حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 2215 --- ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی ، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی ، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی ۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی ۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو ، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ” اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے ۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا ۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا ۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا ۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے ۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے ۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا ، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ دوسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے ۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کر سکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو ۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی ، اور آخر اتنی اشرفی جمع کر لی ۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا ۔ تو وہ بولی ، اللہ سے ڈر ، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ ۔ اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا ۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے (نکلنے کا) راستہ بنا دے “ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔ چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا ۔ تیسرے شخص نے دعا کی ” اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق ...
Terms matched: 1  -  Score: 153  -  10k
حدیث نمبر: 3866 --- ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمرو بن محمد بن زید نے بیان کیا ، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب بھی عمر ؓ نے کسی چیز کے متعلق کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس طرح ہے تو وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کرتے تھے ۔ ایک دن وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا ۔ انہوں نے کہا یا تو میرا گمان غلط ہے یا یہ شخص اپنے جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے ۔ اس شخص کو میرے پاس بلاؤ ۔ وہ شخص بلایا گیا تو عمر ؓ نے اس کے سامنے بھی یہی بات دہرائی ۔ اس پر اس نے کہا میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو ۔ عمر ؓ نے کہا لیکن میں تمہارے لیے ضروری قرار دیتا ہوں کہ تم مجھے اس سلسلے میں بتاؤ ۔ اس نے اقرار کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ، میں اپنی قوم کا کاہن تھا ۔ عمر ؓ نے کہا غیب کی جو خبریں تمہاری جنیہ تمہارے پاس لاتی تھی ، اس کی سب سے حیرت انگیز کوئی بات سناؤ ؟ شخص مذکور نے کہا کہ ایک دن میں بازار میں تھا کہ جنیہ میرے پاس آئی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے ، پھر اس نے کہا جنوں کے متعلق تمہیں معلوم نہیں ۔ جب سے انہیں آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے وہ کس درجہ ڈرے ہوئے ہیں ، مایوس ہو رہے ہیں اور اونٹنیوں کے پالان کی کملیوں سے مل گئے ہیں ۔ عمر ؓ نے کہا کہ تم نے سچ کہا ۔ ایک مرتبہ میں بھی ان دنوں بتوں کے قریب سویا ہوا تھا ۔ ایک شخص ایک بچھڑا لایا اور اس نے بت پر اسے ذبح کر دیا اس کے اندر سے اس قدر زور کی آواز نکلی کہ میں نے ایسی شدید چیخ کبھی نہیں سنی تھی ۔ اس نے کہا : اے دشمن ! ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد مل جائے ایک فصیح خوش بیان شخص یوں کہتا ہے لا الہٰ الا اللہ یہ سنتے ہی تمام لوگ (جو وہاں موجود تھے) چونک پڑے (چل دئیے) میں نے کہا میں تو نہیں جانے کا ، دیکھو اس کے بعد کیا ہوتا ہے ۔ پھر یہی آواز آئی ارے دشمن تجھ کو ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد بر آئے ایک فصیح شخص یوں کہہ رہا ہے لا الہٰ الا اللہ ۔ اس وقت میں کھڑا ہوا اور ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ لوگ کہنے لگے یہ (محمد ﷺ ) اللہ کے سچے رسول ہیں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 151  -  7k
حدیث نمبر: 3045 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ اس سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ ؓ کے دوست ‘ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی ۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے ۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ۔ آخر عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے ۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے ۔ عاصم بن ثابت ؓ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا ۔ اے اللہ ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے ۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم ؓ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے ، یہ خبیب انصاری ؓ ابن دثنہ ؓ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی ؓ ) تھے ۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ تمہاری پہلی غداری ہے ۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی ۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا ۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ ؓ کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا ۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے ۔ خبیب ؓ کو حارث بن ع...
