حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 3845 --- ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے قطن ابوالہیثم نے کہا ، ہم سے ابویزید مدنی نے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا جاہلیت میں سب سے پہلا قسامہ ہمارے ہی قبیلہ بنو ہاشم میں ہوا تھا ، بنو ہاشم کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کو قریش کے کسی دوسرے خاندان کے ایک شخص (خداش بن عبداللہ عامری) نے نوکری پر رکھا ، اب یہ ہاشمی نوکر اپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر شام کی طرف چلا وہاں کہیں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا ، اس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا ۔ اس نے اپنے نوکر بھائی سے التجا کی میری مدد کر اونٹ باندھنے کی مجھے ایک رسی دیدے ، میں اس سے اپنا تھیلا باندھوں اگر رسی نہ ہو گی تو وہ بھاگ تھوڑے جائے گا ۔ اس نے ایک رسی اسے دے دی اور اس نے اپنی بوری کا منہ اس سے باندھ لیا (اور چلا گیا) ۔ پھر جب اس نوکر اور صاحب نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا تو تمام اونٹ باندھے گئے لیکن ایک اونٹ کھلا رہا ۔ جس صاحب نے ہاشمی کو نوکری پر اپنے ساتھ رکھا تھا اس نے پوچھا سب اونٹ تو باندھے ، یہ اونٹ کیوں نہیں باندھا گیا کیا بات ہے ؟ نوکر نے کہا اس کی رسی موجود نہیں ہے ۔ صاحب نے پوچھا کیا ہوا اس کی رسی ؟ اور غصہ میں آ کر ایک لکڑی اس پر پھینک ماری اس کی موت آن پہنچی ۔ اس کے (مرنے سے پہلے) وہاں سے ایک یمنی شخص گزر رہا تھا ۔ ہاشمی نوکر نے پوچھا کیا حج کے لیے ہر سال تم مکہ جاتے ہو ؟ اس نے کہا ابھی تو ارادہ نہیں ہے لیکن میں کبھی جاتا رہتا ہوں ۔ اس نوکر نے کہا جب بھی تم مکہ پہنچو کیا میرا ایک پیغام پہنچا دو گے ؟ اس نے کہا ہاں پہنچا دوں گا ۔ اس نوکر نے کہا کہ جب بھی تم حج کے لیے جاؤ تو پکارنا : اے قریش کے لوگو ! جب وہ تمہارے پاس جمع ہو جائیں تو پکارنا : اے بنی ہاشم ! جب وہ تمہارے پاس آ جائیں تو ان سے ابوطالب پوچھنا اور انہیں بتلانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے لیے قتل کر دیا ۔ اس وصیت کے بعد وہ نوکر مر گیا ، پھر جب اس کا صاحب مکہ آیا تو ابوطالب کے یہاں بھی گیا ۔ جناب ابوطالب نے دریافت کیا ہمارے قبیلہ کے جس شخص کو تم اپنے ساتھ نوکری کے لیے لے گئے تھے اس کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ وہ بیمار ہو گیا تھا میں نے خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی (لیکن وہ مر گیا تو) میں نے اسے دفن کر دیا ۔ ابوطالب نے کہا کہ اس کے لیے تمہاری طرف سے یہی ...
Terms matched: 1  -  Score: 194  -  13k
حدیث نمبر: 4726 --- ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ، انہیں ابن جریر نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے ، دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیادہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ ایک اور صاحب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کر بیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس ؓ کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو ۔ میں نے عرض کیا : اے ابوعباس ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی (نوف بکالی) ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ ، خضر علیہ السلام سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں (ابن جریج نے بیان کیا کہ) عمرو بن دینار نے تو روایت اس طرح بیان کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھوٹی بات کہتا ہے اور یعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میں اس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا ، کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لیے مڑے ۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ، اس پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر عتاب نازل کیا ، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی ۔ (ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے) ۔ ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا ، اے پروردگار ! وہ کہاں ہے ۔ اللہ نے فرمایا جہاں (فارس اور روم کے) دو دریا ملے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے پروردگار ! میرے لیے ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں ۔ اب عمرو بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے (وہیں وہ ملیں گے) اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو ، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے (وہیں وہ ملیں گے) موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا ۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمای...
