیبہ نے اسی سند سے بیان کیا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا کہ ہمارا مد تمہارے مد سے بڑا ہے اور ہمارے نزدیک ترجیح صرف نبی کریم ﷺ ہی کے مد کو ہے ۔ اور مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ اگر ایسا کوئی حاکم آیا جو نبی کریم ﷺ کے مد سے چھوٹا مد مقرر کر دے تو تم کس حساب سے (صدقہ فطر وغیرہ) نکا لو گے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں ہم نبی کریم ﷺ ہی کے مد کے حساب سے فطرہ نکالا کریں گے ؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ معاملہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ ہی کے مد کی طرف لوٹتا ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 25  -  3k
حدیث نمبر: 4749 --- ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے معمر نے ، ان سے زہری نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا « والذي تولى كبرہ‏ » یعنی اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اور مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  2k
حدیث نمبر: 4676 --- ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی (دوسری سند) احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عبداللہ بن کعب نے خبر دی کہ (ان کے والد) کعب بن مالک ؓ جب نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت « وعلى الثلاثۃ الذين خلفوا‏ » نازل ہوئی تھی ۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم ﷺ سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں ۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو ۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے ۔
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  4k
‏‏‏‏ سورۃ الکہف میں لفظ « مصرفا‏ » بمعنی لوٹنے کی جگہ کے ہے ۔ سورۃ الجن میں لفظ « صرفنا‏ » کا معنی متوجہ کیا ، بھیج دیا ۔
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  1k
حدیث نمبر: 2661 --- ہم سے ابوربیع ، سلیمان بن داؤد نے بیان کیا ، امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث کے بعض مطالب مجھ کو امام احمد بن یونس نے سمجھائے ، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا ، ان سے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے وہ قصہ بیان کیا جب تہمت لگانے والوں نے ان پر پر تہمت لگائی لیکن اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اس سے بری قرار دیا ۔ زہری نے بیان کیا (کہ زہری سے بیان کرنے والے ، جن کا سند میں زہری کے بعد ذکر ہے) تمام راویوں نے عائشہ ؓ کی اس حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا تھا ، بعض راویوں کو بعض دوسرے راویوں سے حدیث زیادہ یاد تھی اور وہ بیان بھی زیادہ بہتر طریقہ پر کر سکتے تھے ۔ بہرحال ان سب راویوں سے میں نے یہ حدیث پوری طرح محفوظ کر لی تھی جسے وہ عائشہ ؓ سے بیان کرتے تھے ۔ ان راویوں میں ہر ایک کی روایت سے دوسرے راوی کی تصدیق ہوتی تھی ۔ ان کا بیان تھا کہ عائشہ ؓ نے کہا رسول اللہ ﷺ جب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے ۔ جس کے نام کا قرعہ نکلتا ، سفر میں وہی آپ ﷺ کے ساتھ جاتی ۔ چنانچہ ایک غزوہ کے موقع پر ، جس میں آپ ﷺ بھی شرکت کر رہے تھے ، آپ ﷺ نے قرعہ ڈلوایا اور میرا نام نکلا ۔ اب میں آپ ﷺ کے ساتھ تھی ۔ یہ واقعہ پردے کی آیت کے نازل ہونے کے بعد کا ہے ۔ خیر میں ایک ہودج میں سوار رہتی تھی ، اسی میں بیٹھے بیٹھے مجھ کو اتارا جاتا تھا ۔ اس طرح ہم چلتے رہے ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا ۔ میں یہ حکم سنتے ہی اٹھی اور لشکر سے آگے بڑھ گئی ۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو کجاوے کے پاس آ گئی ۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو میرا ظفار کے کالے نگینوں کا ہار موجود نہیں تھا ۔ اس لیے میں وہاں دوبارہ پہنچی (جہاں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی) اور میں نے ہار کو تلاش کیا ۔ اس تلاش میں دیر ہو گئی ۔ اس عرصے میں وہ اصحاب جو مجھے سوار کراتے تھے ، آئے اور میرا ہودج اٹھا کر میرے اونٹ پر رکھ دیا ۔ وہ یہی سمجھے کہ میں اس میں بیٹھی ہوں ۔ ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ، بھاری بھر کم نہیں ۔ گوشت ان میں زیادہ نہیں رہتا تھا کیونکہ بہت معمولی غذا ...