Terms matched: 1  -  Score: 151  -  16k
حدیث نمبر: 4086 --- مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ، انہیں معمر بن راشد نے ، انہیں زہری نے ، انہیں عمرو بن ابی سفیان ثقفی نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جاسوسی کے لیے ایک جماعت (مکہ ، قریش کی خبر لانے کے لیے) بھیجی اور اس کا امیر عاصم بن ثابت ؓ کو بنایا ، جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا ہیں ۔ یہ جماعت روانہ ہوئی اور جب عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچی تو قبیلہ ہذیل کے ایک قبیلے کو جسے بنو لحیان کہا جاتا تھا ، ان کا علم ہو گیا اور قبیلہ کے تقریباً سو تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کے نشانات قدم کو تلاش کرتے ہوئے چلے ۔ آخر ایک ایسی جگہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں صحابہ کی اس جماعت نے پڑاؤ کیا تھا ۔ وہاں ان کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو صحابہ مدینہ سے لائے تھے ۔ قبیلہ والوں نے کہا کہ یہ تو یثرب کی کھجور (کی گھٹلی) ہے اب انہوں نے پھر تلاش شروع کی اور صحابہ کو پا لیا ۔ عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو صحابہ کی اس جماعت نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر پناہ لی ۔ قبیلہ والوں نے وہاں پہنچ کر ٹیلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور صحابہ سے کہا کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اگر تم نے ہتھیار ڈال دیئے تو ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے ۔ اس پر عاصم ؓ بولے کہ میں تو کسی کافر کی حفاظت و امن میں خود کو کسی صورت میں بھی نہیں دے سکتا ۔ اے اللہ ! ہمارے ساتھ پیش آنے والے حالات کی خبر اپنے نبی کو پہنچا دے ۔ چنانچہ ان صحابہ نے ان سے قتال کیا اور عاصم اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ ان کے تیروں سے شہید ہو گئے ۔ خبیب ، زید اور ایک اور صحابی ان کے حملوں سے ابھی محفوظ تھے ۔ قبیلہ والوں نے پھر حفاظت و امان کا یقین دلایا ۔ یہ حضرات ان کی یقین دہانی پر اتر آئے ۔ پھر جب قبیلہ والوں نے انہیں پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تو ان کی کمان کی تانت اتار کر ان صحابہ کو انہیں سے باندھ دیا ۔ تیسرے صحابہ جو خبیب اور زید کے ساتھ تھے ، انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری پہلی غداری ہے ۔ انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ پہلے تو قبیلہ والوں نے انہیں گھسیٹا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے زور لگاتے رہے لیکن جب وہ کسی طرح تیار نہ ہوئے تو انہیں وہیں قتل کر دیا اور خبیب اور زید کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ۔ پھر انہیں مکہ میں لا...
Terms matched: 1  -  Score: 147  -  14k
حدیث نمبر: 4913 --- ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس ؓ کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب ؓ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا ، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا ۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا ، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے ۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا ۔ امیرالمؤمنین ! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا ؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ ؓ تھیں ۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ عمر ؓ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو ، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا ۔ بیان کیا کہ عمر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے ۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو ، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام ۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو ؟ میری بیوی نے اس پر کہا : خطاب کے بیٹے ! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (حفصہ) تو رسول اللہ ﷺ کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم ﷺ کو غصہ بھی کر دیا تھا ۔ یہ سن کر عمر ؓ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی ! کیا تم رسول اللہ ﷺ کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم ﷺ کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے ۔ حفصہ ؓ نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کی قسم ! ہم نبی کریم ﷺ کو کبھی جواب دے دیتے ہیں ۔ عمر ؓ نے کہا کہ...
Terms matched: 1  -  Score: 146  -  16k
حدیث نمبر: 2272 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے خبر دی ، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جا رہے تھے ۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی ، اور اس میں اندر داخل ہو گئے ۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا ۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں ، سوا اس کے کہ تم سب ، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا ، نہ اپنے بال بچوں کو ، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو ۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہو گئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ (میرے ماں باپ) سو چکے تھے ۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا ۔ جب ان کے پاس لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے ۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں ، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا ۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا ، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے ۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا ۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی ، اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی ۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی ، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا ، لیکن اس نے نہ مانا ۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا ۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے ۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی ۔ اب میں اس پر قابو پا چکا تھا ۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو ۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آ گیا اور وہاں سے چلا آیا ۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی...