Terms matched: 1  -  Score: 194  -  25k
حدیث نمبر: 7047 --- مجھ سے ابوہشام مؤمل بن ہشام نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے ، انہوں نے کہا ہم سے عوف نے ، ان سے ابورجاء نے ، ان سے سمرہ بن جندب ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ جو باتیں صحابہ سے اکثر کیا کرتے تھے ان میں یہ بھی تھی کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔ بیان کیا کہ پھر جو چاہتا اپنا خواب نبی کریم ﷺ سے بیان کرتا اور نبی کریم ﷺ نے ایک صبح کو فرمایا کہ رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ پھر ہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسرا شخص پتھر لیے کھڑا تھا اور اس کے سر پر پتھر پھینک کر مارتا تو اس کا سر اس سے پھٹ جاتا ، پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا ، لیکن وہ شخص پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا اور اس لیٹے ہوئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا ۔ کھڑا شخص پھر اسی طرح پتھر اس پر مارتا اور وہی صورتیں پیش آتیں جو پہلے پیش آئیں تھیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں سے پوچھا سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟ فرمایا کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو ، آگے بڑھو ۔ فرمایا کہ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیرتا اور اس کی ناک کو گدی تک چیرتا اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیرتا ۔ (عوف نے) بیان کیا کہ بعض دفعہ ابورجاء (راوی حدیث) نے « فيشق » کہا ، (رسول اللہ ﷺ نے) بیان کیا کہ پھر وہ دوسری جانب جاتا ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا ۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت میں لوٹ آتی ۔ پھر دوبارہ وہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا ۔ (اس طرح برابر ہو رہا ہے) فرمایا کہ میں نے کہا سبحان اللہ ! یہ دونوں کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آگے چلو ، (ابھی کچھ نہ پوچھو) چنانچہ ہم آگے چلے پھر ہم ایک تنور جیسی چیز پر آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ اس میں شور و آواز تھی ۔ کہا کہ پھر ہم نے اس میں جھانکا تو اس کے اندر کچھ ننگے مرد اور عورتیں تھیں اور ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپن...
Terms matched: 1  -  Score: 194  -  20k
حدیث نمبر: 557 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے ، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ سے ، انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے ۔ توراۃ والوں کو توراۃ دی گئی ۔ تو انہوں نے اس پر (صبح سے) عمل کیا ۔ آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے ، کام پورا نہ کر سکے ، ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا ۔ پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی ، انہوں نے (آدھے دن سے) عصر تک اس پر عمل کیا ، اور وہ بھی عاجز آ گئے ۔ ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا ۔ پھر (عصر کے وقت) ہم کو قرآن ملا ۔ ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا (اور کام پورا کر دیا) ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا ۔ اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا ۔ اے ہمارے پروردگار ! انہیں تو آپ نے دو دو قیراط دئیے اور ہمیں صرف ایک ایک قیراط ۔ حالانکہ عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ، تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا ۔ انہوں نے عرض کی کہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ (زیادہ اجر دینا) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: اہل قرآن کا اجر اہل کتاب سے دگنا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 191  -  5k
حدیث نمبر: 5191 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ بہت دنوں تک میرے دل میں خواہش رہی کہ میں عمر بن خطاب ؓ سے نبی کریم ﷺ کی ان دو بیویوں کے متعلق پوچھوں جن کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل کی تھی ۔ « إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما‏ » الخ ۔ ایک مرتبہ انہوں نے حج کیا اور ان کے ساتھ میں نے بھی حج کیا ۔ ایک جگہ جب وہ راستہ سے ہٹ کر (قضائے حاجت کے لیے) گئے تو میں بھی ایک برتن میں پانی لے کر ان کے ساتھ راستہ سے ہٹ گیا ۔ پھر انہوں نے قضائے حاجت کی اور واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا ۔ پھر انہوں نے وضو کیا تو میں نے اس وقت ان سے پوچھا کہ یا امیرالمؤمنین ! نبی کریم ﷺ کی بیویوں میں وہ کون ہیں جن کے متعلق اللہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ « إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما‏ » عمر بن خطاب ؓ نے اس پر کہا اے ابن عباس ! تم پر حیرت ہے ۔ وہ عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ ہیں پھر عمر ؓ نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کرنی شروع کی ۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی جو بنو امیہ بن زید سے تھے اور عوالی مدینہ میں رہتے تھے ۔ ہم نے (عوالی سے) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی ۔ ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں حاضری دیتا ، جب میں حاضر ہوتا تو اس دن کی تمام خبریں جو وحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا (اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا) اور جس دن وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی ایسے کرتے ۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب تھے لیکن جب ہم مدینہ تشریف لائے تو یہ لوگ ایسے تھے کہ عورتوں سے مغلوب تھے ، ہماری عورتوں نے بھی انصار کی عورتوں کا طریقہ سیکھنا شروع کر دیا ۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پر ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ میرا جواب دینا تمہیں برا کیوں لگتا ہے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم ﷺ کی ازواج بھی ان کو جوابات دے دیتی ہیں اور بعض تو نبی کریم ﷺ سے ایک دن رات تک الگ رہتی ہیں ۔ میں اس بات پر کانپ اٹھا اور کہا کہ ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیا یقیناً وہ نامراد ہو گئی ۔ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور (مدینہ کے لیے) روانہ ہوا پھر میں حفصہ کے گھر گیا اور م...
