حدیث اردو الفاظ سرچ

بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، سلسلہ صحیحہ البانی میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: حدیث میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ حدیث میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
تمام کتب منتخب کیجئیے: صحیح بخاری صحیح مسلم سنن ابی داود سنن ابن ماجہ سنن نسائی سنن ترمذی سلسلہ احادیث صحیحہ
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔
  سٹیمنگ ٹیکنیک سرچ کے لیے یہاں کلک کریں۔



نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: ہمیشہ ایک گروہ
کتاب/کتب میں "صحیح بخاری"
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 4019 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
حدیث نمبر: 3646 --- ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے ، ان سے زید بن اسلم نے ، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے تین آدمیوں کے لیے ہیں ۔ ایک کے لیے تو وہ باعث ثواب ہیں اور ایک کے لیے وہ معاف یعنی مباح ہیں اور ایک کے لیے وہ وبال ہیں ۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے یہ وہ شخص ہے جو جہاد کے لیے اسے پالے اور چراگاہ یا باغ میں اس کی رسی کو (جس سے وہ بندھا ہوتا ہے) خوب دراز کر دے تو وہ اپنے اس طول و عرض میں جو کچھ بھی چرتا ہے وہ سب اس کے مالک کے لیے نیکیاں بن جاتی ہیں اور اگر کبھی وہ اپنی رسی تڑا کر دو چار قدم دوڑ لے تو اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث ثواب بن جاتی ہے اور کبھی اگر وہ کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں سے پانی پی لے اگرچہ مالک کے دل میں اسے پہلے سے پانی پلانے کا خیال بھی نہ تھا ، پھر بھی گھوڑے کا پانی پینا اس کے لیے ثواب بن جاتا ہے ۔ اور ایک وہ آدمی جو گھوڑے کو لوگوں کے سامنے اپنی حاجت ، پردہ پوشی اور سوال سے بچے رہنے کی غرض سے پالے اور اللہ تعالیٰ کا جو حق اس کی گردن اور اس کی پیٹھ میں ہے اسے بھی وہ فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اس کے لیے ایک طرح کا پردہ ہوتا ہے اور ایک شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر اور دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں پالے تو وہ اس کے لیے وبال جان ہے اور نبی کریم ﷺ سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس جامع آیت کے سوا مجھ پر گدھوں کے بارے میں کچھ نازل نہیں ہوا « فمن يعمل مثقال ذرۃ خيرا يرہ * ومن يعمل مثقال ذرۃ شرا يرہ‏ » ” جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرے گا تو اس کا بھی وہ بدلہ پائے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو وہ اس کا بھی بدلہ پائے گا ۔ “
Terms matched: 1  -  Score: 140  -  6k
حدیث نمبر: 344 --- ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے ، کہا کہ ہم سے عوف نے ، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے ، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی ۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا ۔ پھر فلاں پھر فلاں ۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے ۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب ؓ تھے اور جب نبی کریم ﷺ آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے ۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں ۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے ۔ جب عمر ؓ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے ۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے ۔ اسی طرح باآواز بلند ، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم ﷺ ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے ۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ ﷺ سے شکایت کی ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں ۔ سفر شروع کرو ۔ پھر آپ ﷺ تھوڑی دور چلے ، اس کے بعد آپ ﷺ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی ۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ ﷺ کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی ۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا ۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو ۔ یہی تجھ کو کافی ہے ۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی ۔ آپ ﷺ ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین ؓ ) کو بلایا ۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور علی ؓ کو بھی طلب فرمایا ۔ ان دونوں سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو ۔ یہ دونوں نکلے ۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی ۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے ؟ ...