Terms matched: 1  -  Score: 146  -  11k
حدیث نمبر: 4701 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملائکہ عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے (مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے « صفوان » کے بعد « ينفذہم ذلك » (جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے) کے الفاظ کہے ہیں ۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے ، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا ۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا ۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں ۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں (ایک پر ایک) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں ۔ پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے ۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے ، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے ۔ (کبھی سفیان نے یوں کہا) پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے ۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے ۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہو گا اور ویسا ہی ہوا ۔ اس کی بات سچ نکلی ۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  7k
حدیث نمبر: 6880 --- ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان نحوی نے ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا ۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ، ان سے حرب بن شداد نے ، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے ، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنی لیث کے ایک شخص (ابن اثوع) کو اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیا تھا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا ۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے ۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ۔ (سن لو) اس کا کانٹا نہ اکھاڑا جائے ، اس کا درخت نہ تراشا جائے اور سوا اس کے جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کوئی بھی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور دیکھو جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں اختیار ہے یا اسے اس کا خون بہا دیا جائے یا قصاص دیا جائے ۔ یہ وعظ سن کر اس پر ایک یمنی صاحب ابوشاہ نامی کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ ! اس وعظ کو میرے لیے لکھوا دیجئیے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ وعظ ابوشاہ کے لیے لکھ دو ۔ اس کے بعد قریش کے ایک صاحب عباس ؓ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ اذخر گھاس کی اجازت فرما دیجئیے کیونکہ ہم اسے اپنے گھروں میں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اذخر گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی ۔ اور اس روایت کی متابعت عبیداللہ نے شیبان کے واسطہ سے ہاتھیوں کے واقعہ کے ذکر کے سلسلہ میں کی ۔ بعض نے ابونعیم کے حوالہ سے « القتل‏.‏ » کا لفظ روایت کا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا کہ یا مقتول کے گھر والوں کو قصاص دیا جائے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  6k
حدیث نمبر: 7260 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے کہ دیہاتیوں میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرما دیجئیے ۔ اس کے بعد ان کا مقابل فریق کھڑا ہوا اور کہا انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور مجھے کہنے کی اجازت دیجئیے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کہو ۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کیا کرتا تھا ، « عسيف » بمعنی « الأجير » مزدور ہے ، پھر اس نے ان کی عورت سے زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہو گی لیکن میں نے اس کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دیا (اور لڑکے کو چھڑا لیا) پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی بیوی پر رجم کی سزا لاگو ہو گی اور میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطنی کی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ، باندی اور بکریاں تو اسے واپس کر دو اور تمہارے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے اور اے انیس ! (قبیلہ اسلم کے ایک صحابی) اس کی بیوی کے پاس جاؤ ، اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو ۔ چنانچہ انیس ؓ ان کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا پھر انیس ؓ نے اس کو سنگسار کر ڈالا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  5k