Terms matched: 1  -  Score: 190  -  26k
حدیث نمبر: 3401 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے ۔ ابی بن کعب ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے ۔ انہوں نے عرض کیا : اے رب العالمین ! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا ؟ سفیان نے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے کہ ” اے رب ! « وكيف لي بہ » “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا ۔ بعض دفعہ راوی نے (بجائے « فہو ثم » کے) « فہو ثمہ » کہا ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا ۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح ۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا ۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی (کے متعلق کہنا) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل...
Terms matched: 1  -  Score: 187  -  24k
حدیث نمبر: 3348 --- مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) فرمائے گا ، اے آدم ! آدم علیہ السلام عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں ، مستعد ہوں ، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، جہنم میں جانے والوں کو (لوگوں میں سے الگ) نکال لو ۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے ۔ اے اللہ ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ اس وقت (کی ہولناکی اور وحشت سے) بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی ۔ اس وقت تم (خوف و دہشت سے) لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے ، حالانکہ وہ بیہوش نہ ہوں گے ۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہو گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو ، وہ ایک آدمی تم میں سے ہو گا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے ۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (محشر میں) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہو گے جتنے کسی سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال ، یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنمی ہوں گے ۔ جنت کی نصف آبادی امت محمدیہ ہو گی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 183  -  5k
حدیث نمبر: 216 --- ہم سے عثمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا ، وہ مجاہد سے وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے ۔ (وہاں) آپ ﷺ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا ۔ پھر آپ ﷺ نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا ۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ آپ ﷺ نے کیوں کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کا عذاب ۔
Terms matched: 1  -  Score: 181  -  3k
حدیث نمبر: 1454 --- ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ ابوبکر ؓ نے جب انہیں بحرین (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا ۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے ۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہو گی ۔ (پانچ سے کم میں کچھ نہیں) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہو گی جو مادہ ہوتی ہے ۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے (تو چھتیس سے) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہو گی ۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے (تو چھیالیس سے) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہو گی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے ۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے (تو اکسٹھ سے) پچھتر تک چار برس کی مادہ واجب ہو گی ۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے (تو چھہتر سے) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی ۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو (اکیانوے سے) ایک سو بیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں ۔ پھر ایک سو بیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہو گی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی ۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو (سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں) چر کر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو (چالیس سے) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہو گی اور جب ایک سو بیس سے تعداد بڑھ جائے (تو ایک سو بیس سے) سے دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی ۔ اگر دو سو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو (تو دو سو سے) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سو پر ایک بکری واجب ہو گی ۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ا...