Terms matched: 1  -  Score: 139  -  17k
حدیث نمبر: 3906 --- ابن شہاب نے بیان کیا اور مجھے عبدالرحمٰن بن مالک مدلجی نے خبر دی ، وہ سراقہ بن مالک بن جعشم کے بھتیجے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی اور انہوں نے سراقہ بن جعشم ؓ کو یہ کہتے سنا کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے ۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیا اور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا ۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے کہا سراقہ ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( ﷺ ) ۔ سراقہ ؓ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں ۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے ، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا ۔ (سراقہ یہ سب کچھ اس لیے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا) میں گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہوا اور صبا رفتاری کے ساتھ اسے لے چلا ، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لیے ممکن تھا ، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا ۔ اسی وقت گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مجھے زمین پر گرا دیا ۔ لیکن میں کھڑا ہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میں نے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ۔ فال (اب بھی) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی ۔ پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لیے جا رہا تھا ۔ آخر جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی قرآت سنی ، نبی کریم ﷺ میری طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن ابوبکر ؓ باربار مڑ کر دیکھتے تھے ، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے جب وہ ٹخنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر گر پڑا اور اسے اٹھنے کے لیے ڈانٹا میں نے اس...
Terms matched: 1  -  Score: 138  -  21k
حدیث نمبر: 3652 --- ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ، ان سے ابواسحٰق نے اور ان سے براء ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے (ان کے والد) عازب ؓ سے ایک پالان تیرہ درہم میں خریدا ۔ پھر ابوبکر ؓ نے عازب ؓ سے کہا کہ براء (اپنے بیٹے) سے کہو کہ وہ میرے گھر یہ پالان اٹھا کر پہنچا دیں اس پر عازب ؓ نے کہا یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ وہ واقعہ بیان نہ کریں کہ آپ اور رسول اللہ ﷺ (مکہ سے ہجرت کرنے کے لیے) کس طرح نکلے تھے حالانکہ مشرکین آپ دونوں کو تلاش بھی کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مکہ سے نکلنے کے بعد ہم رات بھر چلتے رہے اور دن میں بھی سفر جاری رکھا ۔ لیکن جب دوپہر ہو گئی تو میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی سایہ نظر آ جائے اور ہم اس میں کچھ آرام کر سکیں ۔ آخر ایک چٹان دکھائی دی اور میں نے اس کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ سایہ ہے ۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے ایک فرش وہاں بچھا دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ اب آرام فرمائیں ۔ چنانچہ آپ لیٹ گئے ۔ پھر میں چاروں طرف دیکھتا ہوا نکلا کہ کہیں لوگ ہماری تلاش میں نہ آئے ہوں ۔ پھر مجھ کو بکریوں کا ایک چرواہا دکھائی دیا جو اپنی بکریاں ہانکتا ہوا اسی چٹان کی طرف آ رہا تھا ۔ وہ بھی ہماری طرح سایہ کی تلاش میں تھا ۔ میں نے بڑھ کر اس سے پوچھا کہ لڑکے تم کس کے غلام ہو ۔ اس نے قریش کے ایک شخص کا نام لیا تو میں نے اسے پہچان لیا ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا : کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ۔ اس نے کہا جی ہاں ۔ میں نے کہا : کیا تم دودھ دوہ سکتے ہوں ؟ اس نے کہا کہ ہاں ۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا اور اس نے اپنے ریوڑ کی ایک بکری باندھ دی ۔ پھر میرے کہنے پر اس نے اس کے تھن کے غبار کو جھاڑا ۔ اب میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بھی جھاڑ لے ۔ اس نے یوں اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا اور میرے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا ۔ آپ ﷺ کے لیے ایک برتن میں نے پہلے ہی سے ساتھ لے لیا تھا اور اس کے منہ کو کپڑے سے بند کر دیا تھا (اس میں ٹھنڈا پانی تھا) پھر میں نے دودھ پر وہ پانی (ٹھنڈا کرنے کے لیے) ڈالا اتنا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو اسے آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ۔ آپ بھی بیدار ہو چکے تھے ۔ میں نے عرض کیا : دودھ پی لیجئے ۔ آپ نے اتنا پیا کہ مجھے خوشی حاصل ہو گئی ، پھر میں نے عرض کیا کہ اب کوچ کا وقت ہو گیا ہے یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فر...