حدیث نمبر: 3414 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے ‘ ان سے عبدالعزیز بن سلمہ نے ‘ ان سے عبداللہ بن فضیل نے ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ لوگوں کو ایک یہودی اپنا سامان دکھا رہا تھا لیکن اسے اس کی جو قیمت لگائی گئی اس پر وہ راضی نہ تھا ۔ اس لیے کہنے لگا کہ ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا ۔ یہ لفظ ایک انصاری صحابی نے سن لیے اور کھڑے ہو کر انہوں نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ ابھی ہم میں موجود ہیں اور تو اس طرح قسم کھاتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا ۔ اس پر وہ یہودی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : اے ابوالقاسم ! میرا مسلمانوں کے ساتھ امن اور صلح کا عہد و پیمان ہے ۔ پھر فلاں شخص کا کیا حال ہو گا جس نے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے ‘ نبی کریم ﷺ نے اس صحابی سے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے منہ پر کیوں چانٹا مارا ؟ انہوں نے وجہ بیان کی تو آپ ﷺ غصے ہو گئے اس قدر کہ غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نمایاں ہو گئے ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں آپس میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرو ، جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی ‘ سوا ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے گا ۔ پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا ‘ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کو پکڑے ہوئے کھڑے ہوں گے ‘ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ انہیں طور کی بے ہوشی کا بدلا دیا گیا ہو گا یا مجھ سے بھی پہلے ان کی بے ہوشی ختم کر دی گئی ہو گی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  6k
حدیث نمبر: 7193 --- ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا ، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی ؓ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے ۔ پھر دوسرے فریق کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی کہا کہ یہ صحیح کہتے ہیں ، ہمارا فیصلہ کتاب اللہ سے کر دیجئیے ۔ پھر دیہاتی نے کہا میرا لڑکا اس شخص کے یہاں مزدور تھا ، پھر اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے لڑکے کا حکم اسے رجم کرنا ہے لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دے دیا ۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر ہو گا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے اور انیس (جو ایک صحابی تھے) سے فرمایا کہ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ اور اسے رجم کرو ۔ چنانچہ انیس ؓ اس کے پاس گئے اور اسے رجم کیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  4k
حدیث نمبر: 7194 --- ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا ، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی ؓ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے ۔ پھر دوسرے فریق کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی کہا کہ یہ صحیح کہتے ہیں ، ہمارا فیصلہ کتاب اللہ سے کر دیجئیے ۔ پھر دیہاتی نے کہا میرا لڑکا اس شخص کے یہاں مزدور تھا ، پھر اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے لڑکے کا حکم اسے رجم کرنا ہے لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دے دیا ۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر ہو گا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے اور انیس (جو ایک صحابی تھے) سے فرمایا کہ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ اور اسے رجم کرو ۔ چنانچہ انیس ؓ اس کے پاس گئے اور اسے رجم کیا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  4k
حدیث نمبر: 4679 --- ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھے عبیداللہ بن سباق نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت انصاری ؓ نے جو کاتب وحی تھے ، بیان کیا کہ جب (11 ھ) میں یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ مارے گئے تو ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے بلایا ، ان کے پاس عمر ؓ بھی موجود تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ، عمر ؓ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ (کفار کے ساتھ) لڑائیوں میں یونہی قرآن کے علماء اور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا ۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں ۔ ابوبکر ؓ نے کہا کہ اس پر میں نے عمر ؓ سے کہا ، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا تھا ۔ عمر ؓ نے کہا ، اللہ کی قسم ! یہ تو محض ایک نیک کام ہے ۔ اس کے بعد عمر ؓ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمر ؓ کی تھی ۔ زید بن ثابت ؓ نے بیان کیا کہ عمر ؓ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر ابوبکر ؓ نے کہا : تم جوان اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی کریم ﷺ کی وحی لکھا بھی کرتے تھے ، اس لیے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو ۔ اللہ کی قسم ! کہ اگر ابوبکر ؓ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لیے کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم ۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے ، جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا تھا تو ابوبکر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ ایک نیک کام ہے ۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا ۔ جس طرح ابوبکر و عمر ؓ کا سینہ کھولا تھا ۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال ، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے (جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا ، اس دور کے رواج کے مطابق) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے (جو قرآن کے حافظ تھے) حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری ؓ کے پاس مجھے ملیں ۔ ان کے عل...