Terms matched: 1  -  Score: 180  -  9k
حدیث نمبر: 6899 --- ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم الاسدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے بیان کیا ، ان سے آل ابوقلابہ کے غلام ابورجاء نے بیان کیا اس نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن دربار عام کیا اور سب کو اجازت دی ۔ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے پوچھا : قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ کسی نے کہا کہ قسامہ کے ذریعہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاء نے اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے ۔ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا : ابوقلابہ ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ اور مجھے عوام کے ساتھ لا کھڑا کر دیا ۔ میں نے عرض کیا : یا امیرالمؤمنین ! آپ کے پاس عرب کے سردار اور شریف لوگ رہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہو گی اگر ان میں سے پچاس آدمی کسی دمشقی کے شادی شدہ شخص کے بارے میں زنا کی گواہی دیں جبکہ ان لوگوں نے اس شخص کو دیکھا بھی نہ ہو کیا آپ ان کی گواہی پر اس شخص کو رجم کر دیں گے ۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ نہیں ۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر انہیں (اشراف عرب) میں سے پچاس افراد حمص کے کسی شخص کے متعلق چوری کی گواہی دے دیں اس کو بغیر دیکھے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے ؟ فرمایا کہ نہیں ۔ پھر میں نے کہا ، پس اللہ کی قسم کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو تین حالتوں کے سوا قتل نہیں کرایا ۔ ایک وہ شخص جس نے کسی کو ظلماً قتل کیا ہو اور اس کے بدلے میں قتل کیا گیا ہو ۔ دوسرا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو ۔ تیسرا وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی ہو اور اسلام سے پھر گیا ہو ۔ لوگوں نے اس پر کہا ، کیا انس بن مالک ؓ نے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے چوری کے معاملہ میں ہاتھ پیر کاٹ دئیے تھے اور آنکھوں میں سلائی پھروائی تھی اور پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا تھا ۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو انس بن مالک ؓ کی حدیث سناتا ہوں ۔ مجھ سے انس ؓ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی ، پھر مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑ گئے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شکایت کی ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب پیتے ۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں ۔ چنانچ...
Terms matched: 1  -  Score: 176  -  19k
حدیث نمبر: 4372 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا ، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنو حنیفہ کے (سرداروں میں سے) ایک شخص ثمامہ بن اثال نامی کو پکڑ کر لائے اور مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا ۔ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور پوچھا ثمامہ تو کیا سمجھتا ہے ؟ (میں تیرے ساتھ کیا کروں گا ؟) انہوں نے کہا : اے محمد ( ﷺ ) ! میرے پاس خیر ہے (اس کے باوجود) اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جو خونی ہے ، اس نے جنگ میں مسلمانوں کو مارا اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو (احسان کرنے والے کا) شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے مال طلب کر سکتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے آئے ، دوسرے دن آپ نے پھر پوچھا : ثمامہ اب تو کیا سمجھتا ہے ؟ انہوں نے کہا ، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں ، کہ اگر آپ نے احسان کیا تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر ادا کرتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ پھر چلے گئے ، تیسرے دن پھر آپ نے ان سے پوچھا : اب تو کیا سمجھتا ہے ثمامہ ؟ انہوں نے کہا کہ وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں ۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا « أشہد أن لا إلہ إلا اللہ ، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأشہد أن محمدا رسول اللہ » اور کہا اے محمد ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لیے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لیے محبوب نہیں ہے ۔ اللہ کی قسم کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے ۔ اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میرا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے ۔ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرہ کا ارادہ کر چکا تھا ۔ اب آپ کا کیا حکم ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بشارت دی اور عمرہ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ جب وہ مکہ پہنچے تو کسی نے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد ﷺ کے ساتھ ایمان لے آیا ...