Terms matched: 1  -  Score: 133  -  8k
حدیث نمبر: 4322 --- اور لیث بن سعد نے بیان کیا ، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا تھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے ، ان سے ابوقتادہ ؓ کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابوقتادہ ؓ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا ، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا ، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا ۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا ۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا ۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا ۔ لوگوں میں عمر بن خطاب ؓ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا ، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ، پھر لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر جمع ہو گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا ۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا ۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی ۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم ﷺ کو دی ۔ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی ؓ ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے ، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں ۔ اس پر ابوبکر ؓ نے کہا ہرگز نہیں ، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے ، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ ﷺ نہیں دے سکتے ۔ ابوقتادہ ؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا ۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 133  -  6k
حدیث نمبر: 2718 --- ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے عامر سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ وہ (ایک غزوہ کے موقع پر) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ نبی کریم ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ ﷺ کے اصرار پر پھر میں نے آپ ﷺ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا ۔ پھر جب ہم (مدینہ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ ﷺ کو پیش کر دیا اور آپ ﷺ نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا (میں حاضر ہوا تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاؤ ، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ (اور قیمت واپس نہیں لی) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا ، ان سے عامر نے اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی ، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ (جابر ؓ نے فرمایا تھا) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا ۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے ۔ محمد بن منکدر نے جابر ؓ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی ۔ زید بن اسلم نے جابر ؓ کے واسطہ سے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے ۔ ابوالزبیر نے جابر ؓ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آپ ﷺ نے مجھے اجازت دی تھی ۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر ؓ نے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر ؓ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا ۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر ؓ سے کی ہے ۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر ؓ نے (کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں ، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا...
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  10k
حدیث نمبر: 2983 --- ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی ، انہیں ہشام نے ، انہیں وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ ہم (ایک غزوہ پر) نکلے ۔ ہماری تعداد تین سو تھی ، ہم اپنا راشن اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے ۔ آخر ہمارا توشہ جب (تقریباً) ختم ہو گیا ، تو ایک شخص کو روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملنے لگی ۔ ایک شاگرد نے پوچھا ، اے ابوعبداللہ ! (جابر ؓ ) ایک کھجور سے بھلا ایک آدمی کا کیا بنتا ہو گا ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب ایک کھجور بھی باقی نہیں رہ گئی تھی ۔ اس کے بعد ہم دریا پر آئے تو ایک ایسی مچھلی ملی جسے دریا نے باہر پھینک دیا تھا ۔ اور ہم اٹھارہ دن تک خوب جی بھر کر اسی کو کھاتے رہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  3k
حدیث نمبر: 3459 --- ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تمہارا زمانہ پچھلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ہے ، تمہاری مثال یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کچھ مزدور لیے اور کہا کہ میرا کام آدھے دن تک کون ایک ایک قیراط کی اجرت پر کرے گا ؟ یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ آدھے دن سے عصر کی نماز تک میرا کام کون شخص ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کرے گا ۔ اب نصاریٰ ایک ایک قیراط کی مزدوری پر آدھے دن سے عصر کے وقت تک مزدوری کرنے پر تیار ہو گئے ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک دو دو قیراط پر کون شخص میرا کام کرے گا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہیں ہو جو دو دو قیراط کی مزدوری پر عصر سے سورج ڈوبنے تک کام کرو گے ۔ تم آگاہ رہو کہ تمہاری مزدوری دگنی ہے ۔ یہود و نصاریٰ اس فیصلہ پر غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کو کم ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کیا میں نے تمہیں تمہارا حق دینے میں کوئی کمی کی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے ، میں جسے چاہوں زیادہ دوں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  5k
حدیث نمبر: 5974 --- ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ، انہیں ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی ۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا ۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہو تاکہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے ۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ ! میرے والدین تھے اور بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے ۔ میں ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آ کر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے ۔ ایک دن چارے کی تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چنانچہ میں رات گئے واپس آیا ۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں ۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا میں گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں ۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہو گئی ۔ پس اے اللہ ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے (دعا قبول کی اور) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کر دی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے ۔ دوسرے شخص نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا ، وہ انتہائی محبت جو ایک مرد ایک عورت سے کر سکتا ہے ۔ میں نے اس سے اسے مانگا تو اس نے انکار کیا اور صرف اس شرط پر راضی ہوئی کہ میں اسے سو دینار دوں ۔ میں نے دوڑ دھوپ کی اور سو دینار جمع کر لایا پھر اس کے پاس انہیں لے کر گیا پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور مہر کو مت توڑ ۔ میں یہ سن کر کھڑا ہو گیا (اور زنا سے باز رہا) پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کچھ اور کشادگی (چٹان کو ہٹا کر) پیدا...