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  11k
حدیث نمبر: 1508 --- ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزید بن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع ” زبیب “ (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے ۔ پھر جب معاویہ ؓ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 145  -  2k
حدیث نمبر: 3615 --- ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے احمد بن یزید بن ابراہیم ابوالحسن حرانی نے ، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے ، کہا ہم سے ابواسحٰق نے بیان کیا اور انہوں نے براء بن عازب ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک پالان خریدا ۔ پھر انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کے ذریعہ اسے میرے ساتھ بھیج دو ۔ براء ؓ نے بیان کیا چنانچہ میں اس کجاوے کو اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا اور میرے والد اس کی قیمت کے روپے پرکھوانے لگے ۔ میرے والد نے ان سے پوچھا اے ابوبکر ! مجھے وہ واقعہ سنائیے جب آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غار ثور سے ہجرت کی تھی تو آپ دونوں نے وہ وقت کیسے گزارا تھا ؟ اس پر انہوں نے بیان کیا کہ جی ہاں ، رات بھر تو ہم چلتے رہے اور دوسرے دن صبح کو بھی لیکن جب دوپہر کا وقت ہوا اور راستہ بالکل سنسان پڑ گیا کہ کوئی بھی آدمی گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا تھا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی ، اس کے سائے میں دھوپ نہیں تھی ۔ ہم وہاں اتر گئے اور میں نے خود نبی کریم ﷺ کے لیے ایک جگہ اپنے ہاتھ سے ٹھیک کر دی اور ایک چادر وہاں بچھا دی ۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ یہاں آرام فرمائیں میں نگرانی کروں گا ، آپ ﷺ سو گئے اور میں چاروں طرف حالات دیکھنے کے لیے نکلا ۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا ۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائے میں لانا چاہتا تھا جس کے تلے میں نے وہاں پڑاؤ ڈالا تھا ۔ وہی اس کا بھی ارادہ تھا ، میں نے اس سے پوچھا کہ تو کس قبیلے سے ہے ؟ اس نے بتایا کہ مدینہ یا (راوی نے کہا کہ) مکہ کے فلاں شخص سے ، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ۔ میں نے پوچھا کیا ہمارے لیے تو دودھ نکال سکتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ۔ چنانچہ وہ ایک بکری پکڑ کے لایا ۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے تھن کو مٹی ، بال اور دوسری گندگیوں سے صاف کر لے ۔ ابواسحٰق راوی نے کہا کہ میں نے براء بن عازب ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر تھن کو جھاڑنے کی صورت بیان کی ۔ اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا ۔ میں نے آپ ﷺ کے لیے ایک برتن اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ۔ آپ اس سے پانی پیا کرتے تھے اور وضو بھی کر لیتے تھے ۔ پھر میں آپ ﷺ کے پاس آیا (آپ سو رہے تھے) میں آپ کو جگانا پسند نہیں کرتا ...
Terms matched: 1  -  Score: 144  -  11k
حدیث نمبر: 2618 --- ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا کسی کے ساتھ کھانے کی بھی کوئی چیز ہے ؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا (آٹا) تھا ۔ وہ آٹا گوندھا گیا ۔ پھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان حال بکریاں ہانکتا ہوا آیا ۔ تو نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا یہ بیچنے کے لیے ہیں ۔ یا کسی کا عطیہ ہے یا آپ نے (عطیہ کی بجائے) ہبہ فرمایا ۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں ۔ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی پھر وہ ذبح کی گئی ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا ۔ قسم اللہ کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا ۔ جو موجود تھے انہیں تو آپ ﷺ نے فوراً ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا ۔ پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا گیا اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا ۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے ۔ او کما قال ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: ایک بکری کی کلیجی ایک سو تیس اصحاب نے کھائی ۔
Terms matched: 1  -  Score: 144  -  4k
حدیث نمبر: 1506 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عامری نے بیان کیا ‘ کہ انہوں نے ابو سعید خدری ؓ سے سنا ۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے ۔ ... حدیث متعلقہ ابواب: صدقہ فطر غلہ کی صورت میں دینا افضل ہے ۔ گیہوں ، چاول ، جو ، کھجور ، منقہ یا پنیر میں سے جو چیز زیر استعمال ہو ، وہی دینی چاہئے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 144  -  2k
حدیث نمبر: 4101 --- ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد ایمن حبشی نے بیان کیا کہ میں جابر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی (جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اس لیے خندق کی کھدائی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی) صحابہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہو گئی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اندر اترتا ہوں ۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے) آپ کا پیٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا ۔ آپ ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور چٹان پر اس سے مارا ۔ چٹان (ایک ہی ضرب میں) بالو کے ڈھیر کی طرح بہہ گئی ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئیے ۔ (گھر آ کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم ﷺ کو (فاقوں کی وجہ سے) اس حالت میں دیکھا کہ صبر نہ ہو سکا ۔ کیا تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے ۔ پھر گوشت کو ہم نے چولھے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولھے پر پکنے کے قریب تھا ۔ نبی کریم ﷺ سے میں نے عرض کیا گھر کھانے کے لیے مختصر کھانا تیار ہے ۔ یا رسول اللہ ! آپ اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کو لے کر تشریف لے چلیں ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنا ہے ؟ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بہت ہے اور نہایت عمدہ و طیب ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سے روٹی نکالیں میں ابھی آ رہا ہوں ۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ سب لوگ چلیں ۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرین تیار ہو گئے ۔ جب جابر ؓ گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے انہوں نے کہا اب کیا ہو گا ؟ رسول اللہ ﷺ تو تمام مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں ۔ انہوں نے پوچھا ، نبی کریم ﷺ نے آپ سے کچھ پوچھا بھی تھا ؟ جابر ؓ نے کہا کہ ہاں ۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اندر داخل ہو جاؤ لیکن اژدہام نہ ہونے پائے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ روٹی کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے ۔ ہانڈی اور تنور دو...