Terms matched: 1  -  Score: 176  -  8k
حدیث نمبر: 5556 --- ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے مطرف نے بیان کیا ، ان سے عامر نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے ، انہوں نے بیان کیا کہ میرے ماموں ابوبردہ ؓ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے ۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی) کسی اور کے لیے جائز نہیں ہو گی پھر فرمایا جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کو جانور ذبح کرتا ہے اور جو عید کی نماز کے بعد قربانی کرے اس کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پا لیتا ہے ۔ اس روایت کی متابعت عبیدہ نے شعبی اور ابراہیم نے کی اور اس کی متابعت وکیع نے کی ، ان سے حریث نے اور ان سے شعبی نے (بیان کیا) اور عاصم اور داؤد نے شعبی سے بیان کیا کہ ” میرے پاس ایک دودھ پیتی پٹھیا ہے ۔ “ اور زبید اور فراس نے شعبی سے بیان کیا کہ ” میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بچہ ہے ۔ “ اور ابوالاحوص نے بیان کیا ، ان سے منصور نے بیان کیا کہ ” ایک سال سے کم کی پٹھیا ۔ “ اور ابن العون نے بیان کیا کہ ” ایک سال سے کم عمر کی دودھ پیتی پٹھیا ہے ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 171  -  5k
حدیث نمبر: 7121 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، ان سے عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی ۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی ۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور یہاں تک کہ بہت سے جھوٹے دجال بھیجے جائیں گے ۔ تقریباً تین دجال ۔ ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت ہو گی اور زمانہ قریب ہو جائے گا اور فتنے ظاہر ہو جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا اور ہرج سے مراد قتل ہے اور یہاں تک کہ تمہارے پاس مال کی کثرت ہو جائے گی بلکہ بہہ پڑے گا اور یہاں تک کہ صاحب مال کو اس کا فکر دامن گیر ہو گا کہ اس کا صدقہ قبول کون کرے اور یہاں تک کہ وہ پیش کرے گا لیکن جس کے سامنے پیش کرے گا وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور یہاں تک کہ لوگ بڑی بڑی عمارتوں پر آپس میں فخر کریں گے ۔ ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر عمارات بنائیں گے اور یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر سے گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں بھی اسی جگہ ہوتا اور یہاں تک کہ سورج مغرب سے نکلے گا ۔ پس جب وہ اس طرح طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان کے ساتھ اچھے کام نہ کئے ہوں اور قیامت اچانک اس طرح قائم ہو جائے گی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا پھیلا رکھا ہو گا اور اسے ابھی بیچ نہ پائے ہوں گے نہ لپیٹ پائے ہوں گے اور قیامت اس طرح برپا ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کر واپس ہوا ہو گا کہ اسے کھا بھی نہ پایا ہو گا اور قیامت اس طرح قائم ہو جائے گی کہ وہ اپنے حوض کو درست کر رہا ہو گا اور اس میں سے پانی بھی نہ پیا ہو گا اور قیامت اس طرح قائم ہو جائے گی کہ اس نے اپنا لقمہ منہ کی طرف اٹھایا ہو گا اور ابھی اسے کھایا بھی نہ ہو گا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 165  -  6k
حدیث نمبر: 4725 --- ہم سے عبدااللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ، کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کہا نوف بکالی کہتا ہے (جو کعب احبار کا رہیب تھا) کہ جن موسیٰ کی خضر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے (رسول) موسیٰ کے علاوہ دوسرے ہیں ۔ (یعنی موسیٰ بن میثا بن افراثیم بن یوسف بن یعقوب) ابن عباس ؓ نے کہا دشمن خدا نے غلط کہا ۔ مجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ سنانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم کسے ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر غصہ کیا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتایا کہ دو دریاؤں (فارس اور روم) کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے رب ! میں ان تک کیسے پہنچ پاؤں گا ؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لو ، وہ جہاں گم ہو جائے (زندہ ہو کر دریا میں کود جائے) بس میرا وہ بندہ وہیں ملے گا چنانچہ آپ نے مچھلی لی اور زنبیل میں رکھ کر روانہ ہوئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کے خادم یوشع بن نون بھی تھے ۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو سر رکھ کر سو گئے ، ادھر مچھلی زنبیل میں تڑپی اور اس سے نکل گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ پا لیا ۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کی روانی کو روک دیا اور پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا (یہ حال یوشع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے) پھر جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع ان کو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گئے ۔ اس لیے دن اور رات کا جو حصہ باقی تھا اس میں چلتے رہے ، دوسرے دن موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب کھانا لاؤ ، ہم کو سفر نے بہت تھکا دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اس وقت تک نہیں تھکے جب تک وہ اس مقام سے نہ گزر چکے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا ۔ اب ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس تھے تو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گیا تھا اور صرف شیطانوں نے یاد رہنے نہی...