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  11k
حدیث نمبر: 5382 --- ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ابوعثمان نہدی نے بھی بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے ۔ ایک صاحب نے اپنے پاس سے ایک صاع کے قریب آٹا نکالا ، اسے گوندھ لیا گیا ، پھر ایک مشرک لمبا تڑنگا اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آ گیا ۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ بیچنے کی ہیں یا عطیہ ہیں یا نبی کریم ﷺ نے (عطیہ کے بجائے) ہبہ فرمایا ۔ اس شخص نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کی ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی پھر ذبح کی گئی اور آپ نے اس کی کلیجی بھونے جانے کا حکم دیا اور قسم اللہ کی ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں کوئی شخص ایسا نہیں رہا جسے نبی کریم ﷺ نے اس بکری کی کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو مگر وہ موجود تھا تو اسے وہیں دے دیا اور اگر وہ موجود نہیں تھا تو اس کا حصہ محفوظ رکھا ، پھر اس بکری کے گوشت کو پکا کر دو بڑے کونڈوں میں رکھا اور ہم سب نے ان میں سے پیٹ بھر کر کھایا پھر بھی دونوں کونڈوں میں کھانا بچ گیا تو میں نے اسے اونٹ پر لاد لیا ۔ عبدالرحمٰن راوی نے ایسا ہی کوئی کلمہ کہا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  4k
حدیث نمبر: 4535 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے نافع نے کہ جب عبداللہ بن عمر ؓ سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے ۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے ۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں ، پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں ، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے ، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں ۔ اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے ، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا ۔ پھر دونوں جماعتیں (جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی) اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں ۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے ۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی ۔ لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے ، پیدل ہو یا سوار ، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو ۔ امام مالک نے بیان کیا ، ان سے نافع نے کہ مجھ کو یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ سے سن کر ہی بیان کی ہیں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 132  -  5k
‏‏‏‏ اور سورت کے آخری حصوں کا پڑھنا اور ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھنا یا کسی سورت کو (جیسا کہ قرآن شریف کی ترتیب ہے) اس سے پہلے کی سورت سے پہلے پڑھنا اور کسی سورت کے اول حصہ کا پڑھنا یہ سب درست ہے ۔ اور عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز میں سورۃ مومنون تلاوت فرمائی ، جب آپ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے ذکر پر پہنچے یا عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر تو آپ کو کھانسی آنے لگی ، اس لیے رکوع فرما دیا اور عمر ؓ نے پہلی رکعت میں سورۃ البقرہ کی ایک سو بیس آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں مثانی (جس میں تقریباً سو آیتیں ہوتی ہیں) میں سے کوئی سورت تلاوت کی اور احنف ؓ نے پہلی رکعت میں سورۃ الکہف اور دوسری میں سورۃ یوسف یا سورۃ یونس پڑھی اور کہا کہ عمر ؓ نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھی تھیں ۔ ابن مسعود ؓ نے سورۃ الانفال کی چالیس آتیں (پہلی رکعت میں) پڑھیں اور دوسری رکعت میں مفصل کی کوئی سورۃ پڑھی اور قتادہ ؓ نے ایک شخص کے متعلق جو ایک سورۃ دو رکعات میں تقسیم کر کے پڑھے یا ایک سورۃ دو رکعتوں میں باربار پڑھے فرمایا کہ ساری ہی کتاب اللہ میں سے ہیں ۔ (لہٰذا کوئی حرج نہیں)
Terms matched: 1  -  Score: 129  -  4k
حدیث نمبر: 1978 --- ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، مہینہ میں صرف تین دن کے روزے رکھا کر ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے ۔ اسی طرح وہ برابر کہتے رہے (کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے) یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر ۔ آپ ﷺ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ مہینہ میں ایک قرآن مجید ختم کیا کر ۔ انہوں نے اس پر بھی کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ اور برابر یہی کہتے رہے ۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین دن میں (ایک قرآن ختم کیا کر) ۔
Terms matched: 1  -  Score: 129  -  3k