Terms matched: 1  -  Score: 142  -  9k
حدیث نمبر: 3989 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا ، انہیں ابن شہاب نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ ؓ کے شاگردوں میں شامل تھے کہ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب ؓ کے نانا ہوتے ہیں ۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی ۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا ۔ اس کے سو تیرانداز ان صحابہ ؓ کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے ۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ ؓ نے کھجور کھائی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجور (کی گٹھلیاں) ہیں ۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے ۔ جب عاصم بن ثابت ؓ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کر لیا تو ایک (محفوظ) جگہ پناہ لی ۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ اور ہماری پناہ خود قبول کر لو تو تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے ۔ عاصم بن ثابت ؓ نے کہا ۔ مسلمانو ! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا ۔ پھر انہوں نے دعا کی ، اے اللہ ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور عاصم ؓ کو شہید کر دیا ۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے ۔ یہ حضرات خبیب ، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے ۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا ۔ تیسرے صحابی نے کہا ، یہ تمہاری پہلی دغا بازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا ۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے ۔ آپ کا اشارہ ان صحابہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے ۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے ۔ (تو انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا) اور خبیب ؓ اور زید بن دثنہ ؓ کو ساتھ لے گئے اور (مکہ میں لے جا کر) انہیں بیچ دیا ۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے ۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا ۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو ...
Terms matched: 1  -  Score: 142  -  16k
حدیث نمبر: 4072 --- مجھ سے ابو جعفر محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے حجین بن مثنی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن فضل نے ، ان سے سلیمان بن یسار نے ، ان سے جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری ؓ نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار ؓ کے ساتھ روانہ ہوا ۔ جب حمص پہنچے تو مجھ سے عبیداللہ ؓ نے کہا ، آپ کو وحشی (ابن حرب حبشی جس نے غزوہ احد میں حمزہ ؓ کو قتل کیا اور ہندہ زوجہ ابوسفیان نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا) سے تعارف ہے ۔ ہم چل کے ان سے حمزہ ؓ کی شہادت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ضرور چلو ۔ وحشی حمص میں موجود تھے ۔ چنانچہ ہم نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں ، جیسے کوئی بڑا سا کپا ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے پاس کھڑے رہے ۔ پھر سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ۔ بیان کیا کہ عبیداللہ نے اپنے عمامہ کو جسم پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں دیکھ سکتے تھے ۔ عبیداللہ نے پوچھا : اے وحشی ! کیا تم نے مجھے پہچانا ؟ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس نے عبیداللہ کو دیکھا اور کہا کہ نہیں ، اللہ کی قسم ! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا ۔ اسے ام قتال بنت ابی العیص کہا جاتا تھا پھر مکہ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور میں اس کے لیے کسی دایا کی تلاش کے لیے گیا تھا ۔ پھر میں اس بچے کو اس کی (رضاعی) ماں کے پاس لے گیا اور اس کی والدہ بھی ساتھ تھی ۔ غالباً میں نے تمہارے پاؤں دیکھے تھے ۔ بیان کیا کہ اس پر عبیداللہ بن عدی ؓ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہا ، ہمیں تم حمزہ ؓ کی شہادت کے واقعات بتا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حمزہ ؓ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا ۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ ؓ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کر دیا تو تم آزاد ہو جاؤ گے ۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب قریش عینین کی جنگ کے لیے نکلے ۔ عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اور اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے ۔ تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے ہو لیا ۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے) لڑنے کے لیے ص...
Terms matched: 1  -  Score: 141  -  16k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 Next >>


Search took 0.173 seconds