Terms matched: 1  -  Score: 268  -  44k
حدیث نمبر: 3465 --- ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا ، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی ، انہیں عبیداللہ بن عمر نے ، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا ۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا ۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی ۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا ۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا ۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی ۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے ۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا ۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا ۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا ۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے ۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا ۔ پس اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو ، تو غار کا منہ کھول دے ۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی ۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا ۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے ۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں ، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور ...
Terms matched: 1  -  Score: 239  -  10k
حدیث نمبر: 3159 --- ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے ، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے ، کہا ہم سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا ، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر ہر دو نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ کفار سے جنگ کے لیے عمر ؓ نے فوجوں کو (فارس کے) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا ۔ (جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا) تو ہرمزان (شوستر کا حاکم) اسلام لے آیا ۔ عمر ؓ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان (ممالک فارس وغیرہ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں (کہ پہلے ان تین مقاموں فارس ، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے) اس نے کہا جی ہاں ! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے ، دو بازو ہیں ۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بےکار رہ جاتا ہے ۔ پس سر تو کسریٰ ہے ، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس ! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں ۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں عمر ؓ نے (جہاد کے لیے) بلایا اور نعمان بن مقرن ؓ کو ہمارا امیر مقرر کیا ۔ جب ہم دشمن کی سر زمین (نہاوند) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا ۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص (معاملات پر) گفتگو کرے ۔ مغیرہ بن شعبہ ؓ نے (مسلمانوں کی نمائندگی کی اور) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں ، انہیں بیان کرو ۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون ؟ مغیرہ ؓ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں ، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے ۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے ، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے ۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی ۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے ۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے ، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے ۔ ہماری طر...
Terms matched: 1  -  Score: 227  -  10k
حدیث نمبر: 3436 --- ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی ۔ اول عیسیٰ علیہ السلام (دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے ، نام جریج تھا ۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا ۔ انہوں نے ۔ (اپنے دل میں) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں ؟ اس پر ان کی والدہ نے (غصہ ہو کر) بددعا کی : اے اللہ ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں نے (اس کی خواہش پوری کرنے سے) انکار کیا ۔ پھر ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے اوپر قابو دے دیا اس سے ایک بچہ پیدا ہوا ۔ اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے ۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا ، انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دیں ۔ پھر انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھی ، اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے ؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر (ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور) کہا ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے ۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں ، مٹی ہی کا بنے گا (تیسرا واقعہ) اور ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی ، اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ۔ قریب سے ایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا ۔ اس عورت نے دعا کی : اے اللہ ! میرے بچے کو بھی اسی جیسا بنا دے لیکن بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ اے اللہ ! مجھے اس جیسا نہ بنانا ۔ پھر اس کے سینے سے لگ کر دودھ پینے لگا ۔ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ جیسے میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریم ﷺ اپنی انگلی چوس رہے ہیں (بچے کے دودھ پینے کی کیفیت بتلاتے وقت) پھر ایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی (جسے اس کے مالک مار رہے تھے) تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا ۔ بچے نے پھر اس کا پستان چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ ! مجھے اسی جیسا بنا دے ۔ اس عورت نے پوچھا ۔ ایسا تو کیوں کہہ رہا ہے ؟ بچے نے کہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے ایک ظالم شخص تھا اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے...
Terms matched: 1  -  Score: 217  -  8k
حدیث نمبر: 3464 --- مجھ سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا ، ان سے ہمام نے بیان کیا ، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی حمزہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا ، انہیں ہمام نے خبر دی ، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کیا ، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ، ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی ۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ اونٹ ! یا اس نے گائے کہی ، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی ۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا ، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے ۔ فرشتے نے پوچھا ، کس طرح کا مال پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ گائے ! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی ۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ بکریاں ! فرشتے...
Terms matched: 1  -  Score: 202  -  14k
حدیث نمبر: 1386 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابورجاء عمران بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے سمرہ بن جندب ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نماز (فجر) پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو ۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ ﷺ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے ۔ ایک دن آپ ﷺ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے ۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے ۔ (اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) ہمارے بعض اصحاب نے (غالباً عباس بن فضیل اسقاطی نے موسیٰ بن اسماعیل سے یوں روایت کیا ہے) لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سر کے پیچھے تک چیر دیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا ۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلیں ۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا ۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا ۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا ۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا ۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا ۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلیں ۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے ۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی ۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہ...
Terms matched: 1  -  Score: 200  -  17k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 Next >>


Search took 0.181 seconds