حدیث نمبر: 4039 --- ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے اسرائیل نے ، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابورافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک ؓ کو ان کا امیر بنایا ۔ یہ ابورافع نبی کریم ﷺ کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا ۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا ۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا ۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو) واپس ہو چکے تھے ۔ عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں (اس قلعہ پر) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا ۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہو جاؤں ۔ چنانچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو ۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہو چکے تھے ۔ دربان نے آواز دی ، اے اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا ، میں اب دروازہ بند کر دوں گا ۔ (عبداللہ بن عتیک ؓ نے کہا) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا ۔ جب سب لوگ اندر آ گئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا ، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا ۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا ۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا ۔ اس عرصہ میں ، میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہو جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کر لوں ۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا ۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ (سو رہا) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے ۔ اس لیے میں نے آواز دی ، یا ابا رافع ؟ وہ بولا کون ہے ؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی ۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام...
Terms matched: 1  -  Score: 129  -  13k
حدیث نمبر: 1186 --- محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری ؓ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے ، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا میرے (گھر) اور قوم کی مسجد کے بیچ میں ایک نالہ تھا ، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا ۔ چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے ، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ ﷺ تشریف لا کر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کر لوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کروں گا ۔ پھر دوسرے ہی دن آپ ﷺ ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی ۔ آپ ﷺ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کرو گے ۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ ﷺ کے پیچھے صف باندھ لی ۔ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا ۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا ۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ ﷺ کو روک لیا جو تیار ہو رہا تھا ۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا ۔ ان میں سے ایک شخص بولا ۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے ! یہاں دکھائی نہیں دیتا ۔ اس پر دوسرا بولا وہ تو منافق ہے ۔ اسے اللہ اور رسول سے محبت نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر فرمایا ۔ ایسا مت کہو ، دیکھتے نہیں کہ وہ « لا إلہ إلا اللہ‏ » پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے ۔ تب وہ کہنے لگا کہ (اصل حال) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے ۔ لیکن واللہ ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے « لا إلہ إلا اللہ‏ » اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا ۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا ...
Terms matched: 1  -  Score: 129  -  11k
حدیث نمبر: 5820 --- ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں عامر بن سعد نے خبر دی ، اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو طرح کے پہناوے اور دو طرح کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ۔ خرید و فروخت میں ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ۔ ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص (خریدار) دوسرے (بیچنے والے) کے کپڑے کو رات یا دن میں کسی بھی وقت بس چھو دیتا (اور دیکھے بغیر صرف چھونے سے بیع ہو جاتی) صرف چھونا ہی کافی تھا کھول کر دیکھا نہیں جاتا تھا ۔ منابذہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی ملکیت کا کپڑا دوسرے کی طرف پھینکتا اور دوسرا اپنا کپڑا پھینکتا اور بغیر دیکھے اور بغیر باہمی رضا مندی کے صرف اسی سے بیع منعقد ہو جاتی اور دو کپڑے (جن سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا انہیں میں سے ایک) اشتمال صماء ہے ۔ صماء کی صورت یہ تھی کہ اپنا کپڑا (ایک چادر) اپنے ایک شانے پر اس طرح ڈالا جاتا کہ ایک کنارہ سے (شرمگاہ) کھل جاتی اور کوئی دوسرا کپڑا وہاں نہیں ہوتا تھا ۔ دوسرے پہناوے کا طریقہ یہ تھا کہ بیٹھ کر اپنے ایک کپڑے سے کمر اور پنڈلی باندھ لیتے تھے اور شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا ۔
Terms matched: 1  -  Score: 126  -  4k