Terms matched: 1  -  Score: 165  -  22k
حدیث نمبر: 122 --- ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے ، ان سے عمرو نے ، انہیں سعید بن جبیر ؓ نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے ، (یہ سن کر) ابن عباس ؓ بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے ۔ ہم سے ابی ابن کعب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا ، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں ۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا ۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے ۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار ! میری ان سے ملاقات کیسے ہو ؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو ، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا ۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی ، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے ، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی ، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے ، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا ، ہمارا ناشتہ لاؤ ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے ، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے ، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا ، تب ان کے خادم نے کہا ، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا ، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا ، وہ اس مچھلی پر پڑا ، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی) (یہ سن کر) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی ، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے ، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا ، خضر علیہ السلام ...
Terms matched: 1  -  Score: 161  -  17k
حدیث نمبر: 2437 --- ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ ایک جہاد میں شریک تھا ۔ میں نے ایک کوڑا پایا (اور اس کو اٹھا لیا) دونوں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دے ۔ میں نے کہا کہ ممکن ہے مجھے اس کا مالک مل جائے ۔ (تو اس کو دے دوں گا) ورنہ خود اس سے نفع اٹھاؤں گا ۔ جہاد سے واپس ہونے کے بعد ہم نے حج کیا ۔ جب میں مدینے گیا تو میں نے ابی بن کعب ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مجھ کو ایک تھیلی مل گئی تھی ۔ جس میں سو دینار تھے ۔ میں اسے لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں گیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ ، میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا اور پھر حاضر ہوا ۔ (کہ مالک ابھی تک نہیں ملا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اور اعلان کر ، میں نے ایک سال تک اس کا پھر اعلان کیا ، اور حاضر خدمت ہوا ۔ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا پھر اعلان کر ، میں نے پھر ایک سال تک اعلان کیا اور جب چوتھی مرتبہ حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ رقم کے عدد ، تھیلی کا بندھن ، اور اس کی ساخت کو خیال میں رکھ ، اگر اس کا مالک مل جائے تو اسے دیدے ورنہ اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر ۔ ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے اور انہیں سلمہ نے یہی حدیث ، شعبہ نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد مکہ میں سلمہ سے ملا ، تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیال نہیں (اس حدیث میں سوید نے) تین سال تک بتلانے کا ذکر کیا تھا یا ایک سال کا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 159  -  6k
حدیث نمبر: 602 --- ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے ، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے (اصحاب صفہ میں سے کسی) کو اپنے ساتھ لیتا جائے ۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے ۔ پس ابوبکر ؓ تین آدمی اپنے ساتھ لائے ۔ اور نبی کریم ﷺ دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ ، ماں اور میں تھا ۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر ؓ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے ۔ خیر ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺ کے یہاں ٹھہر گئے ۔ (اور غالباً کھانا بھی وہیں کھایا ۔ صورت یہ ہوئی کہ) نماز عشاء تک وہیں رہے ۔ پھر (مسجد سے) نبی کریم ﷺ کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی کریم ﷺ نے بھی کھانا کھا لیا ۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی (ام رومان) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی ، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی ۔ آپ نے پوچھا ، کیا تم نے ابھی انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا ۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انہوں نے کھانے سے انکار کیا ۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا ۔ ابوبکر ؓ نے پکارا اے غنثر ! (یعنی او پاجی) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے ۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو ! اللہ کی قسم ! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا ۔ (آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا) (عبدالرحمٰن ؓ نے کہا) اللہ گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا ۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے ۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا ۔ ابوبکر ؓ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا ۔ اپنی بیوی سے بولے ۔ بنوفراس کی بہن ! یہ کیا بات ہے ؟ ا...