حدیث نمبر: 6594 --- ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا مجھ کو سلیمان اعمش نے خبر دی ، کہا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا ، ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بیان سنایا اور آپ سچوں کے سچے تھے اور آپ کی سچائی کی زبردست گواہی دی گئی ۔ فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے ۔ پھر اتنی ہی مدت میں « علقۃ » یعنی خون کی پھٹکی (بستہ خون) بنتا ہے پھر اتنے ہی عرصہ میں « مضغۃ » (یعنی گوشت کا لوتھڑا) پھر چار ماہ بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کے بارے میں (ماں کے پیٹ ہی میں) چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ اس کی روزی کا ، اس کی موت کا ، اس کا کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت ۔ پس واللہ ، تم میں سے ایک شخص دوزخ والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ یا ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص جنت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں جاتا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آدم بن ابی ایاس نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ جب ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ۔
Terms matched: 1  -  Score: 125  -  5k
حدیث نمبر: 3595 --- مجھ سے محمد بن حکم نے بیان کیا ، کہا ہم کو نضر نے خبر دی ، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی ، کہا ہم کو سعد طائی نے خبر دی ، انہیں محل بن خلیفہ نے خبر دی ، ان سے عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ ﷺ سے فقر و فاقہ کی شکایت کی ، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی ، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عدی ! تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے ؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں ، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا ۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا ، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہو گا جنہوں نے شہروں کو تباہ کر دیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے (تم پر) کھولے جائیں گے ۔ میں (حیرت میں) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز (ایران کا بادشاہ) کسریٰ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز ! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تو یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا ، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہو گی (جو اس کی زکوٰۃ) قبول کر لے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے ۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا جو دن مقرر ہے اس وقت تم میں سے ہر کوئی اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ درمیان میں کوئی ترجمان نہ ہو گا (بلکہ پروردگار اس سے بلاواسطہ باتیں کرے گا) اللہ تعالیٰ اس سے دریافت کرے گا ۔ کیا میں نے تمہارے پاس رسول نہیں بھیجے تھے جنہوں نے تم تک میرا پیغام پہنچا دیا ہو ؟ وہ عرض کرے گا بیشک تو نے بھیجا تھا ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کیا میں نے مال اور اولاد تمہیں نہیں دی تھی ؟ کیا میں نے ان کے ذریعہ تمہیں فضیلت نہیں دی تھی ؟ وہ جواب دے گا بیشک تو نے دیا تھا ۔ پھر وہ اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو سوا جہنم کے اسے اور کچھ نظر نہ آئے گا پھر وہ بائیں طرف دیکھے گا تو ادھر بھی جہنم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا ۔ عدی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ جہنم سے ڈرو ، اگرچہ ...
Terms matched: 1  -  Score: 125  -  10k
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا ۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے ۔ رافع بن خدیج ؓ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا ۔ ایک تو اسے دے دیا تھا ، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل انشاء اللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا ۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا ۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جا سکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں ۔
Terms matched: 1  -  Score: 123  -  3k
حدیث نمبر: 5167 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا اور انہوں نے انس ؓ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے پوچھا ، انہوں نے قبیلہ انصار کی ایک عورت سے شادی کی تھی کہ مہر کتنا دیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا ۔ اور حمید سے روایت ہے کہ میں نے انس ؓ سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ جب (نبی کریم ﷺ اور مہاجرین صحابہ) مدینہ ہجرت کر کے آئے تو مہاجرین نے انصار کے یہاں قیام کیا عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے سعد بن ربیع ؓ کے یہاں قیام کیا ۔ سعد ؓ نے ان سے کہا کہ میں آپ کو اپنا مال تقسیم کر دوں گا اور اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو آپ کے لیے چھوڑ دوں گا ۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ اللہ آپ کے اہل و عیال اور مال میں برکت دے پھر وہ بازار نکل گئے اور وہاں تجارت شروع کی اور پنیر اور گھی نفع میں کمایا ۔ اس کے بعد شادی کی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو ۔
Terms matched: 1  -  Score: 122  -  4k
Result Pages: << Previous 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 Next >>


Search took 0.181 seconds