Terms matched: 1  -  Score: 159  -  10k
‏‏‏‏ طاؤس نے عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کیا « ائتيا طوعا‏ » کا معنی خوشی سے اطاعت قبول کرو ۔ « قالتا أتينا طائعين‏ » ہم نے خوشی خوشی اطاعت قبول کی ۔ « أعطينا‏ » ہم نے خوشی سے دیا ۔ اور منہال بن عمرو اسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عباس ؓ سے کہنے لگا میں تو قرآن میں ایک کے ایک خلاف چند باتیں پاتا ہوں ۔ (ابن عباس ؓ نے کہا) بیان کر ۔ وہ کہنے لگا ایک آیت میں تو یوں ہے « فلا أنساب بينہم يومئذ ولا يتساءلون‏ » ” قیامت کے دن ان کے درمیان کوئی رشتہ ناطہٰ باقی نہیں رہے گا اور نہ وہ باہم ایک دوسرے سے کچھ پوچھیں گے ۔ “ دوسری آیت میں یوں ہے « وأقبل بعضہم على بعض يتساءلون‏ » ” اور قیامت کے دن ان میں بعض بعض کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے پوچھیں گے ۔ “ (اس طرح دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک آیت میں یوں ہے « ولا يكتمون اللہ حديثا‏ » ” وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے “ دوسری آیت میں ہے قیامت کے دن مشرکین کہیں گے « ربنا ما كنا مشركين‏ » ” ہم اپنے رب اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے ۔ “ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مشرک ہونا چھپائیں گے (اس طرح ان دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک جگہ فرمایا « انتم اشد خلقا أم السماء بناہا‏ » آخر تک ۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوا ۔ پھر سورۃ حم سجدہ میں فرمایا « أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين‏ » اس سے نکلتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے (اس طرح دونوں میں اختلاف ہے) اور فرمایا « وكان اللہ غفورا رحيما‏ » ” اللہ بخشنے والا مہربان تھا “ « عزيزا حكيما » ، « سميعا بصيرا » ان کے معانی سے نکلتا ہے کہ اللہ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا ، اب نہیں ہے ۔ ابن عباس ؓ نے جواب میں کہا کہ یہ جو فرمایا « فلا أنساب بينہم‏ » ” اس دن کوئی ناطہٰ رشتہ باقی نہ رہے گا “ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بیہوش ہو جائیں گے اس وقت رشتہ ناطہٰ کچھ باقی نہ رہے گا ، نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے (دہشت کے مارے سب نفسی نفسی پکاریں گے) پھر یہ جو دوسری آیت میں ہے « أقبل بعضہم على بعض » ایک دوسرے کے سامنے آ کر پوچھ تاچھ کریں گے ، یہ دوسری دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد کا حال ہے (جب میدان محشر میں سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور کسی قدر ہوش ٹھکانے آئے گا) اور یہ جو...
Terms matched: 1  -  Score: 156  -  20k
حدیث نمبر: 4037 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے ۔ “ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ نے فرمایا ” ہاں مجھ کو یہ پسند ہے ۔ “ انہوں نے عرض کیا ، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی ۔ اب محمد بن مسلمہ ؓ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا ، یہ شخص (اشارہ آپ ﷺ کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے ۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ اس پر کعب نے کہا ، ابھی آگے دیکھنا ، خدا کی قسم ! بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا ، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے ۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں ۔ تم سے ایک وسق یا (راوی نے بیان کیا کہ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں ۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے ۔ کعب بن اشرف نے کہا ، ہاں ، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو ۔ انہوں نے پوچھا ، گروی میں تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا ، اپنی عورتوں کو رکھ دو ۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو ۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ اس نے کہا ، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا ، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا ، یہ تو بڑی بے غیرتی ہو گی ۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے « اللأمۃ » گروی رکھ سکتے ہیں ۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے ۔ محمد بن مسلمہ ؓ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے ۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز د...
Terms matched: 1  -  Score: 155  -  14k
حدیث نمبر: 2291 --- ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا ، ان سے جعفر بن ربیعہ نے ، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو ۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا ۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی ۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا ۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کر کے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کر کے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی ۔ (اور اس کا قرض ادا کر دے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی ۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا ۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جا رہے ہیں) اور اس کا منہ بند کر دیا ۔ اور اسے دریا پر لے آئے ، پھر کہا ، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیے تھے ۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا ۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک (مدت مقررہ میں) پہنچا سکوں ۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی ۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی ۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہو چکے تھے ۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے ۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جا سکیں ۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو ۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی ۔ وہی جس میں مال تھا ۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی ۔ لیکن جب اسے چیرا...
Terms matched: 1  -  Score: 153  -  10k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 Next >>


Search took 0.174 seconds